سیاسی محاذ آرائی اور وقت کا تقاضا

موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو کم کیا جائے۔


Editorial May 07, 2018
موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو کم کیا جائے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں غیریقینی اور تلخی کا عنصر تاحال موجود بلکہ ماضی کی نسبت کچھ زیادہ ہو گیا ہے' ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کے بیانات اس غیریقینی اور سیاسی تلخی میں اضافہ کررہے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں اور ان کا ہدف ادارے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے ایسے بیانات پر کئی حلقے تنقید کر رہے ہیں جب کہ آصف علی زرداری اور عمران بھی انھیں آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جب کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں' اس صورت حال سے بھی سیاسی تلخی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

بہرحال اب الیکشن کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں نے ایک طرح سے غیر اعلانیہ انتخابی مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔مسلم لیگ ن' تحریک انصاف' پیپلز پارٹی' جے یو آئی' اے این پی اور کراچی میں ایم کیو ایم آئے روز جلسوں کا انعقاد کر رہی ہیں جہاں تندوتیز تقاریر ہو رہی ہیں۔

بعض حلقے کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کی انتخابی مہم جو طویل عرصے جاری رہے گی، خطرناک پہلو بھی رکھتی ہے کیونکہ سیاسی قائدین جو لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں اس سے تلخیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور محاذ آرائی کے امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں' اس قسم کا رجحان ٹکراؤ کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے اپنا کوئی نہ کوئی لائحہ عمل ضرور اختیار کرنا چاہیے۔ جلسے کرنا سیاسی جماعت کا حق ہوتا ہے لیکن اسے جمہوری اقدار کے دائرے میں رہنا چاہیے۔

ادھر ابھی تک کوئی ایسا اشارہ سامنے آیا نہیں جس سے پتہ چل سکے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف نگران سیٹ اپ پر راضی ہوچکے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ابھی تک نگران سیٹ اپ قائم کرنے پر حکومت اور اپوزیشن متفق نہیں ہیں۔ وفاقی بجٹ پر بھی اختلافی باتیں ہو رہی ہیں' ایک جانب یہ سیاسی صورتحال ہے اور دوسری جانب خارجی معاملات ہیں۔

پاکستان کے ارد گرد جو حالات ہیں' وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں' بھارت کی پالیسی70 برس سے سب پر عیاں ہے' اسی طرح افغانستان کی پالیسی بھی گزشتہ70 برس سے عیاں ہے۔ یہ دونوں ملک آج بھی پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یوں پاکستان کے دو بارڈرز خطرات کا شکار ہیں۔ مشرق میں کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی افواج جارحیت کرتی رہتی ہیں۔

آئے روز شیلنگ ہوتی رہتی ہے جس سے پاکستان کے شہریوں کا جانی نقصان بھی ہو رہا ہے' دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی معطل ہے' بھارت عالمی سطح پر بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے جب کہ شمالی مغربی سرحد پر افغانستان منفی کردار ادا کر رہا ہے۔

افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے' جو پاکستان کے لیے انتہائی ضروری چیز ہے' لیکن افغانستان اس کی مخالفت کر رہا ہے جب کہ پاکستان کے اندر بعض قوتیں بھی درپردہ افغانستان کی پالیسی کا ساتھ دے رہی ہیں۔ یہ قوتیں قوم پرستی کی آڑ میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام ہونا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان کی معیشت پر نظر دوڑائیں تو بھی حالات ساز گار نظر نہیں آتے' ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے جب کہ روپیہ غیرملکی کرنسیوں کے مقابلے میں مسلسل گر رہا ہے۔ صورت حال ایسی ہو گئی ہے کہ 70ء کی دہائی میں تھائی لینڈ کی کرنسی بھات کی قیمت پاکستانی روپے سے کم تھی' آج روپیہ تھائی بھات سے نیچے ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق کرنسی مارکیٹ میں ایک تھائی بھات چار پاکستانی روپے کے برابر ہو گیا ہے۔

دنیا کی طاقتور کرنسیاں تو بہت آگے ہیں۔ بھارت کا روپیہ بھی پاکستانی روپے پر بھاری ہے' اس صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت درست سمت میں سفر نہیں کر رہی ہے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں بہت کم ہیں' ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جب کہ آدھے سے زیادہ ملک ٹیکس نیٹ سے باہر ہے' فاٹا اور بلوچستان کا ٹیکس ریونیو میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ٹیکس کا سارا بوجھ وسطی اور شمالی پنجاب اور کراچی پر لاد دیا گیا ہے۔ معیشت کے تمام شعبے یکساں رفتار سے ترقی نہیں کررہے' دہشتگردی کے حوالے سے بھی دنیا تاحال پاکستان سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ ایسے حالات میں پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے باہمی اختلافات کو طے کرنے کے لیے کوئی میکنزم بنانا ہو گا۔ بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کسی کے حق میں نہیں ہو گی۔

موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو کم کیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں