ہم سب کا کوئٹہ

ببرک کارمل جمالی  جمعرات 10 مئ 2018
کوئٹہ سردیوں میں شدید سرد ہوتا ہے اور گرمیوں میں قدرے گرم ہوجاتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کوئٹہ سردیوں میں شدید سرد ہوتا ہے اور گرمیوں میں قدرے گرم ہوجاتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بلوچستان میں ہر سال لاکھوں لوگ گھومنے پھرنے اور سیاحت کے حوالے سے کوئٹہ آتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ بھی اسی شہر کی قسمت میں لکھے ہوئے ہیں۔ ہر سال کوئٹہ میں دو ہزار سے تین ہزار افراد مختلف واقعات میں لقمہ اجل بن جاتے، جبکہ اغوا برائے تاوان کے بھی کئی واقعات کوئٹہ میں پیش آتے ہیں جس کی وجہ افغانستان کا بارڈر نزدیک ہونا ہے۔

دنیا کا پر امن ترین شہر کوئٹہ بد امنی کے الاؤ میں بدل چکا ہے۔ کبھی مہلک بیماریوں کے علاج معالجے کیلئے دنیا کے لوگ کوئٹہ کی آب و ہوا کے حوالے سے یہاں آیا کرتے تھے، مگر آج لوگ اس شہر سے بھاگ رہے ہیں۔ کوئٹہ میں امن کے ساتھ سکون بھی نہیں رہا۔ لوگ گیس بجلی پانی اور بد ترین سڑکوں کی وجہ سے بے زار ہو چکے ہیں۔ شہر کے بلند پہاڑ اس شہر کی قسمت پر کڑھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس شہر کو پھر سے شال کوٹ بنا دو۔ شاید اس کا امن لوٹ آئے۔ کوئٹہ کا پرانا نام شال کوٹ تھا۔ یہ ایک پرانا شہر ہے جس نے ترقی کی منزل طے کی تو یہ کوئٹہ بن گیا۔ کوئٹہ کے لغوی معنیٰ ‘قلعہ’ کے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نام کسی قلعہ کی وجہ سے نہیں ملا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے جس سے وہ ایک قدرتی طور پر قلعہ بنا ہوا ہے۔ پہاڑوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے کوئٹہ کو پیالہ نما شہر بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں اس شہر کو لٹل پیرس کا بھی نام دیا گیا۔

کوئٹہ سردیوں میں شدید سرد ہوتا ہے اور گرمیوں میں قدرے گرم ہوجاتا ہے۔ آج کل یہاں گرمیوں میں شدید گرمی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے جو عبرت کا باعث بن جاتی ہے، جبکہ سردیوں میں شدید سردی منفی بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے اور یہ لوگوں کی برداشت کے قابل نہیں ہوتی۔ بلوچستان کے اکثر گرم علاقوں کے لوگ مارچ سے ستمبر تک کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں اور کوئٹہ میں ان ماہ میں ایک بھیڑ جمع ہوجاتی ہے۔ ایک میلے کا سماں ہو جاتا ہے۔ اس دوران گھروں کے کرائے دو سے تین گنا ہو جاتے ہیں۔ اکثر ہوٹلوں کا ملنا بھی نایاب ہو جاتا ہے۔ پھر غریب لوگ ٹینٹ لگا کے اپنا گھر بناتے ہیں اور گرمیاں کوئٹہ میں گزارتے ہیں۔ یہ ٹینٹ سریاب روڈ پر ہزاروں کی تعداد میں سج جاتے ہیں اور تیز آندھی اور بارش ان ٹینٹوں کو اکھاڑ دیتی ہے، مگر پھر بھی یہ لوگ گرم علاقوں سے زیادہ کوئٹہ کو ترجیح دیتے ہیں۔

کوئٹہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد بلوچستان کا صدر مقام بنا تھا۔ جب بلوچستان کو صوبہ کا درجہ دیا گیا تو اس کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی جو آج تک برقرار ہے۔ کوئٹہ میں کئی مغل بادشاہ آئے اور گزر گئے۔ 1543ء میں مغل شہنشاہ ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی طرف فرار ہو رہا تھا تو کوئٹہ میں کچھ عرصہ قیام کیا اور جاتے ہوئے اپنے بیٹے اکبر کو یہیں چھوڑ گیا تھا۔ اکبر نے دو سال تک کوئٹہ میں رہائش اختیار کی تھی۔ 1556ء تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا جس کے بعد ایرانی سلطنت کا حصہ بنا۔ مگر مغلوں کو یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ کوئٹہ ایرانی سلطنت کا حصہ ہو۔ پھر 1595ء میں دوبارہ شہنشاہ اکبر نے کوئٹہ پر حملہ کیا اور کوئٹہ کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا تھا۔ جبکہ 1839ء کی پہلی برطانوی و افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پر قبضہ کر لیا۔ 1876ء میں اسے باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا اور رابرٹ سنڈیمن کو کوئٹہ کا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔

سنڈیمن کی ایک بڑی خاصیت تھی کہ اس نے تمام سرداروں کو ایک کوزے میں بند کر دیا۔ سنڈیمن واحد پولیٹیکل ایجنٹ تھے جو بغیر محافظوں کے پورے بلوچستان کی سیر کرتا تھا۔ سنڈیمن کے نام سے آج بھی کوئٹہ کے کئی ادارے منسوب ہیں جن میں سول ہسپتال سمیت کچھ سکول بھی ہیں۔ انہوں نے کوئٹہ میں سڑکوں کا جال بچھانے کا کام شروع کیا تھا۔ آج بھی کچھ سڑکوں کے نام ان انگریزی ناموں سے منسوب ہیں جن میں پرنس روڈ اور مشن روڈ بہت مشہور ہیں۔ انگریز حکومت نے کوئٹہ کو ریل کا نظام دیا جس سے آج پورا پاکستان منسلک ہے۔ یہ قابل ستائش ہے، حتیٰ کہ ریل نظام کی بحالی کوئٹہ کے لیے سب سے بڑا کارنامہ تھا۔

کوئٹہ پر کئی بار برا وقت بھی آیا۔ لیکن وہ دن تو قیامت خیز تھا جب کوئٹہ تیس سیکنڈ میں پورا الٹ پلٹ ہوگیا۔ اس وقت بلوچستان کے عظیم لوگ اس دنیا سے چلے گئے۔ جی ہاں وہ دن تھا 31 مئی 1935ء کا، جب کوئٹہ میں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا جس نے پورے شہر کو آناً فاناً مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور ایک اندازہ کے مطابق چالیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس قیامت خیز زلزلہ نے کوئٹہ کو بالکل تباہ کر دیا اور شہر کی عمارتوں کا نام نشان تک نہ چھوڑا تھا۔ لوگ اپنے پیاروں کو کئی کئی ماہ تک عمارتوں کے نیچے تلاش کرتے رہے۔ یہ زلزلہ 7.1 کی شدت کا تھا۔ اس روز کے بعد اکثر لوگوں نے زلزلے کے خوف سے کوئٹہ کا رخ کرنا چھوڑ دیا، لیکن گرمی کی شدت نے ان لوگوں کو دوبارہ کوئٹہ شہر آباد کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

آج کوئٹہ کی آبادی سات لاکھ ہوچکی ہے۔ یہ پاکستان کا نواں بڑا اور بلوچستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے بہت سے دفاتر یہاں قائم ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی اور بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی بھی اسی شہر میں ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ خشک فروٹ بھی اسی شہر کی قسمت میں ہیں۔ دنیا کی خوبصورت ترین جھیل ہنہ اس شہر کا ہیرا ہے۔ جبل نور بھی اسی شہر کی قسمت میں ہے جس میں لاکھوں شہید قرآن مجید رکھے گئے ہیں۔ عسکری پارک، لیاقت پارک اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دلکشی کا مرکز ہے۔ برفباری تو کوئٹہ کی جان ہے۔ کوئٹہ میں بولی جانے والی زبان بلوچی، براہوی، پشتو، سندھی، سرائیکی، پنچابی اور فارسی قابل ذکر ہیں۔ بلوچی چپل اور بلوچی سجی اس شہر کی مشہور سوغات ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔