انتخابی حلقہ NA-250 ۔۔

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 11 اپريل 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

انتخابات کے موقعے پر سیاسی گٹھ جوڑ، اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ امیدواروں کی سیاسی ہمدردیاں بدلوانے اور خریدنے، کچھ کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے اور کچھ کو زبردستی حصہ لینے پر مجبور کرنے کی ہماری سیاسی تاریخ پرانی ہے۔ پہلے صرف چند بڑی سیاسی پارٹیاں ہوا کرتی تھیں اب سیاسی پارٹیوں کے ساتھ غیر سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیمیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات جن میں سے بہت سی شخصیات اپنے شعبوں میں گراں قدر خدمات بھی انجام دے چکی ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لوگ ان کی ذات کی قدر کرتے ہیں انتخابات پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ بہت سی تو بھرپور طریقے سے اثر انداز ہو بھی رہی ہیں۔ ان کے جو بھی عزائم و ارادے ہوں ان کے حصول کے لیے انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

اس مرتبہ کے انتخابات میں بہت سی انوکھی اور سنسنی خیز مثالیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ مثلاً تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ڈکٹیٹر اپنی آمریت کے خاتمے کے بعد اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کا دعویدار ہے۔ ملک کا ایک مایہ ناز سائنسدان اور ملک کا درد رکھنے والا اپنی سیاسی پارٹی رجسٹرڈ کرا چکا ہے مگر خود انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا، ایک بین الاقوامی حیثیت رکھنے والی مذہبی جماعت کا سربراہ الیکشن سے قبل ہی ملکی سیاست میں ہیجان اور تلاطم پیدا کر کے انتخابات میں حصہ یا کسی کی سپورٹ کرنے کی بجائے اس سارے نظام سے بغاوت کا اعلان کر چکا ہے اور انتخابات کے موقعے پر دھرنوں کا اعلان کر کے اپنی فعالیت کو غیر محدود یعنی Unlimited کر دیا ہے جب انتخابات کے نتیجے میں جیتنے والے مسرت و شادمانی سے چور اور ہارنے والے غم سے مغلوب ہوں گے تو اس کی حکمت عملی کھل کر سامنے آئے گی۔

انتخابات کے موقعے پر جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا مشترکہ اور حمایت یافتہ امیدواروں کا عمومی سلسلہ چل رہا ہے وہیں کچھ نشستیں ایسی بھی ہیں جہاں سیاسی جماعتوں کی نامور شخصیات ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کے لیے میدان میں اتری ہوئی ہیں ان سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کے جذبات کو پرکھنا کافی مشکل کام ہے کیونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات منافقت اور مفاہمت کے درمیان امتیاز کرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔

سیاسی اکھاڑے میں ہونے والی بڑی کشتیوں میں سے ایک اہم ترین سیاسی کشتی NA-250 کراچی میں دیکھنے کو ملے گی جہاں سے انتخابات لڑنے والوں میں پاکستان کی پہلی ڈکٹیٹر سیاسی پارٹی کے سربراہ پرویز مشرف تو آؤٹ ہو چکے ہیں اب متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ، تحریک انصاف کے عارف علوی، فنکشنل لیگ کے کامران ٹیسوری اور دیگر سیاسی جماعتیں سیاسی پنجہ آزمائی کے لیے میدان میں اتری ہیں، اسی انتخابی حلقے سے غیر سیاسی پس منظر رکھنے والی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ہیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس حلقے سے راقم کے استاد محفوظ یار خان عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جنہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن بھی داخل کی تھی۔

جنرل مشرف پرویز کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے لائر فورم کے صدر بھی رہے اور پرویز مشرف کے دام محبت میں اپنا وکالت کا لائسنس منسوخ کروا کر اپنی وکلاء برادری کے سخت و سست کا سامنا کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ وہ نواز حکومت میں ان کے مشیر بھی رہے۔ علامہ شاہ احمد نورانی جن کے صاحبزادے انس نورانی ان کے مقابلے پر ہیں ان سے بھی محفوظ یار خان کی پرانی یاد اللہ اور ذاتی مراسم تھے ان کے ساتھ مل کر پاک عراق دوستی کے لیے انھوں نے بڑی سرگرم خدمات انجام دیں تھیں، لیکن سیاست میں فارمولا وہی آ جاتا ہے کہ اس میں کوئی بات حرف آخر ہوتی ہے نہ دوستی و دشمنی کے کوئی اصول ہوتے ہیں۔ ہر شخص اپنے غم اور اپنے اپنے اپنے مفادات رکھتا ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف جو ہمیشہ سے ڈاکٹر عافیہ کیس میں سیاسی نیک نامی حاصل کرنے کی کوششیں کرتی چلی آئی مگر NA-250 سے ڈاکٹر فوزیہ کے کاغذات نامزدگی داخل کرانے پر برہم ہو گئی جب کہ آل پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان آسیہ اسحاق نے الزام عائد کر دیا کہ ’’فوزیہ صدیقی اور ان کی والدہ عافیہ کے نام پر پیسہ کمانے کے لیے سیاست کر رہی ہیں، ڈاکٹر عافیہ کو بگرام سے پکڑا گیا اس کے پاس امریکی پاسپورٹ تھا اور اسے امریکی قوانین کے تحت سزا دی گئی ہے‘‘ اس رویے کو منافقت کی سیاست اور ہوس اقتدار کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے، جب کہ اس حلقے سے تحریک انصاف کے جیتنے کے امکانات زیادہ نہیں حالانکہ یہاں سے اس کے امیدوار عارف علوی انتہائی نفیس اور متحمل مزاج ہونے کے ناتے ذاتی حیثیت میں کسی دوسرے امیدوار سے کم شخصیت کے مالک نہیں ہیں۔

ماضی میں یہ نشست جماعت اسلامی کے پاس بھی رہی ہے اور متحدہ اور پی پی کے پاس بھی یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بھی دو مرتبہ جیت کی تاریخ رقم کر چکے ہیں۔ شاید یہ سندھ کی واحد نشست ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک کافی مستحکم ہے۔ متحدہ کی پوزیشن بھی مضبوط ہے۔ سابق ناظم شہر نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ بھی اپنی کارکردگی اور شخصیت کی بنیاد پر ایک قابل غور امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ کی اس حلقے سے انتخابی مہم کسی غیر معمولی نتیجے کا موجب بن سکتی ہے۔ جنرل مشرف اور ڈاکٹر فوزیہ انتخابی مہم کے دو قطعی مختلف پہلو ہیں ایک پاکستان کی بیٹی کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے والا، دوسری اپنی بہن کے لیے انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والی تن تنہا مظلوم لڑکی۔

عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں اس مظلوم لڑکی کے ساتھ ہیں، انتخابات میں تو خود ساختہ ہمدردیاں بھی بڑی اہمیت کی حامل اور کارگر ہوا کرتی ہیں۔ اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے والی اکثر جماعتیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں خود جماعت اسلامی کے امیر کہتے ہیں کہ میں جب کراچی آتا ہوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ کی دلجوئی اور غم بانٹنے کے لیے ان کے گھر جاتا ہوں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ جماعتیں ڈاکٹر فوزیہ کے مقابلے میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کروا کر ایک مظلوم لڑکی کو انصاف کے حصول کے لیے طاقت بخشیں تا کہ وہ پارلیمنٹ میں آواز بلند کر سکے امریکا کے پارلیمنٹیرین اور قانونی ماہرین تو پاکستان آ کر اور دنیا بھر میں ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ظلم پر آواز بلند کر رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان اور عوام یہ حق کس طرح ادا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔