پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی
اب جو 3ماہ کی مہلت ملی ہے اس میں پاکستان کے لیے سفارتکاری کی مہارت ناگزیر ہے۔
پاکستان ان دنوں حکومت اور عدلیہ کے درمیان کشمکش کے اعصاب شکن دور سے گزر رہا ہے، انتخابات 2018قریب آتے جا رہے ہیں، داخلی سیاسی منظر نامہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اس کے ساتھ ہی بیرونی چیلنجز بھی خطرے کا الارم بجارہے ہیں۔
گزشتہ دنوں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل تو نہیں کیا گیا لیکن آیندہ 3ماہ تک دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کرنے کی مہلت دیکر خطرے کی گھنٹی ضرور بجا دی گئی ہے۔
تین ماہ کی مہلت ملنے پر حکومتی حلقے خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں مگر اس معاملے پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نام ہٹانے کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہوگا، ارباب اختیار کو اس مہلت پر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے کے بجائے عالمی رائے عامہ کو اپنے موقف کے حق میں ہموار کرنے کے لیے دن رات کام کرنا ہوگا۔
مبصرین کی رائے میں اس بیش قیمت مہلت کا موجودہ امریکی دباؤ کے تناظر میں جائزہ لینا چاہیے جس کا مقصد بھارت کو خوش کرنا، پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ خراب کرنا، برآمدات کے فروغ میں مشکلات پیدا کرنا، بیرونی قرضوں کے حصول کو مشکل بنانا، پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانا اور دہشت گردی کی جنگ میں ''ڈو مور'' کے امریکی مطالبے کو تسلیم کرانے کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے اس کی خاطر امریکا نے پاکستان اور چین کے اقتصادی تعاون کے خلاف بھارت سے اس حد تک گٹھ جوڑ کرلیا ہے کہ واشنگٹن خطے میں عملاً نئی دہلی کا آلہ کار بن کر رہ گیا ہے۔
پاکستان کی امداد معطل کرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا نام دہشت گردوں کو مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی واچ لسٹ میں شامل کروانے کے لیے سرگرم ہوگئی تھی اور گزشتہ ماہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے 18 سے 23 فروری تک پیرس میں ہونے والے اجلاس میں امریکا نے برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی حمایت سے پاکستان کے خلاف تحریک پیش کی۔
مخالفین امید کررہے تھے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرلیا جائے گا لیکن رکن ممالک سے ملنے والی سفارتی حمایت کے نتیجے میں پاکستان کا نام تین ماہ کے لیے واچ لسٹ میں شامل ہونے سے بچ گیا اس ضمن میں FATF کے ایشیا پیسفک گروپ کو ہدایت دی گئی کہ وہ جون 2018ء تک پاکستان کی گلوبل ٹیررسٹ فنانسنگ کے خلاف کئیے گئے اقدامات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی رپورٹ پیش کرے۔
تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ چین اور سعودی عرب جنہوں نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز پر اعتراضات کیے تھے، انھوں نے وہ اعتراضات واپس لے لیے ہیں، اگر حقیقت میں ایسا ہی ہے تو اس سے ہماری مشکلات مزید بڑھیںگی۔
کیا اسے موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا کہ دوست ممالک جو کل تک ہمارے موقف کے حامی تھے، اب وہ بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوا۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے ایثار اور قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور ہر تھوڑے عرصہ کے بعد ملک کی قیادت کو کسی نہ کسی اہم ملک یا عالمی ادارے کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑتی ہے۔
اگرچہ ملک سے دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانے ختم کیے گئے ہیں اور گزشتہ تین برس کے دوران ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر پاکستان کا اعتبار اور پوزیشن بحال نہیں ہو سکی ہے۔
اس کی اصل وجہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے معاملات میں غفلت کے سوا کچھ اور نہیں، طویل عرصے تک وزیر خارجہ ہی تعینات نہیں کیا گیا، بیرون ممالک میں ہمارے سفیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، جب انھیں کوئی ہدایات دینے والا ہی نہیں ہوگا تو پھر وہ کر بھی کیا کرسکتے ہیں؟ مخالف قوتوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے اسے دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کے سیاسی مخالفین کے نزدیک ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت حکومت نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
موجودہ صورتحال میں حکومت مخالفین کے اس الزام کو بھی تقویت ملتی ہے کہ حکومت ملک کو درپیش بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے اپنی تمام تر توانائیاں ''شریف خاندان ''کو بچانے پر صرف کررہی ہے اور ملکی سلامتی کے اہم معاملات کو پس پشت ڈالا جارہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ اختیار کردہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ امریکا یہ ہتھکنڈے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے کررہا ہے تاکہ وہ اسے افغانستان میں اپنے ایجنڈے کے مطابق خدمات سرانجام دینے پر مجبور کرسکے۔ لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مسلسل حالت جنگ میں ہونے اور افغانستان میں غیرمعمولی صورت حال کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان کو ایف اے ٹی ایف FATF جیسے فورم پرمخالفانہ قرارداد سامنے آنے پر ہی کیوں سفارتی بھاگ دوڑ کرنے کا خیال آتا ہے۔ اورعین وقت پر ہی کیوں آرڈیننس کے ذریعے اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم نامہ جاری ہوتا ہے'یہ کام بروقت کیوں نہیں ہو سکا تھا؟آخر اس صورتحال تک پہنچنے کا ذمے دار کون ہے' حکومت اگر اس کا تعین کرنے سے پہلو تہی کرتی ہے تو عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
FATF ایک انٹرنیشنل ادارہ ہے جو دنیا میں ٹیررسٹ فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے اقدامات تجویز کرتا ہے۔ اس ادارے نے گرے اور بلیک لسٹ مرتب کر رکھی ہیں جن میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف کمزور ریکارڈ رکھنے والے ممالک کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔
2017ء کی واچ لسٹ میں لیبیا، میانمار، صومالیہ، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔ پاکستان 2012ء سے 2015ء تک FATF واچ لسٹ میں شامل تھا لیکن بعد میں پاکستان کا نام اس لسٹ سے نکال دیا گیا تاہم FATF نے حکومت پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسندوں کی فنڈنگ پر پاکستان کا نام دوبارہ اس لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے، مگر حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
اب جو 3ماہ کی مہلت ملی ہے اس میں پاکستان کے لیے سفارتکاری کی مہارت ناگزیر ہے، دہشت گردوں کی فنڈنگ کے الزام کو دھونے کے لیے تین ماہ کا عرصہ ایک چیلنج سے کم نہیں۔ پاکستان کے لیے ایکشن پلان کو قابل عمل، کشش انگیز اور قائل کردینے کی مہارت سے جوڑنا ہوگا تاکہ جون میں پاکستان اس شکنجہ سے مکمل طور پر نہ صرف نکل جائے بلکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت یا منی لانڈرنگ کا الزام عالمی برادری کے ایجنڈے سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے، ظاہر ہے یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اگر اب بھی مسائل کو بر وقت حل کرنے کے بجائے موجودہ حکومت کی ''اقتدار بچاؤ اور حکومت کرو'' کی پالیسی برقرار رہی تو پھر خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال پاکستان کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے، حکومت اپنی ترجیحات بدلے، آیندہ انتخابات جیتنے اور اپنی مقبولیت بڑھانے کی ترکیبوں میں الجھنے کے بجائے بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی سوچے، ملک بیرونی خطرات سے محفوظ رہیگا تو ہی ان کی سیاست چل سکے گی، حکمراں جماعت کے کرتا دھرتا اس اہم معاملے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے اور صرف الیکشن جیتنے کی حکمت عملی بنانے کے بجائے پاکستان کو عالمی برادری میں باوقار مقام دلانے کے لیے بھی کچھ کریں۔
امریکا میں ایسی لابیز سے رابطہ کیا جائے جو واشنگٹن کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہاں کے تھنک ٹینکس تک رسائی حاصل کرکے انھیں اپنے موقف سے آگاہ کیا جائے۔امریکا کے علاوہ دنیا کے چار اور بھی ''چوہدری'' ہیں یعنی فرانس'برطانیہ'روس اور چین ان ممالک کو اپنے موقف پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے' سعودی عرب اس فورم پر ہمارے دفاع سے پیچھے کیوں ہٹا' ان معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور عملی اقدامات کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مثبت نتیجہ نہ نکلے۔ 3ماہ کی ملنے والی مہلت کو نعمت غیر مترقبہ سمجھا جائے، اگر یہ وقت بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور خواب غفلت میں ضایع کردیا تو پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ میں نہیں آئے گا۔