کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ

 اتوار 22 اپريل 2018
اربابِ اختیار کی غفلت کی وجہ سے سنگین صورت اختیار کر چکا ہے

اربابِ اختیار کی غفلت کی وجہ سے سنگین صورت اختیار کر چکا ہے

پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد بیگ (تمغہ امتیاز) کا شمار بلوچستان کی چنیدہ علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ انھیں درس و تدریس ، شعر و ادب اور سماجی تحقیق کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے ۔ شعر و ادب اور تحقیقی موضوعات پر 13سے زائد کتب کے مصنف ڈاکٹر عرفان بیگ اب روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین کے لئے مضامین تحریر کیا کریںگے۔

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوںکہ ترقی پذیر دنیا کے بیشتر ممالک کا یہ مسئلہ ہے کہ ان کے ہزاروں برسوں کے قدرتی وسائل جن میں سب سے اہم پانی کے ذخائر تھے وہ گزشتہ صرف پچاس برسوں میں بری طرح تباہ وبرباد ہوگئے، بدقسمتی سے اس میں ہمار ا ملک بھی شامل ہے مگر یہاں میں بات اپنے شہر کوئٹہ کی کروں گا جو یمن کے دارالحکومت اور قدیم شہر صنعا کے بعد دنیا میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے جلد گھوسٹ سٹی بننے والا ہے اور اگر فوری طور پراور ہنگامی بنیادوں پر اس صورتحال سے بچنے کے لیے اقدامات نہیں کئے گئے تو اس کے خطرناک انجام کو پہنچنے میں دو دہائیوں سے بھی کم عرصہ لگے گا، یمن اور بلو چستان کی سرزمین ماحولیاتی اور جغرافیائی اعتبار سے ملتی جلتی ہے۔

دونوں خطے زیادہ تر پہاڑ اور دشت پر مشتمل اور بارانی اور نیم بارانی ہیں۔ سالانہ بارشوں کی اوسط پانی کے استعمال اورضرورت سے اب بہت کم ہے جس کی تین بنیادی وجوہات ہیں، نمبر ایک ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ پچاس برسوں میں بارشوں کی سالانہ اوسط میں تقریبا نصف کمی واقع ہوئی ہے، نمبر دو آبادیوں میں کئی گنا اضافہ ہو اہے، نمبر تین زیر ِزمین گہرائی سے پانی نکالنے اور استعمال کے روایتی طریقوں کو ترک کردیا گیا ، یمن کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ اور اس کا کل رقبہ 527968 مربع کلومیٹر اس کے ساحل کی کل لمبائی 1906 کلو میٹر ہے اس کی طویل سرحدیں سعودی عرب اور اومان سے ملتی ہیں۔ اس کا سمندری اور فضائی فاصلہ بھی بلوچستان سے کم ہے بلو چستان کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹرملک کے کل 1000 کلو میٹر ساحل میں سے بلو چستان کے پاس 770 کلو میٹر ساحل ہے۔

اس کی سرحدیں ایرا ن اور افغانستان سے ملتی ہیں اور بلوچستان کی آبادی آج تقریبا ایک کروڑ 30 لاکھ ہے مگر جہاں تک تعلق کوئٹہ اور یمن کے شہر صنعا کا ہے تو صنعا ، یمن کا دارالحکو مت ہے اور اس شہر کی آبادی 20 لاکھ ہے اور یہاں زیر ِ زمین پانی کی سطح 1000 فٹ سے 3000 فٹ تک گر چکی ہے اور اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آئندہ 20 برسوں کے اندر اندر دنیا کا پہلا خشک ہونے والا دارالحکومت ہوگا ، اس کے مقابلے میں کوئٹہ شہر صوبائی دارالحکو مت ہے اور اس کی آبادی اگرچہ مردم شماری کے مطابق کم ہے لیکن یہ آبادی 22 لاکھ بتائی جاتی ہے اور اس کے لیے دلیل یہ ہے کہ یہاں پورے صوبے سے تعلق رکھنے والے معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی خاطر رہائش رکھتے ہیں مگر ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کے ڈسٹرکٹ کوٹے کی خاطر اکثر لوگ مردم شماری اور ووٹ لسٹ میں اپنے آبائی ضلع کے نام لکھواتے ہیں۔

کوئٹہ میں اب زیر ِ زمین پانی کی سطح 1000 فٹ سے 1500 فٹ نیچے جا چکی ہے لیکن ان دونوں شہروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ صنعا کا شہر ڈیڑھ دو ہزار سال قدیم شہر ہے جب کہ کوئٹہ ایک جدید اور نیا شہر ہے جو پہلی بار 1878 میں تعمیر ہوا اور پھر 1935 کے ز لزلے میں مکمل طور پر تباہ ہونے کے بعد 1942ء میں اس شہر کے تعمیر نو کا عمل مکمل ہوا، جہاں تک تعلق یمن کے شہر، صنعا کا ہے تو ترکی خلافت عثمانیہ کے دور حکومت میں تقریبا دو تین سو سال قبل اس شہر میں سطح زمین پر پانی کا ذخیرہ کرنے اور زیر ِزمین پانی کی سطح کو سالانہ اوسط بارشوں اور پانی کے استعمال کے اعتبار سے متوازن رکھنے کے لیے ایک ڈیم تعمیر کیا تھا لیکن اس کے بعد یہ ڈیم غفلت اور لاپرواہی کے سبب تباہ ہو گیا اس کے کھنڈرات آج بھی یہاں موجود ہیں۔

صنعا مشرق وسطیٰ کا ایک اہم قدیم اور تاریخی شہر ہے جو ہزاروں برسوں سے تہذیب وتمدن کا اہم مرکز رہا ہے یہ وہ شہر ہے جو اپنی تمام رہائشی اور غیر رہائشی عمارتوںسے اپنی ثقافتی اور تہذیبی شناخت کو اپنی خاص طرز تعمیر سے اُجاگر کرتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں کوئٹہ دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو نئے تعمیر شدہ شہر کہلا تے ہیں یہ شہر انگریزحکومت نے 1878ء میں دوسری برطانوی افغان جنگ کے وقت تعمیر کیا تھا جو تعمیر کے 57 سال بعد 31 مئی 1935 ء کے تیس سیکنڈ دورانیے کے تباہ کن زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور اس کی دوبارہ تعمیر 1942 ء میں مکمل ہوئی 1878 تا 1958 ء اس شہر کی آبادی پچاس ہزار افراد پر مشتمل رہی 1942 سے 1947 تک اس کی آبادی 50 ہزار ہوئی ہی تھی کہ قیام پاکستان اور تقسیم ہند کی وجہ سے یہاں سے ہزاروں ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ بھارت کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے ان ہی لوگوں میں میرے والدین بھی تھے جو بھارت کے علاقے رائے پور سی پی سے پہلے میانوالی،کالاباغ اور پھر کوئٹہ آئے، میرے والد مرحوم ریلوے گارڈ تھے ان کا تبادلہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی کوئٹہ ہوا تھا۔

میری پیدائش اور پھر ساری زندگی اسی شہر میں گزری ہے اور میں نے اس نئے،جدید ، خوبصورت اور صحت افزا شہر کو خوبصورتی سے بد صورتی میں بدلتے ہوئے دیکھا ہے، 1960 ء میں جب اس شہر کی آبادی پچاس ہزار سے کچھ بڑھنے لگی تھی تو اس وقت سے میں نے ہوش وحواس کے ساتھ اس شہر کی صورتحال کو اپنی یاداشتوں میں محفوظ کیا، ریلوے گارڈ کالو نی درمیانے درجے کے بنگلہ نما مکانات پر مشتمل ہے جس میں اس وقت کے بنگلہ نما مکانات کے ساتھ ایک ایک سرونٹ کواٹر بھی ہے، جائنٹ روڈ پرسریاب روڈ ، ارباب کرم خان روڈ ، جائنٹ روڈ دکانی بابا چوک پر مڑتے ہی دوسری رو میں پانچواں مکان ہمارا تھا ۔

یہاں سے جنوب میں اس ریلوے کالونی کی دیوار کا ایک حصہ لوگوں نے تو ڑ دیا تھا جس سے شارع شاہ زمان اور ارباب کرم خان روڈ کے دوراہے کو ایک شارٹ کٹ مل گیا تھا یہاں اس دوراہے پر کلی شیخان جاتے ہوئے دو کاریزوں کا سنگم بھی تھا جو اس دوراہے پر موجود مسجدکے بائیں پہلو سے ہوتے ہوئے مغرب میں ایک ہو کرجاتی تھیں اور کوئی تین سو میٹر دور ایک کچے تالاب جوہڑ کو دن رات میں دو مرتبہ بھرتیں تھیں جب کہ اس تالاب کے جنوبی کنارے پر ایک بور بھی تھا جسے عام لوگ برما کہتے تھے، یہ ٹیوب سے یوں مختلف تھا کہ اس کی تکنیک یہ تھی کہ جہاں شہر میں خصوصا مغرب میں زیر ِزمین پانی کی سطح بہت ہی قریب تھی وہاں زمین میں کوئی ایک سو فٹ کے قریب بورنگ کی جاتی تھی اور تقریبا ایک فٹ قطر کا پائپ زمین کے نیچے ایک سو فٹ تک پہنچا دیا جاتا تھا تو جب یہ بور مکمل ہو جا تا تو سو فٹ نیچے سے پانی اپنے پریشر سے اکثر زمین کی سطح دس سے بارہ فٹ کی بلندی تک فوارے کی صورت ابلتا تھا اور پھر برسوں اپنے پریشر سے بہتا، اس کے لیے بجلی کی موٹر یا انجن کی ضرورت نہیں ہوتی تھی انگریزی عہد کے قانون کے تحت ایسے بور کے لیے ضروری تھا کہ ایک مربع میل کے اندر صرف ایک بور لگا یا جائے۔

یو ں ساٹھ کی دہائی میں جب میں نے دیکھا تو ایسا ہی ایک بور ریلو ے گارڈ کالو نی میں ریلوے عید گاہ ، قبرستان کے قریب لگا یا گیا تھا اور جب یہ مکمل ہوا تھا تواس سے شفاف پانی کا تقریبا دو کیوبک فٹ موٹی دھار کا پانی بارہ ٖفٹ کی بلندی تک گیا تھا جس کو بعد میں جب تک واٹر ٹینک تعمیر نہیں ہوا تھا اس وقت تک کے لیے سیل کردیا گیا تھا ، ایسے پانچ یا چھ بور یا برمے شہر کے نواحی علاقوں میں موجود تھے، جب کہ شہر کو پانی کی سپلائی کی بہترین اسکیم انگریزوں نے اس شہر کی تعمیر کے وقت متعا رف کرائی تھی ، وہ یوں تھی کہ انگریزوں نے کو ئٹہ کے شمال مشرق میں ولی تنگی ہڑک کے پانی کو بنیادی اہمیت دی تھی جو کوئٹہ کی تعمیر سے قبل ایک بڑی اور تیز بہائو والی ندی کی صورت بہتی تھی ، یہ ندی دریائے لورا پشن ملتی تھی یہ دریا آج بھی کچے گندے پانی کے بڑے نالے کی صورت میں، وادی کوئٹہ کے تقریبا درمیان میں جنوب میں ہزارگنجی کے قریب سے کلی کرانی سے شمال کی جانب یارو ۔ بوستان ،افغانستان اور پھر ضلع چاغی میں لورا ہامون تک بہتے ہوئے لورہا مون نامی جھیل میں گرتا ہے ۔

اسی طرح ایک ندی اس ندی میں سے کوئٹہ کے قدرے جنوب مشرق میں سیورنج کے قریب سے نکلتی تھی یوں ان ندیوں کے پانیوں کو یہاں کے ایکالو جیکل سسٹم سے متوازن اور مستحکم رکھنے کے لیے ہنہ لیک اور اسپن کاریز کے نام سے دو ڈیمز تعمیر کئے تھے جو آج بھی موجود ہیں ، جب کہ اس علاقے میں صدیوں سے تقریبا ایک درجن سے زیادہ کاریزیں وادی کوئٹہ میں شمال سے کوئٹہ چھاونی سے جنوب میں سریاب کسٹم چوکی تک تھیں جو اس وقت کے دیہی علاقوں کی آبپاشی اور آب نوشی کی تما م ضروریوت کو پورا کرتی تھیں۔ انگریزوں نے شمال مشرق سے ولی تنگی ہڑ ک ہنہ سے آنے والے مستقل اور سطح زمین پر موجود پانی کے ذخیرے کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہوئے، اسے یہاں کے ایکالوجیکل سسٹم سے متوازن کیا ۔

اور اس سے کوئٹہ کی واٹر سپلائی منصوبہ کو یوں ترتیب دیا کہ یہ پانی پہلے چھاونی میں پانی تقسیم کے مقا م پر آتا اور پھر یہاں سے اس پانی کو شہر اور کوئٹہ چھائونی کی ضرورت کے مطابق تقسیم کیا جاتا ، یہ نظام آج بھی موجود ہے مگر اب کوئٹہ کی آبادی 22 لاکھ ہو چکی ہے اور پانی کا روایتی استعمال بھی نہیں رہا ہے چونکہ یہ پانی شہر میں بلندی سے آتا تھا اس لیے یہاں یہ پانی اپنے پریشر سے ہی واٹر ٹینکوں میں بھر جاتا تھا اور پھر اسی پریشر سے مکانات اور عمارتوں میں آتا تھا۔ واضح رہے کہ انگریزوں نے شہر میں عام لوگوں کے لیے پانی کے پبلک نلکے لگوئے تھے جو لوہے کے بنے ہوئے اور شیر کے چہرے والے تھے اور شہر کے عام مکانوں میں نلکوں کی سہولت نہیں تھی اس لیے یہ نلکے دن میں صبح شام دو مرتبہ مقررہ اوقات میں ایک ایک گھنٹہ پانی فراہم کرتے تھے۔

کوئٹہ کی مقامی آبادی میں بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح موسموں کی شدت پر خانہ بدوشی یا نقل مکانی کا رجحان تھا اس لیے ایک بڑی آبادی نومبر تا مارچ کوئٹہ سے نزدیک ڈھاڈر اور سبی منتقل ہو جایا کرتی تھی اور اپریل تا اکتوبر نہ صرف کوئٹہ کے مقامی لوگ یہاں رہتے تھے بلکہ سبی تا جیکب آبادی کے اکثر لوگ بھی مئی تا اگست کوئٹہ آجایا کرتے تھے یہ سلسلہ اسی کی دہائی تک بھی رہا ،کوئٹہ شہر میں 1960 ء کی دہائی تک نومبر تا فروری اتنی برف پڑتی تھی کہ یہ برف وادی کوئٹہ کے چاروں اطراف میں واقع پہاڑوں کوہ مردار یا مہر دار، چلتن ،تکتو، اور کوہ زر غون کی بلند چوٹیوں پر اگست تک دکھائی دیتی تھی۔

اس کے بعد کوئٹہ شہر میں پانی کی قلت کے اعتبار سے مسائل پیدا ہونے لگے۔ ساٹھ کی دہا ئی کے آخر میں اس شہر کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچنے لگی 1970 ء میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور یہاں ان انتخابات کے نتیجے میں 1972 ء میں پہلی صوبائی اسمبلی قائم ہوئی اور کوئٹہ کو صوبائی دارالحکومت بنا دیا گیا تو یہاں کی آبادی میں پہلا بڑا اضافہ ہوا اس کے بعد 1979 ء اور1980-81 ء میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجی مداخلت کی وجہ سے پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت تقریبا 35 لاکھ مہاجرین پاکستان آئے جن کی اکثریت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آباد ہوئی اس کے ساتھ ہی ساتھ اندرون بلوچستان سے بھی کو ئٹہ میں منتقلی کا رجحان بھی بڑھ گیا اس میں بہت زیادہ شدت 1997 ء تا 2003 تک رہنے والی صوبے کی تاریخ کی شدید اور طویل ترین خشک سالی کے دوران آئی اور اس کے بعد سے بلوچستان میں یہ رجحان اب تک جاری ہے۔

کوئٹہ میں پانی کی قلت کا شدید احساس 1980 ء سے ہوا جب شہر میں فراہمی آب اور نکاسی آب کے شعبے کوئٹہ میونسپل کمیٹی جو بعد میں، میونسپل کارپوریشن بنی اور اب کوئٹہ میٹرو پولیٹین کارپوریشن ہے ، اس سے لے کر بلو چستان واسا ، یعنی بلوچستان واٹر سپلا ئی اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی کو دے دیا گیا ، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے کوئٹہ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت شہر کے لیے ٹائون پلان بنایا گیا، مگر اس پر عملدر آمد نہیں ہو سکا، اس وقت چونکہ پاکستان افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کی وجہ سے فرنٹ لائن کا ملک بن گیا تھا اور یہاں افغان مہاجرین کا بوجھ تھا اس لیے نیدر لینڈ کی حکو مت کی جانب سے بھی نکا سی اور فراہمی آب کے لیے ایک بڑی مدد ناقابل واپسی گرانٹ کی صورت میں آئی لیکن ہماری نااہلی کی وجہ سے وہ منصوبہ بھی نا کام ہو گیا۔

اسی کی دہا ئی میں ٹیوب ویل بورنگ کی ٹیکنا لوجی نجی شعبے میں عام اور سستی ہوئی اور شہر میں جا بجا جہاں جس کا جی چاہا ٹیوب ویل لگانے لگا اور یہ سلسلہ آج تک بلا روک ٹوک جاری ہے۔ اسی دوران کوئٹہ میں نجی شعبے میں ٹینکروں سے پانی کی فروخت کا آغاز ہوا اور آج صورت یہ ہے کہ کوئٹہ شہر کے لاکھوں شہری کروڑوں روپے کا پانی خریدتے ہیں،1990 کی دہائی کے آخر تک ماہر ین نے یہ اعلان کردیا کہ اگر کوئٹہ کے لیے پانی کی فراہمی کا کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا تو سن دو ہزار تک کوئٹہ گھوسٹ سٹی میں تبدیلی ہوجائے گا ، اس موقع پر وفاقی حکومت کے تعاون سے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے کوششیں شروع ہوئیں اور آخر لبنان کی طرز پر یہاں سیٹلائٹ کی مدد سے کوہ مہردار کے دامن میں کوہ چلتن ہزار گنجی،اور مغرب میں وادی کرخساں میں پہاڑی چٹا نوں کے ہزاروں فٹ نیچے جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کے لاکھوں سال سے محفوظ ذخائر تلاش کر لیے گئے، اور اس کو فاسل واٹر کا نام دیا گیا اور اس وقت سے کو ئٹہ کی لاکھوں کی آبادی اس پانی کو بیدریغ استعمال کرنے لگی اور اب ماہر ین یہ اعلان کرچکے ہیں کہ چٹانوں کے نیچے واقع پانی کے یہ ذخائر بھی آئند ہ پانچ چھ برسوں میں ختم ہونا شروع ہوجائیں گے اور کوئٹہ شہر گھو سٹ سٹی بن جائے گا۔

اس صورتحال پر ماہرین نے آج سے دس برس قبل ہی حکومت کی توجہ دلوائی تھی اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ اُس وقت اس جانب تو جہ نہیں دی گئی البتہ اس وقت کوئٹہ کو پانی کی سپلائی کا ایک منصوبہ منگی ڈیم تھا یہ ایوبی دور حکومت میں 1963 میں سوچا گیا تھا اس پر تعمیراتی کا م کا پہلا مرحلہ 1983 میں مکمل ہوا یہ ڈیم کوئٹہ سے شمال میں 85 کلو میٹر دور ضلع زیارت میں ہے، یہ 18 میٹر یعنی 57 فٹ بلند ہے اس میں130000 کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس سے کوئٹہ کو 8.1 ملین گیلن یعنی 81 لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جائے اس وقت کوئٹہ کی آبادی کو یومیہ 45 ملین گیلن یعنی 4 کروڑ 50 لاکھ گیلن پانی کی ضرورت ہے جب کہ کوئٹہ کو تمام ذرائع سے پانی کی سپلائی 28 ملین گیلن یعنی 2 کروڑ 80 لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

یوں اس وقت کوئٹہ کے شہری 17 ملین گیلن یا ایک کروڑ ستر لاکھ گیلن پانی یومیہ کی قلت برداشت کر رہے ہیں اور 2017 ء میں منگی ڈیم کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت نے نصف،اورنصف حصہ داری سے منگی ڈیم کا یہ منصوبہ 9.85 ارب روپے یعنی 36.88 ملین ڈالر کی رقم سے 36 مہینوں میں مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا مگر یہاں یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ منگی ڈیم پر کام کا آغاز2006-07 میں ہوا تھا اور پھر رک گیا تھا اس کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ نے اس کا نوٹس لیا تھا ، یہاں یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ڈیم سے81 لاکھ گیلن پانی یومیہ کوئٹہ کو فراہم کیا جائے جو اس وقت کی کل ضرورت کا 18% ہوگا اور کوئٹہ کی پانی کی یہ ضرورت 2028 ء میں 75 ملین گیلن یعنی 7 کروڑ 50 لاکھ گیلن کی ضرورت کا صرف 11,25% ہی پورا کر سکے گا اور وہ بھی اس صورت میں کہ اگر یہ منصوبہ واقعی حکومت کے اعلان کے مطابق 36 مہینوں میں پورا ہو جائے ، لیکن دوسری جانب اس وقت جو پانی کوئٹہ کے شہریوں کو میسر ہے اس کے ذخائر آئندہ دس سے پندرہ برسوں میں ختم ہو جائیں گے تو یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت کوئٹہ میں پانی کی قلت کی کیا صورتحال ہوگی؟

اس تناظر میںجب ہم دیکھتے ہیں تو کوئٹہ کو گھوسٹ سٹی بننے سے بچانے کے لیے صوبا ئی حکومت نے 2016-17 کے مالی سال کے بجٹ کے موقع پر ایک انوکھے فراہمی آب کے منصوبے کا اعلان کیا ، اس منصوبے کے اعتبار سے سی پیک منصوبے سے مالی امداد کا حوالہ بھی دیا گیا تھا ، اس منصوبے کے مطابق کوئٹہ میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے دریاٗ سندھ سے بلوچستان آنے والی پٹ فیڈر،کچی کنال سے پانی ضلع نصیر آباد سے کوئٹہ 271 کلومیٹر لمبی 56 انچ قطر کی پائپ لائن سے سطح سمندر سے 7000 فٹ کی بلندی تک لائی جائے گی۔ واضح رہے کہ نصیر آباد سے سبی تک سطح سمندر سے بلندی تین سو سے ساڑھے تین سو فٹ ہے۔

اس کے بعد دربولان کا آغاز ہوتا ہے تو یہ پہاڑی سلسلہ بلند ہونا شروع ہوجاتا ہے اور کولپور سے پہلے سطح سمندر سے بلندی 7000 فٹ، اور کولپور ریلوے اسٹیشن پر سطح سمندر سے بلندی 6500 فٹ ہے اور پھر ڈھلوان پر کوئٹہ تک بلندی 5500 فٹ ہے یوں یہاں پانی چڑھانے اور نیچے لانے کے لیے آٹھ پمپنگ اسٹیشن قائم کئے جائیں گے، اور اس پورے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 40 ارب روپے ہے اور پچھلے مالی سال یعنی2016-17 میں اس منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ اور ماہرین کی فیسوں کے لیے 10 ارب روپے مختص کئے گئے تھے اب سوال یہ ہے کہ اگر ماہرین نے اپنی فزیبلٹی رپورٹ میں اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے دیا تو کیا ہوگا؟

بہرحال یہ ایک سوال ہے اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک اس منصوبے کی فیزیبلٹی کی رپورٹ سامنے نہیں آجاتی۔ اس روٹ پر آج تک کی تاریخ میں سب سے شاہکار منصوبہ جو بلوچستان میں آج بھی تاج محل سے زیادہ اہم تصور کیا جاتا ہے وہ 1879 میں انگریزوں کی جانب سے یہاں بچھائی جانے والی ریلوے لائن تھی اس منصوبے پر پانچ ہزار مزدور اور تین ہزاراونٹوں کے ساتھ کام شروع کیا گیا تھا۔ جیکب آباد سے سبی تک یہ ریلوے لائن 6 اکتوبر 1879 کوشروع ہوئی اور 133میل ٹریک کوصرف 103دن میں مکمل کرلیا گیا لیکن اس کے بعد پہاڑی علاقے میں کوئٹہ تک 1897 تک کام ہوتا رہا، اس وقت سبی تا بولان ریلوے لائن منصوبے پر 2 کروڑ 85 ہزار روپے خرچ ہوئے تھے اور یہاں کوئی کرپشن نہیں ہوئی تھی، اور یہاں اس وقت سب انجنیئر کی حیثیت سے امرائو جان اد کے خالق مرزا ہادی رسوا نے بھی کام کیا تھا، سوال یہ ہے کیا ۔

آج چالیس ارب روپے کی لاگت سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ تعمیر ہو سکے گا اور اگر تعمیر ہوگیا تو کیا یہ منصوبہ جس کے لیے کئی میگاواٹ بجلی اس لیے درکار ہوگی کہ پانی کو سبی سے ہرک دوزان تک 7000 فٹ بلندی چڑھانا بھی ایک چیلنج ہوگا، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آئندہ دس برسوں میں جب کوئٹہ کی آبادی تیس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی او ر کوئٹہ شہر میں پانی کی طلب 75 ملین گیلن یعنی 7 کروڑ 50 لاکھ گیلن یومیہ ہوگی تو ہمیں اس چیلنج کو ہر حالت میں قبول کرنا ہو گا،کیونکہ اگر ہم نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا تو یہ ہولناک تصور ہمارے سامنے ہے کہ مستقبل قریب میں جب دس برس بعد تیس لاکھ آبادی کو پانی میسر نہیں ہو گا تو اس وقت کوئٹہ شہر میں سرکاری اور نجی املاک کی قیمت کئی سو کھرب روپے ہوگی جو گھوسٹ سٹی بننے کی وجہ سے بیکار ہوگی اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا ہے، ایسی تیس لاکھ بے آسرا،مفلس آبادی کی بحالی اور دوبارہ آباد کاری نہ صرف بہت بڑا اور خطرناک مسئلہ ہو گا بلکہ یہ ایک انسانی المیہ کوجنم دے گا ، اس لیے ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اس المیے کی روک تھام کے لیے اقدامات کر لیں۔

تحر یر: ڈاکٹر عرفان احمد بیگ (تمغہ امتیاز )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔