خون عطیہ کرنے والوں کا عالمی دن

میاں عمران احمد  جمعرات 14 جون 2018
خون عطیہ کرنے کی اہمیے اور افادیت سے متعلق آگہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

خون عطیہ کرنے کی اہمیے اور افادیت سے متعلق آگہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

14 جون خون عطیہ کرنے والوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن سائنس دان کارل لینڈسٹائنر کے جنم دن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ کارل لینڈسٹائنر 14 جون 1868 کو آسٹریا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ویانا سے حاصل کی، میڈیسن کی تعلیم یونیورسٹی آف ویانا سے حاصل کی۔ 1891 میں تھیسس مکمل کیا اور دور طالب علمی میں ہی خوارک کے خون پر اثرات اور خون کی بناوٹ کے حوالے سے ایک مضمون لکھا جو مقبول ہو گیا۔

1883 سے 1891 تک کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی اور اسی دوران اپنے پروفیسرز کی مدد سے بہت سے آرٹیکل اور کتابیں لکھیں۔ 1897 سے 1908 تک یونیورسٹی آف ویانا میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران مصلیات، جرثومیات، سمیات اور مرضیات پر پچھتر پیپر شائع کیے۔ ان دس سالوں میں تین ہزار چھ سو پوسٹ مارٹم کیے؛ 1908 سے 1920 تک پوسٹ مارٹم کے پروفیسر کے طور پر کام کیا۔

1900 میں کارل لینڈسٹائنر نے خون کے تین گروپ اے، بی اور او دریافت کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک جیسے بلڈ گروپ کو آپس میں ملانے سے بلڈ سیل تباہ نہیں ہوتے بلکہ مختلف بلڈ گروپس کو آپس میں ملانے سے خون کے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں۔ Karl کی اس تھیوری کی بنا پر ایک ہی گروپ کے خون کو ملانے کا تجربہ 1907 میں نیویارک کے ہسپتال میں کیا گیا۔ تجربہ کامیاب ہوا اور Karl ایک سائنس دان سے ایک انسانیت کا مسیحا بن گیا۔ اس ہی کی تھیوری کی وجہ سے آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اے بی گروپ کے انسانوں کو کسی بھی گروپ کا خون دیا جا سکتا ہے اور او نیگیٹو گروپ کے حامل افراد کسی بھی انسان کو خون دے سکتے ہیں۔ Karl کی ان کامیابیوں کے اعتراف پر انھیں 1930 میں نوبل انعام دیا گیا اور یہ 26 جون 1943 کو پچھتر سال کی عمر میں امریکہ کی ریاست نیویارک میں انتقال کر گئے۔ آج پوری دنیا اس عظیم سائینس دان کے یوم پیدائش کو خون عطیہ کرنے والوں کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے۔ یہ کارل لینڈسٹائنر کی زندگی کی مختصر سی کہانی ہے۔

کارل لینڈسٹائنر دنیا سے چلے گئے لیکن اپنی پچھتر سالہ زندگی میں انسانیت کے لیے وہ کام کر گئے جو شاید آنے والے پچھتر ہزار سال تک یاد رکھا جائے گا اور بنی نوع انسان چاہتے ہوئے بھی ان کے کام کا بدلہ نہیں چکا سکے گی۔

کارل لینڈسٹائنر کا انتقال تو 1943 میں ہو گیا لیکن اقوام متحدہ نے خون کا عطیہ دینے والوں کا دن منانے کا آغاز 2004 سے کیا۔ لیکن خیر، دیر آئے درست آئے۔ اس دن کو منانے کا مقصد محفوظ خون اوراس کی مختلف پراڈکٹس کے متعلق آگہی دینا اور انسانیت کی بھلائی اور لوگوں کی مدد کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پرخون عطیہ کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگینائزیشن آفیشل طور پر آٹھ ’’گلوبل پبلک ہیلتھ کمپین‘‘ کی تشہیر کر رہا ہے جن میں ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے بھی شامل ہے۔ عطیہ کیے گئے خون کی بدولت ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔ زندگی اور موت کی کیفیت میں مبتلا مریضوں کے لیے خون کی منتقلی کے عمل نے جینے کی ایک نئی امید پیدا کی ہے، اور زندگی سے مایوس مریض خون کی منتقلی کے بعد پہلے سے زیادہ صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں صحت مند اور محفوظ خون کی شدید کمی ہے اور ضرورت کے وقت محفوظ خون کا انتظام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

آج کے دن کے موقع پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کی جانب سے پوری دنیا کے لوگوں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو آگہی دی جاتی ہے کہ رضاکارانہ طور پر باقاعدگی سے خون عطیہ کرنا کس طرح لاکھوں جانیں بچا سکتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 73 ممالک مفت خون کی فراہمی کی سہولت سے محروم ہیں۔ لوگ ضرورت پڑنے پر خون خریدتے ہیں یا رشتے داروں کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ایک المیہ ہے۔ جبکہ 60 ممالک ایسے ہیں جہاں 99-100 فیصد خون کی ملکی ضرورت رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دینے والوں سے پوری کی جارہی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر ایک ہزار افراد میں خون کے عطیات دینے والوں کی تعدادآمدنی کے لحاظ سے مختلف ہے۔ زیادہ آمدنی والے ممالک میں یہ تعداد 32.1 عطیات ہے۔ درمیانی درجے کے زیادہ آمدن والے ممالک میں یہ تعداد 14.9 عطیات ہے۔ درمیانے درجے کے کم آمدن والے ممالک میں یہ تعداد 7.8 عطیات ہے اور کم آمدن والے ممالک میں یہ تعداد 4.6 عطیات ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ہدف مقرر کیا ہے کہ 2020 تک دنیا کے تمام ممالک اپنے خون کی ضرورت کا 100 فیصد رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کرنے والوں سے حاصل کر سکیں گے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہر سال کی بلڈ ڈونر ڈے کی اشتہاری مہم کو ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 2012 میں اشتہاری مہم کا سلوگن تھا کہ ’’ہر خون کا عطیہ کرنے والا ہیرو ہے۔‘‘ 2013 میں سلوگن تھا ’’زندگی کا تحفہ دیں، خون دیں۔‘‘ 2014 کا سلوگن تھا ’’ماؤں کو بچانے کے لیے خون دیں۔‘‘ 2015 کا سلوگن تھا ’’میری زندگی بچانے کا شکریہ۔‘‘ 2016 کا سلوگن تھا ’’خون ہم سب کو جوڑتا ہے۔‘‘ 2017 کا سلوگن تھا ’’خون دیں، ابھی دیں اور اکثر دیں۔‘‘ آج 14 جون 2018 کو ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے یونان کے شہر ایتھنز میں منایا جا رہا ہے۔ اور اس کی کمپین کا سلوگن ہے’’ کسی کے لیے موجود رہیں، خون دیں، زندگی کو شئیر کریں۔‘‘

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ان کاوشوں کی بدولت سال 2008 سے 2013 میں رضاکارانہ طور پر مفت خون دینے والے لوگوں کی تعداد میں ایک کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ جنوب مشرقی ایشا (75 فیصد) اور (افریقہ 37فیصد) ممالک میں ہوا۔ 2013 کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو رپورٹ کرنے والے 68 فیصد ممالک نیشنل بلڈ پالیسی بنا چکے ہیں۔

58 فیصد ممالک میں خون کی منتقلی اور صحت کے حوالے سے باقاعدہ طور پر قانون بنا دیا گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو رپورٹ کرنے والے 176 ممالک میں تیرہ ہزار بلڈ سینٹر قائم کیے جا چکے ہیں جو کہ سالانہ ایک کروڑ سے زائد بلڈ ڈونیشن اکٹھا کرتے ہیں۔ اوپر دیے گئے اعدادوشمار کے پیش نظر ہمیں اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کام کو بحرحال سراہنا ہوگا، کیونکہ جو کام یہ کر رہے ہیں وہ یقیناً مسیحاؤں کا کام ہے؛ اور ہم دل کی گہرائیوں سے ان کے مشکور ہیں۔

ایک طرف پاکستان زکوٰۃ، عطیات اور خیرات دینے والے ممالک میں سر فہرست ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان ان ممالک میں بھی شامل ہے جہاں باقاعدگی سے رضاکارانہ طور پر مفت خون کا عطیہ دینے کی شرح صرف دس فیصد ہے۔ ضرورت پڑنے پر یا تو خون خریدا جاتا ہے یا رشتہ داروں سے لیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک پاکستان میں ہر سال پینتیس لاکھ خون کے عطیات اکٹھے کیے جاتے ہیں جن میں نوے فیصد رشتہ داروں سے اور صرف دس فیصد مفت رضاکاروں سے لیے جاتے ہیں۔ جبکہ ملک کی آبادی کا ستر فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

اگر پوری آبادی کے صرف دو فیصد لوگ باقاعدگی سے خون عطیہ کریں تو پورے ملک کی ضرورت کو باآسانی پورا کیا جا سکتا ہے۔ پمز اسلام آباد کے مطابق انہیں روزانہ 125-100 خون کے عطیات چاہیے ہوتے ہیں جو کہ رضاکاروں کے نہ ہونے کی وجہ سے رشتہ داروں سے لیے جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق رشتہ داروں کی نسبت باقاعدگی سے خون دینے والے رضاکاروں کا خون زیادہ صحت مند ہوتا ہے، کیونکہ ایک تو تازہ خون بنتا رہتا ہے اور دوسرا ان کی مکمل طور پر اسکریننگ بھی باقاعدگی سے ہوتی رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک پاکستان میں 75 فیصد ہسپتالوں میں خون کی منتقلی کے حوالے سے کمیٹیاں موجود نہیں ہیں۔ خون کو اسکریننگ کیے بغیر ہی منتقل کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اے، بی، سی جیسی بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

ان حالات میں ملک پاکستان میں خون کے عطیات کی اہمیت کو اجاگر کرنے، معیاری اور محفوظ خون اکٹھا کرنے، اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق محفوط کرنے اور ضرورت مندوں کو بروقت خون مہیا کرنے کے حوالے سے بیسیوں ادارے کام کر رہے ہیں، لیکن اس حوالے سے سب سے زیادہ قابل ستائش کام پاکستان ریڈ کریسنٹ کا ہے۔ یہ ادارہ باقاعدہ طور پر حکومت پاکستان سے منْطور شدہ ہے۔ 96 فیصد خون مفت بلڈ ڈونرز سے اکٹھا کرتا ہے۔ ان کے پاس دنیا کی جدید ترین مشینری دستیاب ہے۔ تمام قوانین بین القوامی معیار کومد نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔

اسلام آباد میں اسکولوں پر مشتمل ایک آگہی پروگرام چلایا جا رہا ہے جس میں خون دینے کی اہمیت اور ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مفت خون فراہم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آگہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ تنظیم تھیلیسیمیا، ہیمو فیلیا، کینسر اور گردوں کے مریضوں کو بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ زکوٰۃ کے مستحق اور غریب لوگوں کو مفت خون کی فراہمی ان کی اولین ترجیح ہے۔ اس کے علاوہ 2005 کے زلزلے، 2008 کے میریٹ ہوٹل حملے اور 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور حملے کے واقعے میں پاکستان ریڈ کریسنٹ نے ایمرجنسی کیمپ لگائے۔ جس سے سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچائی گئیں۔ لیکن خون کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک یا دو اداروں کا کام ناکافی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کو رضاکارانہ طور پر مفت خون کے عطیات دینے کی اہمیت سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو یہ باور کرانا ہو گا کہ خون نہ دینے کی سینکڑوں وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن خون دینے کی ہزاروں وجوہات موجود ہیں۔

ہماری ستر فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اگر ہم ان میں خون دینے کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ملک پاکستان میں ایک بھی موت خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہیں ہو گی۔ میری ملک پاکستان کے ڈاکٹروں سے گزارش ہے کہ جہاں وہ ہر روز اپنی تنخواہوں اور مراعات کو مدعا بنا کر ہڑتالیں اور دنگے فساد کرتے ہیں، وہاں ملک پاکستان میں خون کی کمی کے مسئلے کو بھی اجاگر کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ خون عطیہ کرنے کے فوائد کے حوالے سے ایک مکمل چیپٹر اسکول کی کتابوں میں شامل کریں۔ پرائیویٹ اسکولوں کے کورس میں اس مضمون کو شامل کروانے کےلیے پرائیویٹ اسکولوں کی تنظیم سے مذاکرات کریں۔ یونیورسٹیوں اور کالجز میں سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ ریگولر بلڈ ڈونرز کو ماڈلز کے طور پر پیش کیا جائے۔ ٹیلی ویژن اور اخبار میں ان کے انٹرویو دکھائے اور چھاپے جائیں۔ دفتروں میں آگہی مہم کے حوالے سے پمفلٹ تقسیم کیے جائیں۔ دفتروں میں ہر چھ ماہ بعد بلڈ ڈونر کے نام سے ورکشاپ منعقد کی جائے۔ ملک کی سیاسی، سماجی اور فلمی دنیا کے لوگوں کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جائے۔

دینی مدرسوں میں خون عطیہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے تمام فقہوں کے علما اور مشائخ کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس موضوع کو مدرسوں کے کورس کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں اٹھارہ سال سے پچاس سال کے لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور تمام صحت مند افراد کے لیے کالج، یونیورسٹیوں میں داخلے اور نوکری کے حصول کے لیے سال میں ایک مرتبہ خون عطیہ کرنا لازمی قرار دے دیں۔

حکومت خون عطیہ کرنے کے ریکارڈ کو نادرا کے سسٹم کے ساتھ منسلک کر دے، اس سے نہ صرف ملک میں صحت مند خون کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے گا بلکہ صحت مند افراد کے حوالے سے مستند ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جا سکے گا اور ضرورت پڑنے پر بیرون ملک مستحق لوگوں کو بھی خون فراہم کیاجا سکے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے تمام ہسپتالوں خصوصاً دور دراز کے علاقوں کے ہسپتالوں میں خون کی منتقلی کے حوالے سے کمیٹیاں تشکیل دے اور ماہانہ بنیادوں پر ان کمیٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لے اور ان کی تربیت کا بندوبست کرے۔

اس کے علاوہ پورے ملک کے چیمبر آف کامرس میں اس حوالے سے سیمینارز کا انعقاد کیا جائے اور ملک کے صاحب حیثیت افراد کو اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ جس دن ہمارے سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور کاروباری حضرات میں سے کسی ایک طبقے نے بھی نیک نیتی سے خون کی کمی کے مسئلے پر کام شروع کر دیا اس دن یہ ملک رہنے کے لیے جنت بن جائے گا اور یہی سیاستدان، بیورکریٹس اور کاروباری حضرات ہمارے مسیحا بن جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔