یمن میں شادی کی تقریب پر بمباری کا الم ناک واقعہ

ایڈیٹوریل  بدھ 25 اپريل 2018
جوابی وار کے طور پر یمنی باغی سعودی عرب پر بیلسٹک میزائلوں سے حملے کر رہے ہیں۔فوٹو: فائل

جوابی وار کے طور پر یمنی باغی سعودی عرب پر بیلسٹک میزائلوں سے حملے کر رہے ہیں۔فوٹو: فائل

مشرق وسطیٰ میں صورتحال انتہائی نازک رخ اختیارکرتی جا رہی ہے، سعودی عرب اور یمن کے حوثی باغیوں درمیان جاری جنگ میں شدت آ چکی ہے۔ سعودی اور اتحادی افواج یمنی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہی ہیں جن میں عام شہری بھی بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں، جب کہ جوابی وار کے طور پر یمنی باغی سعودی عرب پر بیلسٹک میزائلوں سے حملے کر رہے ہیں۔ تازہ ترین واقعے میں حوثی باغیوں کی سپریم سیاسی کونسل کے سربراہ صالح الصماد عرب اتحادی افواج کے فضائی حملے میں جاں بحق ہو گئے۔

مقتول رہنما نے یمن کی منتخب حکومت کے خلاف ستمبر 2014ء میں بغاوت برپا کرنے کے بعد سرکاری اداروں پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی خود ساختہ حکومت بنا لی تھی، جب کہ ایک اور واقعے یمن میں شادی کی تقریب میںایک فضائی حملے میں 33 افراد جاں بحق اور 55 زخمی ہو گئے۔ دوسری جانب سعودی فوج نے حوثی باغیوں کی طرف سے داغے گئے دو بیلسٹک میزائلوں سے کیا گیا نیا حملہ ناکام بنا دیا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی دفاعی نظام نے یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے داغے گئے دو بیلسٹک میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ یہ میزائل جنوبی شہر جازان میں واقع آئل کمپنی کو نشانہ بنانا چاہتے تھے جب کہ چند دنوں میں حوثی باغیوں کا سعودی عرب پر یہ تیسرا حملہ ہے۔

دوسری جانب شام کی خانہ جنگی میں عالمی طاقتیں کود پڑی ہیں ۔ امریکا بشار الاسد کو ہٹانا چاہتا ہے، فرانس اور برطانیہ کی افواج نے بھی شام پر چڑھائی کر دی ہے، جب کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی اس کے ساتھ ہیں۔ روس اور ترکی شامی صدرکی مدد کر رہے ہیں ۔ گھمسان کا رن پڑ رہا ہے، عام شہریوں کی ہلاکتیں اور لاکھوں کی نقل مکانی نے شام میں ایک سنگین انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ عرب ممالک کی ذاتی انا، ناچاقی، نا اتفاقی اور باہمی چپلقش نے اسرائیل کو مزید طاقتوربنادیا ہے اور وہ فلسطینوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر ظلم کرنے والے اسرائیل کے ہاتھ کوئی بھی مسلم ملک روک نہیں سکتا کیونکہ وہ تو خود آپس میں برسرپیکار ہیں۔ سعودی عرب اور ایران براہ راست یا بالواسطہ کئی ممالک میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی تنازعات شدت اختیارکرتے جا رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، ان بھڑکتے شعلوں کو سرد نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ ان کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی نہ آ جائیں، کہیں سب کچھ جل کر راکھ نہ ہو جائے۔ ان تنازعات کے حل کے لیے نہ تو اقوام متحدہ کوئی کردار ادا کر رہی ہے اور نہ او آئی سی۔ دست و گریباں مسلم ممالک کو سمجھانے، بجھانے والا کوئی نہیں، آخر اس طرح وہ کس کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے سازشوں کے جال بچھا چکی ہیں اور مسلم ممالک اس جال میں پھنس چکے ہیں۔ آج بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک سوچیں، ان کی بقاء کا دارو مدار باہمی تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے میں مضمر ہے، ورنہ آزادی جیسی نعمت ان سے عالمی طاقتیں چھین کر ان کو اپنا دوبارہ غلام بنا لیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔