معاشرے میں حرمت کا معیار
ہماری سیاسی زندگی بھی ابتری اور کرپشن کا شکار ہے اس کی ایک وجہ تو اشرافیہ کی سیاست پر بالادستی ہے۔
ہمارے ایک بہت ہی قریبی اور بے تکلف دوست تھے پروفیسر اقبال احمد خان۔ خان صاحب نہ صرف ایک کالج میں پروفیسر تھے بلکہ ایک معروف دانشور بھی تھے۔ تاریخ ان کا خصوصی موضوع تھا قومی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر ہوتی تھی۔
ملک کے ایک سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی قومی سیاست کے حوالے سے پروفیسر اقبال سے مشاورت کرتے تھے، ان کے علاوہ حکمران طبقے کے عمائدین بھی پروفیسر سے مشورے لیتے تھے۔ اس کلیبر کے شخص کی معاشی حیثیت یہ تھی کہ پروفیسر روزانہ بسوں میں یا تو جانوروں کی طرح ٹھنس کر سفر کرتے تھے یا بسوں کے پائیدان پر لٹک کر سفر کیا کرتے تھے۔
اسی خطرناک سفر کے دوران وہ بس سے اترتے ہوئے گر گئے اور ان کے پیر کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی۔ ڈاکٹروں نے ان کے پیر میں راڈ ڈال دیا وہ بڑی تکلیف کے ساتھ بسوں میں سفر کرتے تھے کہ ان کی آمدنی بہت قلیل تھی یہ حالت ملک کے ایک نامور دانشور کی تھی۔
پروفیسر بے چارے تو اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن کراچی میں ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں پروفیسر، ماہرین معاشیات، ادیب، شاعر، مفکر، دانشور موجود ہیں جو اپنی معمولی سی آمدنی کی وجہ سے آج بھی انتہائی خطرناک طریقوں سے بسوں، منی بسوں میں سفر کرتے ہیں جب کہ ملک میں چور لٹیرے نااہل لوگ قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، وجہ کیا ہے محدود آمدنی۔ ہمارے ملک میں ایکٹر یعنی اداکار، طبلہ نواز، بانسری نواز، نااہل اعلیٰ عہدیدار قسم کے لوگ آسودہ زندگی گزارتے ہیں نئی نئی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں نوکر چاکر کے ساتھ ایک پرتعیش زندگی گزارتے ہیں اور شہرت کی بلندیوں کو چھوتے ہیں۔
مہذب معاشروں میں دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، فنکاروں کو شہرت بھی حاصل ہوتی ہے اور انھیں آسودہ زندگی گزارنے کے مواقعے بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے دانشور، مفکر، ادیب، شاعر، صحافی انتہائی شدید معاشی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ صدیوں پر پھیلا ہوا وہ امتیازی کلچر ہے جو اہل لوگوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہے۔ ایلیٹ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھنے والے وہ ضمیر فروش اس معاشرے میں باعزت باوقار اور انتہائی پرتعیش زندگی گزارتے ہیں جن کی قیمت انھیں ضمیر کی قیمت پر ادا کرنی پڑتی ہے۔
صحافی انتہائی محنت کرنے والے لوگ ہوتے ہیں وہ قلم کے ساتھ جسمانی مشقت بھی کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے بے شمار صحافیوں کو جانتا ہوں جو چائے روٹی سے ناشتہ کرتے ہیں۔ اس معاشی بدحالی کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات عمومی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور ضمیر کی حرمت کا خیال رکھتے ہیں حالات اور دور حاضر کی ضرورتوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔
ہمارے ملک کے ظالم حکمران طبقات نے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے مزدوروں کی کم سے کم اجرت 15 ہزار روپے مقرر کی ہے اتنی کم اجرت میں 6-7 افراد پر مشتمل ایک خاندان گزارا کرسکتا ہے؟ میں اس پس منظر میں اس تکلیف دہ حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو 15 ہزار سے کم اجرت ملتی ہے وہ چائے روٹی کی حدود میں قید رہتے ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ادیب کو لے لیں یہ مخلوق ملک اور معاشرے کے سدھار کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں جو خون خرابا ہوا اور کہا جاتا ہے کہ ان فسادات میں 22 لاکھ انسان جرم بے گناہی میں مارے گئے،کروڑوں افراد نے ترک وطن کیا اور راستوں میں مارے گئے۔ اس قتل و غارت نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تعصبات اور نفرتوں کی دیوار کھڑی کردی، بھارت اور پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تحریروں کے ذریعے نفرت کی اس دیوارکوگرا دیا اور برصغیر میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کی لیکن اتنی بڑی قومی خدمت انجام دینے والے شاعر اور ادیب غربت کی چکی میں پستے رہے، مشکل ترین معاشی حالات میں زندہ رہے اور مشکل ترین معاشی حالات میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اس ظالمانہ کلچر کی وجہ یہ ہے کہ قومی سطح پر ادیبوں، شاعروں، مفکروں اور دانشوروں کی کوئی پہچان نہیں۔ آج کی جدید دنیا میں انسانی شناخت کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے ایک ادیب ایک شاعر اپنی تخلیقات کی پبلشنگ کے لیے مہینوں سالوں کوشش کرتا ہے اور بڑی مشکل سے اپنی کتاب کو چھپواتا ہے تو اس کی پبلسٹی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تخلیقات گمنامی کے اندھیرے میں گم رہتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ادیبوں اور شاعروں کو احترام بھی حاصل ہوتا ہے اور آسودہ زندگی گزارنے کے مواقعے بھی حاصل ہوتے ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان معاشروں میں ادبی تخلیقات عوام تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔
کرائم زدہ معاشروں میں ادب اور شاعری انسانوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن ادیبوں اور شاعروں کی یہ تخلیقات عوام تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں کہ میڈیا میں ادبی تخلیقات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی جب کہ میڈیا سیاسی لٹیروں کی اس طرح پبلسٹی کرتا ہے کہ ملک کا ہر شہری انھیں جاننے لگتا ہے۔ معاشرے جرائم کے اڈوں میں تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں قانون اور انصاف کی کارکردگی صفر ہے ایسے معاشروں اور ملکوں میں ادب اور شاعری معاشرتی اصلاح کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ادب اور شاعری اپنی شناخت سے محروم گوشہ گمنامی میں پڑی ہوئی ہیں۔
میرے افسانوی مجموعوں کی لانچنگ میں عموماً معروف ادیب شوکت صدیقی اور معروف نقاد ڈاکٹر حنیف فوق شامل رہتے تھے اور یہ حضرات اکثر ناامیدی کے جذبات میں یہ کہتے رہتے کہ آپ کی کتابیں گوشہ گمنامی میں پڑی رہیں گی، آپ کی محنت ضایع ہوتی رہے گی۔
ہماری سیاسی زندگی بھی ابتری اور کرپشن کا شکار ہے اس کی ایک وجہ تو اشرافیہ کی سیاست پر بالادستی ہے دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو دانشورانہ رہنمائی حاصل نہیں جب کہ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاسی پارٹیوں کو دانشورانہ رہنمائی حاصل رہتی ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما جو کرپشن میں اپنا جواب نہیں رکھتے خود ہی سیاسی رہنما ہوتے ہیں خود ہی دانشور ہوتے ہیں خود ہی مفکر ہوتے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے آپ کے سامنے ہے ملک ایڑی سے چوٹی تک کرپشن میں دھنسا ہوا ہے۔