ماں کی دعا کا کرشمہ

نامور قلمکار کے اوراق زندگی سے ایک سبق آموز واقعہ۔


سلیم احمد March 27, 2018
نامور قلمکار کے اوراق زندگی سے ایک سبق آموز واقعہ۔ فوٹو: فائل

اٹلی کی صوفیہ لورین اپنی منفرد اداکاری کے باعث شہرت رکھتی ہے۔ یہ بچپن میں بہت غریب تھی۔ بعض اوقات پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہوتا۔ ظالم باپ ماں بیٹی کو بے یارومددگار چھوڑ کر چلاگیا تھا۔ ایسے میں ماں ہی نے بڑی تنگ دستی میں بیٹی کی پرورش کی اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ چناں چہ صوفیہ لورین اپنی کامیابیوں کا سہرا ماں کے سر باندھتی ہے۔

اس نے اپنی آپ بیتی میں ایک خوبصورت بات لکھی ہے:''عورت جب ماں بن جائے تو وہ کبھی اپنی سوچوں میں تنہا نہیں رہتی، تب اسے ہمیشہ دو بار سوچنا پڑتا ہے... ایک بار اپنے اور دوسری دفعہ بچے کے لیے۔''

ممتاز ادیب و دانش ور سید قاسم محمود بھی اپنی والدہ کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں جن کی آٹھویں برسی 31 مارچ کو منائی جارہی ہے۔ قاسم صاحب چھوٹے سے قصبے کے مکین تھے۔ والد بچپن ہی میں یتیم ہو گئے۔رشتے داروں نے ان کی زمین ٹھیکے پر چڑھا دی۔تعلیم وتربیت دینے والا کوئی نہ تھا لہذا وہ کھیل تماشوں میں پڑ گئے۔شادی کے بعد یہ حال تھا کہ ٹھیکے دار سے جو رقم ملتی، وہ ہندو بنیے کے قرضے چکانے اور مشاغل مثلاً کبوتر بازی وغیرہ پر خرچ ہوجاتی۔گھرانا عام طور پہ تنگ دستی کا شکار رہتا۔

والدہ ناخواندہ تھیں،ایک حرف بھی پڑھنا نہ آتا۔مگر ان کی سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ بیٹا قاسم لکھ پڑھ کر ''بابو'' بن جائے۔شاید چھٹی حس نے احساس دلایا کہ بیٹے کو دینی اور دنیاوی، دونوں قسم کی تعلیم حاصل کرنا چاہیے تبھی وہ دین اور دنیا میں کامیابی پاسکے گا ۔ اسی لیے شوہر سے لڑ جھگڑ کر انہوں نے بیٹے کو سکول میں داخل کرادیا۔ اس کے بعد ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا جو ماں کی محبت، ایثار اور قربانیاں عیاں کرتا ہے۔

ہوا یہ کہ مارچ 1940ء میں صوبہ پنجاب میں پرائمری اسکالر شپ کا امتحان ہونا تھا۔ سینٹر قصبے (کھرکھودہ، نزد دہلی) سے سترہ میل دور واقع روہتک شہر میں پڑا۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے سات دن بعد 31 مارچ کو امتحان کا آغاز ہونا تھا۔ ایک ماسٹر، علیم الدین نے قصباتی اسکول کی تاریخ میں پہلی بار سات بچے برائے امتحان تیار کیے تھے ۔روہتک میں قیام کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر ایک روپیہ درکار تھا: چودہ آنے بس میں جانے آنے کا کرایہ اور دو آنے کھانے پینے کے لیے۔ قاسم صاحب نے ماں کو بتایا۔ ماں نے شوہر سے ایک روپیہ مانگا۔ جواب آیا ''روہتک جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنے بیٹے کو کافروں کی تعلیم نہیں دینی۔''

گھر میں سارا سودا سلف ہندو بنیے سے ادھار پر آتا تھا لہٰذا گھر میں ایک پیسا بھی نہ ہوتا۔ اب ایک روپیہ کہاں سے آتا؟ اس رات میاں بیوی کے مابین سخت لڑائی ہوئی مگر ایک روپیہ ہاتھ نہ آسکا۔چناں چہ 30 مارچ کی صبح ماسٹر علیم الدین صبح ساڑھے سات بجے کی بس سے چھ بچوں کو لیے روہتک چلے گئے۔ بارہ سالہ قاسم چھپ کر انہیں دیکھتے اور آنسو بہاتے رہے۔امتحان نہ دینے کا غم علم سے محبت کرنے والے لڑکے پر ایسا سوار ہوا کہ تیز بخار چڑھ گیا۔ وہ نیم بیہوشی میں بار بار یہی کہتے رہے ''میں روہتک جاؤں گا، میں روہتک جاؤں گا۔''

مان سے بیٹے کی حالت نہ دیکھی گئی۔ اپنے سگے ماموں صابر کو بلایا اور کہا ''ماموں! یہ میری سونے کی بالی بیچ آؤ۔ یہ میرا آخری زیور ہے۔کشو (قاسم محمود) نے امتحان کی تیاری کررکھی ہے۔ اس کو روہتک جانے کے لیے رقم چاہیے۔''

ماموں بولے ''بیٹی، تم دیکھ رہی ہو کہ اسے بخار چڑھا ہے۔ یہ روہتک کیسے جائے گا؟''

''آپ بس جلدی سے بالی بیچ آئیں۔ اللہ مالک ہے۔''

سونے کی بالی چار روپے میں فروخت ہوئی۔جب روپے ہاتھ میں آئے تو ماں نے رب کائنات کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعا مانگی کہ اے اللہ،میرے بچے کو صحت عطا فرما تاکہ وہ امتحان دینے کا اپنا ارمان پورا کر سکے۔دکھی ماں کی فریاد سے خدا کی قدرت جوش میں آئی اور اسی وقت بخار کا زور ٹوٹنے لگا۔حتی کہ شام کو ماموں قاسم صاحب کو بس سٹاپ چھوڑ آئے جہاں آخری بس جانے ہی والی تھی۔ایک قصباتی لڑکا پھر کس طرح تکالیف اٹھا کر روہتک پہنچا اور ماسٹر علیم الدین کو ڈھونڈا یہ اپنی جگہ ڈرامائی داستان ہے۔

قصّہ مختصر کہ انہوں نے امتحان دیا۔ ماں کی دعائیں قدم قدم پر ساتھ تھیں۔چند ماہ بعد یہ خوش خبری ملی کہ پرائمری اسکالر شپ کے امتحان میں قاسم صاحب پورے صوبہ پنجاب میں اول آئے ہیں۔ بعدازاں وزیراعظم پنجاب، سر سکندر حیات خان نے قصبے آکر اس ہونہار بچے کو انعام سے نوازا۔یوں ایک دکھیاری ماں کی دعاؤں اور سونے کی ایک بالی نے کرشمہ کردکھایا۔ وہ بالکل جاہل تھیں مگر انھوں نے بیٹے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا تہیہ کررکھا تھا۔ یہ خواب پورا کرنے کی خاطر ماں نے اپنا زیور قربان کردیا۔

ماںکی شفقت بھری دعاؤں، ایثار اور محبت کی وجہ ہی سے ایک غریب دیہاتی لڑکے کو آگے چل کر دینی و دنیاوی کامیابی نصیب ہوئی۔ قاسم محمود پاکستان آکر تادم مرگ قلم سے علم و ادب کی خدمت کرنے میں محو رہے۔ان کی تصنیف کردہ سیرت النبیﷺ انسکائیکلو پیڈیا، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، علم القرآن اور دیگر علمی و ادبی کتابیں آج بھی علم و ادب کے شائقین کی روحانی پیاس بجھا رہی ہیں۔

مقبول خبریں