ہر سیتا جنگل میں ہے

سید بابر علی  اتوار 18 مارچ 2018
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

پنجاب کے ایک گاؤں میر والا میں مختاراں مائی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، برہنہ کرکے پورے گاؤں میں گھمایا گیا، لیکن شواہد اور گواہوں کی عدم موجودگی کی بنیاد پر صرف ایک ملزم کو سزا دے کر باقیوں کو رہا کردیا گیا، جب کہ عدالت میں اس کے کپڑے بھی پیش کیے گئے تھے جس پر دو ملزمان کے مادہ منویہ کے نشانات بھی موجود تھے۔

اسی طرح بلوچستان میں مریضوں کی مسیحائی کرنے والی ڈاکٹر شازیہ کو درجنوں محافظوں میں گھرے قدرتی گیس کے پلانٹ میں اس کے اپنے ہی گھر میں جنسی اور جسمانی تشدد نشانہ بنایا گیا۔ انصاف کی طلب گار ڈاکٹر شازیہ کو اپنے تحفظ کے لیے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ یہ تو صرف دو مثالیں ہیں، ہیومن رائٹس واچ کی ایک سال قبل ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون کو تشدد یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ستر سے نوے فی صد خواتین پر بدکرداری کا الزام لگایا جاتا ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں کارو کاری، ونی جیسی قبیح رسوم کتنی ہی خواتین کو زندہ درگور کر رہی ہیں۔

مَردوں کے اس معاشرے میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون اور ان کے گھر والوں کا غیراعلانیہ بائیکاٹ بھی کردیا جاتا ہے جو کہ بہ ذات خود ایک بہت بڑا جُرم ہے ، اس کا خمیازہ متاثر خاتون کو جبری شادی یا قتل کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں حقوق نسواں کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین پر تشدد عام اور سنگین مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کا اندازہ ہے کہ 70 سے 90 فی صد خواتین شوہروں، سسرالی یا دیگر رشتے داروں کے گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم پروگریسیو ویمن ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 300 نوجوان لڑکیوں کو سسرال والے زندہ جلا دیتے ہیں، جو یقیناً افسوس کی بات ہے لیکن اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم واقعات کی پولیس تحقیقات کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 70 تا 75 فی صد خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر روز 10خواتین پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے، اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں 82 فی صد خواتین اور شہری علاقوں میں 52 فی صد خواتین جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

 جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی

2010 میں خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے ’پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومین ایٹ ورک پلیس ایکٹ ‘ کے نام سے ایک قانون پاس کرکے اسے فوری طور پر پورے پاکستان میں فی الفور نافذ کیا گیا۔ اس بل کا مقصد عورتوں کو اپنا کام سر انجام دینے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے جو خوف و ہراس، بے ہودگی اور تخویف سے پاک ہو، تاکہ وہ وقار کے ساتھ کام کرنے سے متعلق اپنے قانونی حق کی تکمیل کریں۔ جس سے مقام کاراعلیٰ پیداواری حصول اور ایک بہتر معیار زندگی کو بھی قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

کام کرنے والی اکثر عورتوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی خوف و ہراس ہے جو خود کو اور اپنے خاندان کو غربت و فلاس سے نکالنے کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں، لیکن ہراساں ہونے کے سبب گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ یہ بل اس ملک کی ترقی کے لیے ہر سطح پر عورتوں کو پوری طرح شرکت کرنے کے راستے کھولتا ہے۔ اس بل کا بنیاد مقصد عورتوں کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنے کے اصولوں اور بلاخوف و خطر اور امتیازی سلوک کے اپنی روزی حاصل کرنے کے حق پر رکھی گئی ہے جیسا کہ دستور میں دیا گیا ہے۔ یہ بل حکومت کے ان وعدوں کی تکمیل کرتا ہے جو اعلیٰ بین الاقوامی لیبر معیار اور خواتین کے بااختیار ہونے کے سلسلے میں کیے گئے ہیں۔

یہ انسانی حقوق کے ڈیکلریشن، خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اشکال کو ختم کرنے کے اقوام متحدہ کے کنونشن اور کارکنوں کے حقوق پر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنوینشن 100اور111کی بھی حمایت کرتا ہے ۔ یہ اسلام کے اصولوں اور ہمارے ملک میں دیگر تمام مذاہب کی حمایت کرتا ہے جو خواتین کے وقار کو یقینی بناتے ہیں۔ یہ بل تمام سرکاری اور پرائیویٹ آرگنائزیشنوں سے اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ ایک داخلی ضابطہ اخلاق اور شکایت/اپیل کا طریقہ کار اختیار کریں جس کا مقصد تمام کام کرنے والی عورتوں کے لیے کام کرنے کے لیے محفوظ، خوف اور بے ہودگی سے پاک ماحول تشکیل دینا ہو۔ اس کے ذریعے وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک محتسب کا قیام بھی ہے۔

اس قانون کی رُو سے؛

اگر کام کی جگہ پر کوئی ملازم، مالک، ٹھیکے دار کسی خاتون کی جانب ناپسندیدہ جنسی پیش قدمی، جنسی خواہش پوری کرنے کی استدعا یا دیگر زبانی یا تحریری روابط یا جنسی نوعیت کا جسمانی طرز عمل یا جنسی تذلیل جو کام کی انجام دہی میں رکاوٹ کا سبب بنے یا خوف وہراس یاجارحانہ یامخالفانہ ماحول کا باعث بنے ، تو مذکورہ ادارہ ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے گا جو اس ایکٹ کے تحت شکایات کی انکوائری کرے گا۔

یہ کمیٹی تین اراکین پر مشتمل ہو گی جن میں سے کم ازکم ایک رکن عورت ہوگی۔ ایک رکن سنیئر انتظامیہ سے ہو گا اور جہاں سی بی اے (CBA)موجود نہ ہو تو ملازمین کا سنیئر نمائندہ یا کوئی سینئر ملازم ہو گا۔ ایک یا زائد اراکین کو ادارے کے باہر سے شریک رکن کے طور پر شامل کیا جائے گا بشرطے کہ آرگنائزیشن بیان کردہ تین ارکان کو نام زد کرنے کے قابل نہ ہو۔

چیئر پرسن ان میں سے نام زد کیا جائے گا۔ اگر الزام تفتیشی کمیٹی کے کسی رکن کے خلاف دائر کی جائے تو اس مخصوص معاملے کے لیے اس رکن کی بجائے کسی دوسرے رکن کو مقرر کر دیا جائے گا۔ انکوائری کمیٹی تحریری شکایت ملنے کے تین دن کے اندر ملزم کو ان الزامات اور فردجرم سے تحریری آگاہ کرے گی جو اس کے خلاف عائد کیے گئے ہوں، اور اسے سات دن کے اندر تحریری دفاع پیش کرنے کا حق دیا جائے گا اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر رہا تو کمیٹی یک طرفہ کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی۔ تحقیقاتی کمیٹی انکوائری کے انعقاد سے تیس دنوں کے اندر اپنے اخذ کردہ نتائج اور سفارشات حاکم مجاز کو پیش کرے گی۔ اگر انکوائری کمیٹی ملزم کو قصوروار سمجھتی ہے تو پھر وہ اس پر درج ذیل میں سے ایک یا ایک سے زائد سزائیں عائد کرسکتی ہے۔

 معمولی سزائیں     

(الف) ملامت کرنا

(ب) ایک مقررہ مدت کے لیے اس کی پروموشن اور انکریمنٹ کو روکنا؛

(ج)ایک مخصوص مدت تک ٹائم سکیل میں اہلیتی حد کو روکنا، بصورت دیگر مذکورہ حد عبور کرنے کے لیے نااہل قرار دینا؛

(د) متاثرہ خاتون کو قابل ادا معاوضہ ملزم کی تنخواہ یا کسی دوسرے ذرائع سے ادا کرنا؛

 بڑی سزائیں

(الف) عہدے یا ٹائم سکیل میں تخفیف یا ٹائم سکیل کے نچلے درجے میں لانا؛

(ب) جبری ریٹائرمنٹ                    (ج) ملازمت سے برطرفی؛ اور

(د)ملازمت سے موقوفی       (ہ) جرمانہ

اس قانون کے تحت آجر پر اس ایکٹ پر عمل درآمد، کام کی جگہ پر خوف وہراس سے تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمے داری عائد کی گئی ہے اور اس ایکٹ کی تعمیل نہ کرنے والے آجر پر 25 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

مقام کار پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضابطۂ اخلاق

’پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومین ایٹ ورک پلیس ایکٹ‘ کے تحت بنائے گئے ضابطۂ اخلاق کے مطابق؛

(الف) تمام ملازمین بشمول انتظامیہ اور آرگنائزیشن کے مالکان کے کام کے لیے خوف وہراس سے پاک ماحول کو یقینی بنائیں؛

(ب) کسی بھی فرد کا (مالکان، ملازمین) خاتون ملازمین سے ناخوش گوار جنسی تعلق، جنسی میلان کی استدعا کرنا یا کوئی زبانی یا تحریری مراسلت یا جنسی نوعیت کے عملی اقدام یا جنسی تذلیل جو کام کی انجام دہی میں مداخلت کا سبب بنے یاخوف ناک ، مخالفانہ یا جارحانہ ماحول پیدا کرنا یا مذکورہ تقاضہ پورا نہ کرنے پر مذکورہ خاتون کو سزا دینے کی کوشش کرنا، ملازمت پر رکھنے، اجرت میں اضافے، ترقی، تربیت کے مواقع، تبادلے کے عوض یا ملازمت جیسے بعض فوائد دینے کے عوض جنسی میلان پیدا کرنے کاتقاضہ قابل دست اندازی پولیس ہے۔

(ج) مخالفانہ ماحول پیدا کرنا؛

کوئی بھی ناخوش گوار جنسی تعلق ، جنسی میلان یا جنسی نوعیت کا کوئی دوسرا زبانی یا عملی طریقہ اختیار کرنے کی استدعا کرنا جو کسی فرد کی کام کی کارکردگی پر اثر انداز یا کام کے ماحول میں خوف وہراس ، بیہودگی یا جارحیت پیدا کرتا ہو۔

مخصوص ’’ناموافق ماحول‘ کا دعویٰ بالعموم جارحانہ رویے کے نتائج کی مثال کا متقاضی ہوتا ہے، تاہم ایسے مقدمات جن میں بالخصوص خوف وہراس پھیلایا جائے، مثلاً ایسے مقدمات جن میں جسمانی تعلق پایا جائے تنہا ہی جارحانہ واقعے کی خلاف ورزی کا تعین کرے گا۔

پاکستان میں خواتین سے جنسی درندگی اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لاتعداد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، اور جن کا مقدمہ درج ہوتا ہے ان پر ملزمان کو سزا کم ہی ہوتی ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے خواتین کا جنسی استیصال کرنے والوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور پاکستان میں حوا کی بیٹی کے لیے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔