حکومتی دعوے اور اقتصادی صورتحال

اگر یہی ترقی ہے تو پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے جہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں


عتیق الرحمٰن March 26, 2018
اگر یہی ترقی ہے تو پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے جہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کو ہیں جبکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عدالتی کارروائی سے بچنے کےلیے پرسرار بیماری اور اس کےعلاج کےلیے ملک سے باہر جانا کچھ دن میڈیا کی زینت بنا جس کے توڑ اور آنے والے الیکشن میں عوام کو گمراہ کرنے کےلیے حکومت بہتر کارکردگی کا راگ الاپ رہی ہے جبکہ اپوزیشن اس کے برعکس موقف رکھتی ہے۔ ایک وزیر موصوف تو یہ تک کہ گئے کہ اسحاق ڈار جنہوں نے پاکستان کی اقتصادی حالت کی بہتری کےلیے کارہائے نمایاں انجام دیئے، اس کے صلے میں انہیں ایوارڈ دینے کی جگہ ان پر کیس قائم کردیئے گئے ہیں۔

ایسے وقت میں یہ ضروری ہے کہ اعداد و شمار کی روشنی میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بیان اور اس کا دیگر ممالک سے تقابل کیا جائے تاکہ سادہ لوح عوام یہ جان سکیں کہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے کہاں کھڑا ہے۔

پاکستان جو 207 ملین آبادی کے ساتھ دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، اس کی مجموعی قومی معیشت صرف 306 بلین ڈالرز ہے جو عالمی رینکنگ میں 42 ویں نمبر پر آتی ہے جب کہ کراچی جتنا ایک چھوٹا سا ملک سنگاپور دنیا کی 37 ویں بڑی معیشت ہے۔ ہمارے ہمسائے میں موجود انڈیا 2239 بلین ڈالرز کے ساتھ چھٹی اور چائنا 12.40 ٹریلین (12400 بلین) ڈالر کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔

پاکستان کی فی کس آمدنی 1629 ڈالر ہے۔ اس لحاظ سے ہر پاکستانی کی آمدنی 146 ممالک کی فی کس آمدنی سے کم ہے جبکہ بنگلہ دیش اور انڈیا، جن کی غربت کے قصے ہمارے یہاں زبان زد عام ہیں، ان میں بھی بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان کے برابر اور انڈیا کی 1852 ڈالر کے ساتھ پاکستان سے زیادہ ہے۔ سنگاپور کی اوسط فی کس آمدنی 53880 ڈالر ہے جو دنیا میں 9 ویں نمبر پر زیادہ آمدنی والا ملک ہے۔ سنگاپور میں مجموعی افرادی قوت (لیبر فورس) 36 لاکھ 61 ہزار جبکہ پاکستان کی 6 کروڑ ہے۔ سنگاپور اپنی لیبر فورس کی صلاحیتوں پر سرمایہ کاری کرکے اور اسے بہتر بنا کر ہم سے آگے نکل گیا جبکہ ہم ہر قسم کے وسائل اور ذرائع رکھنے کے باوجود پسماندہ ہیں۔ سنگاپور میں نہ ہی پیٹرول ہے اور نہ ہی سونے اور دیگر معدنیات کے ذخائر اور نہ ہی زرعی زمین۔

موجودہ حکومت تاریخ میں سب سے زیادہ قرض لے کر ملکی معیشت کو اب تک کی اونچی سطح پر لے جانے کے دعوے کرتی ہے لیکن جب اس کا دوسرے ممالک سے تقابل کیا جائے تو حقیقت کھل کر عیاں ہوجاتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت 19.8 بلین ڈالرز جبکہ بنگلہ دیش، جو 1971 میں ہم سے علیحدہ ہوا اور رقبے و آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے چھوٹا ہے، اس کے ذخائر 33.2 بلین ڈالرز ہیں۔ انڈیا 402 بلین ڈالرز، چین 3000 بلین ڈالرز اور چھوٹے سے ملک سنگاپور کے زرمبادلہ کے ذخائر 279 بلین ڈالرز ہیں۔

پاکستانی ایکسپورٹ 20 سال پہلے جہاں کھڑی تھی، آج بھی وہیں یعنی 21.938 بلین ڈالرز پر ہے جبکہ بنگلہ دیش 34.02 بلین ڈالرز، انڈیا 275.8 بلین ڈالرز، چین 2.26 ٹریلین ڈالرز اور سنگاپور 329.7 بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومتوں نے اقتصادی میدان میں کیسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔

پاکستان کی درآمدات 21.938 بلین ڈالرز اور درآمدات 48.506 بلین ڈالرز کے درمیان کوئی تناسب نہیں؛ اور اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی فارن کرنسی کی صورت میں 19.3 بلین ڈالرز سالانہ زرمبادلہ نہ بھیجیں تو حکومت اس قابل بھی نہیں کہ وہ ایک سال کی درآمدات کی ادائیگی ہی کرسکے۔

پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی 47 بلین ڈالر ہے جبکہ سنگاپور 70 بلین ڈالر کی آمدنی رکھتا ہے۔ جو ملک کماتا ہی نہیں، وہ عوام پر خرچ کیا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور عوام بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی پنجاب میں 10 ملین، خیبر پختونخوا میں 2.2 ملین، سندھ 6 ملین، اور بلوچستان میں 1.8 ملین بچے اسکول ہی نہیں جارہے۔ تعلیم کے بغیر ترقی، دیوانے کا وہ خواب ہے جو کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔

عوام کی اکثریت اس وقت اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھوا رہی ہے اور جو اس کے وسائل نہیں رکھتے، ان کے بچے زیور تعلیم سے ہی محروم ہیں۔ تعلیمی معیار کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہی ملک کی ڈگری کوئی یونیورسٹی ماننے کو تیار نہیں اور داخلے کےلیے اینٹری ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کےلیے یونیورسٹیز کی تعداد انتہائی کم ہے اور جمہوری ادوار میں قابل ذکر تعداد میں یونیورسٹیز بنائی ہی نہیں گئیں۔

صحت کے معیار کا یہ عالم ہے کہ جو لوگ سرکاری اسپتالوں میں کسی طرح پہنچ ہی جاتے ہیں، انہیں بھی سہولیات میسر نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش بھی اب اسپتالوں کی راہداریوں میں ہورہی ہے۔

اگر یہی ترقی ہے تو پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے جہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اور عوام چین کی بانسری بجارہے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی حالت بدحالی ہی کی وجہ سے امریکا اتنی قربانیوں کے باوجود ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے کیونکہ جو مانگ کر جیتے ہیں ان کی عزت اور مرضی نہیں ہوتی، دینے والا اپنی شرائط پر عمل درآمد کرواتا ہے۔ اب بھی وقت ہے جمہوری حکومتیں ہوش کے ناخن لیں، ایسا نہ ہو کہ عوام ان ہی سے نجات کے بارے میں سوچنے لگیں کیونکہ جب پیٹ بھرنے کےلیے روٹی نہ ہو اور عزت نفس کو مجروح کیا جائے تو قومیں انقلاب کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express۔com۔pk پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں