عوام سے غداری کا جرم
عوام دشمن سیاستدانوں کے اعزاز میں ان کی زندگی کے دوران اور موت کے بعد بھی بڑی اعزازی تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ہمارے آئین میں آرٹیکل 6 موجود ہے جس کے تحت آئین شکنی غداری کے زمرے میں آتی ہے جس کی سزا موت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آئین کو بار بار توڑا گیا ۔ 1958 میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کرلیا یہ ایک سنگین اور پہلی آئین شکنی کی واردات تھی۔
آمر منتخب سول حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں اور سیاستدان نہ صرف اس آئین شکنی کے خلاف سخت تحریکیں چلانے سے گریزاں رہتے ہیں بلکہ اس حوالے سے شرمناک بات یہ ہے کہ ہمارے جمہوریت پسند سیاستدان فوجی حکومتوں میں شامل رہتے ہیں ۔
ایوب خان کی مارشل لاء حکومت میں ہمارے جمہوریت پسند سیاستدان نہ صرف شامل رہے بلکہ اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ مقبول ترین سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف ایوب حکومت میں شامل رہے بلکہ ایوب حکومت کے وزیر خارجہ کے طور پر خدمات بھی انجام دیں لیکن ایوب خان کی آئین شکنی کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہیں چلائی گئی۔ ایوب خان کہتا تھا کہ میرے ایک اشارے پر سیاستدان میرے پاس دم ہلاتے چلے آتے ہیں۔ یہ ریمارکس بڑے سخت اور انتہائی توہین آمیز تھے لیکن سیاستدانوں کی طرف سے کوئی سخت ردعمل اس حوالے سے سامنے نہیں آیا ۔
ایوب خان نے اپنے اقتدار کا دس سالہ جشن منایا، اس جشن نے ملک کے عوام میں غصے کی آگ بھڑکا دی اور ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ایوب خان نے طاقت کے ذریعے اس عوامی احتجاج کو دبانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا، اس دوران مزدور بھی میدان میں آگئے کیونکہ ایوب خان نے امریکا سے کولمبو پلان کے تحت بھاری امداد حاصل کی تھی لیکن یہ امداد مشروط تھی کہ ایوب خان اس امداد کے بدلے میں پاکستان میں ترقی پسند عناصر کے خلاف سخت ایکشن لے گا۔
کولمبو پلان کے تحت جو امداد دی گئی تھی اس سے ملک میں صنعتی ترقی کے دور کا آغاز ہوا لیکن صنعتی ترقی کو بے روک ٹوک جاری رکھنے کے لیے مزدوروں کو قابو میں رکھنا ضروری تھا، سو ایوب حکومت نے مزدوروں کے خلاف سخت ترین پالیسی اپنائی۔ اس وحشیانہ پالیسی کے تحت مزدوروں کے ہر دلعزیز رہنما حسن ناصر کو لاہور کے قلعے میں سخت اذیت دے کر شہید کیا ۔
بد قسمتی یہ ہے کہ عوام دشمن سیاستدانوں کے اعزاز میں ان کی زندگی کے دوران اور موت کے بعد بھی بڑی اعزازی تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے حسن ناصر نے پاکستان آنے کے بعد اپنے آپ کو ڈی کلاس کیا اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد میں دل و جان سے جت گیا، ایسے عظیم انسان کی یاد میں کوئی دن نہیں منایا جاتا، سائٹ اور لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں بھٹو کے دور میں مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں اور درجنوں مزدوروں کو شہید کردیا گیا۔ اس ایکشن کی وجہ سے مزدوروں میں سخت بے چینی پیدا ہوئی جس کا ازالہ کرنے کے لیے ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے وزیر محنت رانا حنیف کو کراچی بھیجا۔
رانا حنیف نے مزدوروں کی بے چینی دور کرنے کے لیے قصر ناز میں مزدور عمائدین کی ایک میٹنگ بلائی، اس میٹنگ میں مزدور رہنماؤں نے اپنے اپنے طور پر مزدور مسائل رانا صاحب کی خدمت میں پیش کیے ،جب رانا حنیف نے مجھ سے کہا کہ آپ اپنے مطالبے بتائیں تو میں نے چند دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ حسن ناصر ڈے پر چھٹی کرانے کا مطالبہ پیش کیا جسے مزدور کسان راج لانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے منظور نہیں کیا۔ یہ واقعات ہم اس لیے دہراتے رہتے ہیں کہ مزدور طبقے میں قربانی دینے والے مزدور رہنماؤں کی یاد تازہ ہو جب ایوب خان کی حکومت کے خلاف مزدوروں کی مقبول تنظیم متحدہ مزدور فیڈریشن جس کا ہم بھی حصہ تھے میدان میں آئی تو ایوب خان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
ایوب خان 10 سال تک ملک پر حکومت کرتا رہا لیکن کسی طرف سے بھی اس کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر نہیں کیا گیا کیونکہ سیاستدان ایوب حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔ ایوب خان کے بعد ضیا الحق نے 1977 میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کی تاریخ کا بدترین مارشل لا لگادیا۔ اور بھٹو کو پھانسی لگوائی لیکن ضیا الحق کے خلاف نہ کوئی موثر تحریک چلائی گئی نہ اس کے خلاف کسی نے غداری کا مقدمہ قائم کیا اس کے برخلاف اہل سیاست انتہائی بے شرمی کے ساتھ ضیا الحق حکومت کا حصہ بن گئے۔ ضیا الحق نے جن سیاستدانوں کو اپنے جانشیں کے طور پر متعارف کرایا ان جانشینوں کے خلاف آج کل اربوں کی کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور یہ جانشیں عدلیہ کے خلاف جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ملک میں چوتھی فوجی حکومت جنرل (ر) مشرف کی قائم ہوئی اور مشرف نے بھی ملک پر 10 سال حکومت کی۔ مشرف پہلے جنرل (ر) ہیں جن کے خلاف ہوا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ فوجی حکومتوں کے دوران عوام کے مسائل حل ہوتے رہے ، فوجی حکومتوں کے دوران بلدیاتی نظام جاری رہا جب کہ سیاستدانوں کی حکومتوں کے دوران نہ صرف عوامی مسائل میں اضافہ ہوتا رہا اور بلدیاتی نظام معطل رہا۔ اب پہلی بار بلدیاتی نظام جمہوری حکومت کے دوران فنکشنل ہے لیکن بلدیاتی نظام کی روح انتظامی اور مالی اختیارات چھین لیے گئے ہیں اور بلدیاتی امور ٹھپ پڑے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوری حکومتوں کے دوران عوامی مسائل میں بے تحاشا اضافہ کیوں ہوجا تا ہے؟ ہر برسر اقتدار آنے والی جمہوری حکومت عوام سے ان کے مسائل حل کرنے کے نام پر ووٹ لیتی ہے اور عوام پر مسائل کے انبار لاد دیتی ہے۔ بلاشبہ ریاست کے خلاف بغاوت ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا موت ہے لیکن عوام کے مسائل حل کرنے کے نام پر عوام کو بے وقوف بناکر ان کے ووٹ لینا اور حکومت میں آکر عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے سروں پر اتنے مسائل لاد دینا کہ ان کا سر اٹھانا مشکل ہوجائے آئین توڑنے سے زیادہ بڑی غداری نہیں ہے؟کیونکہ آئین توڑنے والا ایک حکومت سے غداری کرتا ہے جب کہ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں بے تحاشا اضافے سے 21 کروڑ عوام سنگین مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں کیا یہ عوام سے غداری نہیں ہے؟