ٹائیفائیڈ کے بیکٹیریا نے دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا کر لی

20 سال پہلے ٹائیفائیڈ عام دوا سے ٹھیک ہو جاتا تھا، اب دواؤں کا اثر ختم ہو گیا، ڈاکٹر نسیم صلاح الدین


Staff Reporter April 21, 2018
بچے غیرمعیاری آئس کریم ، برف اور گولے گنڈے نہ کھائیں،گھر کا کھانا کھایاجائے، ڈاکٹر نسیم صلاح الدین۔ فوٹو؛ فائل

کراچی میں ٹائیفائیڈ وبائی صورت اختیار کررہا ہے، ٹائیفائیڈ کے بیکٹیریا نے ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرلی ہے اوردوا اس مرض پر اثر انداز نہیں ہورہی ہے۔

ماہر متعدی امراض ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے کہا ہے کہ ٹائیفائیڈ کے مرض پر دی جانے والی ادویات کا اثر ختم ہوگیاجس کی وجہ سے ماہرین صحت بھی پریشان ہیں۔ ڈاکٹروں کو لمحہ فکر میں مبتلا کردیا ہے کہ اس بیماری پر قابوکس طرح پایاجائے اور اس مرض پر قابو پانے کیلیے کونسی دوا استعمال کی جائے۔

انھوں نے بتایا کہ بیکٹیریا کی بڑھتی ہوئی طاقت اور دواؤں کیخلاف مزاحمت نے گھمبیر صورتحال اختیار کر لی، مختلف امراض سر اٹھا رہے ہیں اور قابو سے باہربھی ہورہے ہیں ، ادویات ان پر اثر نہیں کر رہیں بالخصوص ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹائیفائیڈ بے قابو ہے جس کی بنیادی وجہ آلودہ پانی ہے۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے بتایا کہ آج سے 20 سال پہلے ٹائیفائیڈ عام دوا سے ٹھیک ہو جاتا تھا لیکن ان ادویات کا اثر ختم ہوگیا اور مریض کو ایک دوا کی دگنی خوراک دی جاتی ہے، ان ادویات کا 10 سے 12 روز کا کورس مریض کو اس مرض سے نجات دے دیتا تھا لیکن اب ایسا جراثیم سامنے آیا ہے جس نے ادویات کو غیر موثرکردیا ہے اورشہرکے ڈاکٹر نئی ادویات پر تجربہ کر رہے ہیں لیکن فیصلہ نہیں ہو پارہا کہ کونسی دوا زیادہ بہتر اور زیادہ موثر ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کیلیے ڈاکٹروں کا ایک اجلاس اگلے ہفتے طلب بھی کیا گیا جس میں فیصلہ کیاجائے گا کہ کون سی دوا استعمال کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مریض پورے شہر سے رپورٹ ہو رہے ہیں اور غلط ادویات کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں جگرکے امراض کے ساتھ مریضوں کی آنتیں بھی شدید متاثر ہورہی ہیں جن کے لیے آپریشن کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

ڈاکٹر نسیم نے عوام کو ہدایت کی کہ پانی ابال کر پئیں اور بچے غیرمعیاری آئس کریم ، برف اور گولے گنڈے بھی نہ کھائیں اس میں بھی جراثیم زندہ رہتے ہیں جبکہ گھر کا کھانا کھائیں، جراثیم کی ادویات کے خلاف مزاحمت کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی اور اتائیوں کی بھرمار ہے، ادویات کا معیار بدتر ہے۔ لیبارٹریز کا اسٹرکچر نہیں نہ سرکاری لیبارٹریز موجودہیں ، ملک میں انفیکشن کی نگرانی ( سرویلینس) کے لیے کوئی نظام ومرکزی ادارہ موجودنہیں ہے جس کے نتیجے میں بیماریوں کی تشخیص نہیں ہو پاتی، غیر تربیت یافتہ ڈاکٹر غیر موزوں ادویات بالخصوص اینٹی بائیوٹک بے دریغ استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہیں یہ غیر موزوں ادویات بیکٹیریا/جراثیم کو ختم نہیں کرتیں بلکہ اسے کمزور کرتی ہیں جب ادویات کا کورس پورا ہو جاتا ہے تو جراثیم ان غیر موزوں ادویات کے عادی ہو کر ان کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں۔

بعد ازاں جب یہ مریض مستند اور تربیت یافتہ ڈاکٹر سے مرض تشخیص کراتا ہے اور قابل اثر ، درست اور موزوں دوا استعمال کرتا ہے تب بھی جراثیم کا خاتمہ نہیں ہوتا کیونکہ غیر موزوں ادویات کا استعمال انھیں بہت طاقت وربنا دیتا ہے اس لیے عوام مستند ڈاکٹروں سے رجوع کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں