مزدور اور سیاسی جماعتوں کے منشور

محنت کشوں کے بنیادی مسائل کو نظرانداز کردیا گیا


ناصر منصور April 30, 2013
سیاسی جماعتوں کے منشور میں غیرمنظم شعبے کے مزدوروں کو لیبرقوانین کے دائرے میں لانے کا کوئی ذکر نہیں . فوٹو : فائل

127واں یوم مزدور ایک پر آشوب اور شدید بحرانی کیفیت کے دور میں منایا جا رہا ہے۔

''ہے مارکیٹ شکاگو '' سے جنم لینے والی اوقات کار میں بہتری کی تحریک اب سرمایہ داری کے عفریت کو ہمیشہ کے لیے دفنانے کی تحریک بن چکی ہے۔ محنت کش طبقے کی یہ تحریک بنی نوع انسانی کی اجتماعی خوش حالی اور دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کا واحد راستہ بن رہی ہے، کیوںکہ سرمایہ داری نے ہمیشہ انسانوں کے درمیان نفرت، بھوک، بیماری، بے روزگاری، ماحولیاتی تباہی، کشت و خون اور جنگ بازی ہی پھیلائی ہے۔ سرمایہ داری کی تاریخ انہی جرائم سے عبارت ہے۔

آج بھی ماضی کی طرح ساری دنیا میں سرمایہ داری کا بحران گہرا ہو رہا ہے اور اس کے سماجی، معاشی اور سیاسی اثرات ہر خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا کے ممالک عمومی طور پر جب کہ خصوصی طور پر جنوبی یورپ کے ممالک اٹلی، اسپین، پرتگال، یونان اور قبرص خصوصی طور پر بدترین معاشی بحران کے گرداب میں پھنس چکے ہیں اور پچھلی صدی کے سب سے بڑے سام راجی منصوبے یعنی یورپی یونین کی ایکتا اور بقا ہی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس معاشی بحران کے اثرات ترقی یافتہ صنعتی ممالک سے نکل کر ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کی معیشتوں اور سماجوں میں بڑے پیمانے پر خلفشار اور معاشرتی ابتری کو جنم دے رہے ہیں۔

خود پاکستان میں جاری معاشی بحران اس کا واضح اظہار ہے۔ اگر ہمارے ہاں کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مشرف دور سے آج جب نئی حکومت کے لیے الیکشن ہو نے جا رہے ہیں، معاشی پالیسیوں کا ایک تسلسل ہے جو ورلڈ بینک اور IMF کے مسلط کردہ نظام کے عذاب کی صورت نظر آتا ہے، جو مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔

ان پالیسیوں نے عوام کی زندگیوں میں اگر زہر گھول دیا ہے تو یہ کوئی حیرت اور اچنبھے کی بات نہیں، کیوںکہ ان کے ایسے ہی مضر اثرات رونما ہونے تھے۔ ملکی منڈی کو غیر ملکی تیار مال کے لیے کھول کر ملکی معیشت کو غرقاب کر کے بے روزگاری کے عفریت کو بے قابو کر دیا گیا ہے۔ ذرائع پیداوار کے مالک بڑے بڑے جاگیرداروں اور صنعت کاروں کو ملنے والی چھوٹ نے معیشت کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر دیا ہے۔ زراعت کے میدان میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ رک گیا ہے۔ اجناس خصوصا گندم، چاول، کپاس وغیرہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے باوجود کروڑوں کسان بدترین بدحالی کا شکار ہیں اور نوبت خود کشیوں اور شہروں کی جانب بڑی تعداد میں ہجرت کی شکل میں نظر آ رہی ہے، جس سے ایک نیا معاشرتی اور ثقافتی بحران جنم لے رہا ہے۔

پچھلے برسوں آنے والے سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں نے ہاریوں کسانوں کے حالات زندگی کو مزید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ ان کے لیے جاگیرداروں کو قرضوں کی ادائیگی وبال جان بن گئی ہے۔ پاکستان میں صنعتی مزدور ہو یا زرعی کھیت مزدور، حقیقتا وہ شکاگو کے مزدوروں کو درپیش صورت حال سے بھی ابتر حالات سے دوچار ہیں۔ کام کے اوقات کار عملا طے نہیں، اجرتیں منہگائی کے تناسب سے نہیں، مشینوں میں جدت کے باعث پیداواری صلاحیت میں ہزار گنا اضافے کے باوجود فیکٹریوں کارخانوں اور کارگاہوں میں کام کے حالات نہایت مخدوش اور غیر انسانی ہیں ۔ پچھلے برس ستمبر میں کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ سے جھلس کر 300 سے زاید مزدوروں کی شہادتیں اس بھیانک حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرواتی ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر میں مزدور کی حیثیت دید غلام سے بڑھ کر نہیں، جو ہر قسم کے بنیادی قانونی حقوق سے محروم ہیں۔

صنعتی و مالیاتی اداروں میں مزدوروں کے معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی و آئینی حقوق بھی مکمل طور پر سلب کر لیے گئے ہیں، جو انھیں مقامی و بین الاقوامی لیبر قوانین کے تحت میسر ہونے چاہییں تھے۔ غیرقانونی ٹھیکے داری نظام نے نیم مردہ مزدور تحریک کی پیٹھ میں زہر آلود خنجر گھونپ رکھا ہے۔ لیبر ڈپارٹمنٹ اور لیبر کورٹس مذبح بنے ہوئے ہیں جہاں سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر مزدوروں کی نیم مردہ لاشوں کا سودا ہوتا ہے۔

سماجی تحفظ کے ادارے یعنی EOBI، سوشل سیکورٹی، ورکرز ویلفیئر بورڈ مزدوروں کی راحت کا کوئی عمل کرنے کی بجائے نوکر شاہی اور مزدوروں کے جھوٹے نمائندوں کی نہ ختم ہونے والی لوٹ مار کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ ملکی تاریخ کا حصہ ہے کہ مارشل لاء کے خلاف تحریکوں میں مزدور اور ہاری ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور جب جمہوری چلن بحال ہوتا ہے تو اس کے ثمرات مزدوروں، کسانوں اور عام ملازمین تک پہنچنے کی بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھے امیر طبقات اور عدالتی نظام کے ججوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس کی واضح مثال ہمیں سابقہ اسمبلی اور عدلیہ سے متعلق شخصیات کی مراعات میں ہوش ربا اور مسلسل اضافے کی شکل میں نظر آتی ہیں۔



ملک میں اس وقت ساڑھے پانچ کروڑ سے زاید لیبر فورس موجود ہے جو پوری آبادی کا 20% سے زاید بنتا ہے۔ حکم راں طبقات اور ان کی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل اور حکمت عملی موجود نہیں ۔ یہ جماعتیں یونین سازی کے حق، رہائش، صحت اور تعلیم کی ضمانت، ٹھیکے داری نظام، انفارمل سیکٹر، خصوصاً زرعی مزدور، ہاری، گھر مزدور خواتین اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے مزدوروں کے قانونی حقوق جیسے اہم مسائل پر خاموش ہیں۔ مسلم لیگ (ن) وہ پارٹی ہے جس کے دور ِ اقتدار میں فیصل آباد میں یونین سازی کی پاداش میں پاور لومز کے مزدوروں کو دہشت گردی کی عدالت سے مجموعی طور پر 490 سال کی سزا سنائی گئی، جب کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی سندھ میں مخلوط حکومت نےKESC اور پاور لومز کے ورکرز کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کر کے یونینز کے راہنماؤں کو گرفتار کیا۔

''سونامی'' کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کے راہ نما عمران خان جس صنعت کار کے طیارے میں نام نہاد تبدیلی کی تحریک چلا رہے ہیں، اس کی اپنی شوگر ملز میں مزدوروں کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، جب کہ اس کے ایک اور راہ نما جو روحانی پیر بھی ہیں، کے ہاریوں کے حالات کار 15ویں صدی کی سی غلامی کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں اگر نمایاں سیاسی جماعتوں کے منشور کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح طور پر نظر آئے گا کہ تمام جماعتوں بشمول پی پی، مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور اے این پی نے پبلک سیکٹر کے اداروں میں بہتری کے ٹھوس اقدامات تجویز کرنے کی بجائے نج کاری کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم اور اے این پی نے غیر منظم شعبے کے کروڑوں محنت کشوں بالخصوص زرعی مزدور، گھر مزدور عورتوں کو لیبر قوانین کے دائرہ کار میں لانے کے بارے میں اپنے منشور میں مکمل طور پر خاموشی اختیار کی ہے۔

یہی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف جو تبدیلی اور98% عوام کی آواز ہونے کی دعوے دار ہیں، انھوں نے کم از کم تن خواہ کو اپنے منشور کا حصہ بنانا گوارا ہی نہیں کیا۔ ایک اور نہایت اہمیت کے حامل مسئلے یعنی کام کی جگہ پر محنت کشوں کے لیے ہیلتھ اور سیفٹی جیسے مسئلے پر بھی تمام بڑی جماعتوں بشمول پی پی، مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور اے این پی نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور ان حالات میں جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں حفاظتی اقدامات سے متعلق اصولوں کی پامالی کی وجہ سے صنعتی حادثات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے کو اپنے منشور کا حصہ بناتے ہوئے ILOکنونشن برائے آکوپیشنل ہیلتھ اینڈ سیفٹی 155، 161 اور 187 کو تسلیم کر کے اس کی روشنی میں قانون سازی کا اعلان کرنا چاہیے تھا، تاکہ مزدوروں کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

مسلم لیگ (ن) جو کہ ملک میں قانون کی حکم رانی اور انصاف کی بات کرتی ہے، اس نے اپنے116صفحات پر محیط منشور میں مزدوروں سے متعلق اپنی پالیسی کے لیے صرف 12سطور پر ہی اکتفا کیا ہے جس سے اس کی مزدور مسائل سے عدم دل چسپی کا عندیہ ملتا ہے، جب کہ کسانوں، ہاریوں کے حقوق پر بھی اس کا منشور مکمل طور پر خاموش ہے۔ یہی صورت حال تحریکِ انصاف کے منشور میں بھی دکھائی دیتی ہے، جس نے مزدور دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے مزدوروں کے لیے زہر قاتل ''ٹھیکے داری نظام'' کو قانونی شکل دینے کی بات کی ہے۔

تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت نے زرعی اصلاحات کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے، جب کہ مزدوروں کی پینشن کو کیپیٹل مارکیٹ میں انویسٹ کرنے کا اعلان کر کے مزدوروں کی عمر بھر کی کمائی کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا پروگرام بنایا ہے۔ یہ جماعت اپنے منشور میں لیبر انسپیکشن، فیکٹریوں کی رجسٹریشن، کم از کم تن خواہ، اوقاتِ کار، منافعے میں مزدوروں کے حصے اور یونین سازی کے حق جیسے بنیادی حقوق پر مکمل طور پر چپ سادھے ہوئے ہے، نہ ہی اس جماعت نے اسمبلیوں میں مزدوروں کسانوں کی نمایندگی کا دعویٰ کیا ہے۔

گو کہ تحریک انصاف نے ABL,HBL,PTCL، KESCاورUBL اور کئی ایک بجلی کی کمپنیوں کی نج کاری کے طریقۂ کار پر تنقید کی ہے مگر حل کے طور پر ان کی نج کاری کے خاتمے کی بات کرنے سے اجتناب برتا ہے۔ تحریک انصاف نے آزاد نج کاری کمیشن بنانے کا عندیہ دے کر اپنے مزدوردشمن ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اسی منشور میں اس جماعت نے مضبوط دفاع کے نام پر جدید اسلحے پر وسائل لگانے کی بات کی ہے اور مزدوروں کی اجرتوں میں اضافے کی بجائے فوجی اخراجات میں اضافے کا اعلان کر کے اپنی مزدور مخالف ترجیحات واضح کر دی ہیں۔

ایم کیو ایم کراچی، جو پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے، کی نمایندگی کی دعوے دار ہے لیکن جس بدترین اذیت سے کراچی کا صنعتی مزدور گزر رہا ہے اس پر اس جماعت نے عمومی طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ یہی کچھ اس کے منشور سے بھی ظاہر ہوتا ہے جس میں رسمی اور سطحی طور پر مزدور مسائل پر بات کی گئی ہے، اور مزدوروں کے مسائل سے متعلق بعض دعوے وہ ہیں جو پہلے ہی قانوناً مزدوروں کو حاصل ہیں جس سے اس جماعت کے منشور مرتب کرنے والوں کی مزدور قوانین سے لاعلمی کا اظہار ہوتا ہے۔

انھوں نے صنعتی یونٹس میں ''مونٹیرنگ بورڈ'' بنانے، مناسب اجرتوں کے ڈھانچے، ہیلتھ انشورنس، اولڈ ایج بینی فٹس، معذوری کی پنشن وغیرہ کی بات کی ہے جو پہلے ہی قانونا حاصل ہے۔ اس جماعت نے بھی کم از کم تن خواہ کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ٹھیکے داری نظام اور سیفٹی اور ہیلتھ سے متعلق ILOکے کنونشن کے تحت قوانین بنانے کے اعلان سے پہلوتہی کی ہے۔ KESCاورPTCL کی نج کاری پر اس جماعت کے طرز عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ مزدور دشمنی میں یہ جماعت بھی دیگر جماعتوں کی صفوں میں کھڑی ہوئی ہے۔

اگرچہ پی پی نے اپنے منشور میں مزدوروں کی بہتری کے لیے کئی ٹھوس منصوبوں کا اعلان کیا ہے لیکن اس جماعت کے وعدے پر یقین کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی، اس لیے کہ پچھلے پانچ برس اس جماعت کی سربراہی میں سندھ اور بلوچستان میں حکومتیں رہیں جب کہ خیبر پختونخوا میں یہ اہم اتحادی کے طور پر رہی اور ایک بڑا عرصہ یہ جماعت پنجاب میں بھی مخلوط حکومت کا حصہ رہی مگر یہ کہیں بھی مزدوروں کے لیے کوئی خاطر خواہ بہتری لانے میں ناکام رہی۔ آج جب دائیں بازو کی سرمایہ دار دوست پارٹیاں عوام میں پذیرائی حاصل کر رہی ہیں تو اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ پیپلز پارٹی کا پچھلا دورِ حکومت ہے جس نے مزدور اور کسان طبقے کو بری طرح متاثر کیا، اور ان کی زندگیوں سے خوشی کی ہر امید چھین لی۔

یہی صورت حال دیگر جماعتوں کی ہے جنھوں نے کروڑوں محنت کشوں کے مسائل پر اپنا نقطۂ نظر واضح نہیں کیا۔ اگر سیاسی جماعتوں کی ٹیلی ویژن پر جاری تشہیری مہم کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی مزدور کی آواز کہیں نظر نہیں آتی۔

اسی پر اکتفا نہیں، یہ حقیقت ایک تماشے سے کم نہیں کہ ان تمام جماعتوں نے اکثریت میں ان افراد یا خاندانوں کو پارٹی ٹکٹ دیے ہیں جن کا تعلق جاگیرداروں، سرمایہ داروں، پیروں، سرداروں، نوابوں اور دولت مند گھرانوں سے ہے۔ یوں ثابت ہوتا ہے کہ ان پارٹیوں کی قیادت کی اکثریت ان طبقات پر مشتمل ہے جو فیکٹریوں، کارخانوں، زرعی اراضی اور قدرتی وسائل پر قابض ہیں اور ان کی اپنی فیکٹریوں، کارخانوں اور زرعی زمینوں پر کام کرنے والے کروڑوں ہاری، کھیت مزدور اور محنت کش اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

ان ذرائع پیداوار یعنی فیکٹریوں، کارخانوں، کھیتوں کے مالک پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ہوں یا عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعت اسلامی یا پھر تبدیلیوں کے دعوے دار عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ہوں، ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان کے اپنے اداروں میں مزدور سے آٹھ گھنٹے سے زاید کام لیا جاتا ہے، اجرتیں قانون کے مطابق نہیں دی جاتیں، ورکرز کے پاس تقرر نامے نہیں ہیں، سوشل سیکورٹی کے اداروں سے محنت کش رجسٹرڈ نہیں ہیں، ٹھیکے داری نظام موجود ہے اور یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری جیسے آئینی وقانونی حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا، جب کہ ان پارٹیوں کے وہ راہ نما جو زرعی اراضی کے مالک ہیں ان کی جاگیروں میں فرعونیت دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کے کروڑوں ہاری، مزارعین، کھیت مزدور تمام قانونی حقوق بشمول تنظیم سازی کے حق سے محروم ہیں۔

یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جمہوریت تاریخی طور پر دراصل صنعتی دور کی پیداوار ہے اور اس کا پہلا زینہ کام کی جگہ پر کام کرنے والوں کے لیے تنظیم سازی یعنی یونین بنانے کا حق ہے، مگر یہ حق قانون کی کتابوں میں ہونے کے باوجود حکم راں طبقات چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہوں، دینے کو تیار نہیں ہیں۔ آج بھی پاکستان میں صرف3% محنت کش یونین سازی کے حق سے مستفید ہو رہے ہیں، اور صرف 5%ورکرز سوشل سیکورٹی کے اداروں سے رجسٹرڈ ہیں، جب کہ ان میں بھی اکثریت کے پاس ان اداروں کے کارڈز موجود نہیں۔ صرف 4%کے پاس تحریری تقرر نامے موجود ہیں اور صرف 5%محنت کش حکومتوں کی اعلان کردہ کم از کم تن خواہ حاصل کر پا رہے ہیں۔

کیا آصف علی زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، الطاف حسین، عمران خان اور دیگر جماعتوں کے راہ نما جو محنت کشوں کے ووٹ سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، اپنی پارٹیوں میں موجود زرعی اراضی اور صنعتی اداروں کے مالکوں، پارٹی عہدے داروں اور ٹکٹ ہولڈرز کے بارے میں نہیں جانتے کہ ان کے صنعتی اداروں اور زرعی زمینوں پر کام کرنے والے کروڑوں محنت کش اپنے بنیادی جمہوری حق یعنی تنظیم سازی کے حق اور کم از کم اجرت اور قانونی اوقات کار سے محروم ہیں؟ اگر جمہوریت کے لیے ضروری بنیادی یونٹ یعنی فیکٹری اور کھیت میں کام کرنے والا محنت کش اپنے جمہوری حق سے محروم ہے تو کیا سماج میں جمہوری اقدار حقیقی معنوں میں پنپ سکتی ہیں؟

تو پھر محنت کش طبقے کے لیے سنجیدگی سے سوچنے کا تاریخی لمحہ آن پہنچا ہے کہ ایسی پارٹیاں جن کی قیادت اور منشور محنت کشوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں خاموش اور ان کے راہ نما اور نمایندے عملی طور پر خود مزدوروں اور ہاریوں کے قانونی حقوق سلب کرنے والوں میں شامل ہیں، کیا اقتدار میں آکر مزدوروں اور کسانوں کو بنیادی حقوق دے سکیں گے اور ملک میں کسی قسم کی سماجی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرنے والے ہی ان کے اذیت ناک شب و روز کے بنیادی طور پر ذمے دار ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیداوار کے ذرائع (فیکٹریاں، کارخانے، زرعی اراضی وغیرہ) ان حکم راں خاندانوں کی نجی ملکیت ہیں اور اس ملکیت کے زور پر وہ کروڑوں مزدوروں، کسانوں اور ملازمین کی مشترکہ محنت سے اپنی دولت میں ہر لمحہ اضافہ کرتے ہیں، اسی دولت سے مزید فیکٹریاں، کارخانے لگاتے ہیں اور مزید اراضی اور اثاثے خرید کر مزید دولت مند بنتے جاتے ہیں ۔

اسی دولت اور سرمائے کے تحفظ کے لیے اور اسی دولت کے بل بوتے پر وہ اپنی سیاسی جماعتیں بناتے ہیں اور عوام کے نام پر عوام پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ان سے چھٹکارے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ فیکٹریوں، کارخانوں، کارگاہوں، زرعی اراضی میں کام کرنے والے کروڑوں مزدور، کسان اور دوسرے ملازمین خود کو اپنی طبقاتی تنظیموں یعنی مزدور تنظیموں، ہاری کسان کمیٹیوں، ملازمین کی ایسوسی ایشنز اور دیگر تنظیموں میں منظم کریں اور پھر ملک گیر پیمانے پر خود اپنی سیاسی تنظیم بنائیں جو ذرائع پیداوار پر اجتماعی ملکیت کی تحریک کا آغاز کریں۔

مقبول خبریں