دوہری شہریت، ایک سوتیلا پن

عارف محمود کسانہ  پير 9 جولائی 2018
عدالتوں میں، میڈیا میں دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو تضحیک آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

عدالتوں میں، میڈیا میں دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو تضحیک آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک فلم کی کہانی یاد آگئی جس میں مرکزی کردار دو سوتیلے بھائیوں کا ہوتا ہے، وہ اپنی بیوہ ماں کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں۔ ماں کا سگا بیٹا سہل پسند اور نکما ہوتا ہے جبکہ سوتیلا بیٹا کھیتوں میں کام کرتا ہے اور اس کی محنت و مشقت سے گھر کا انتظام چلتا ہے۔ ایک طرف سوتیلا بیٹا دن رات محنت کرتا ہے تو دوسری طرف ماں اپنے سگے بیٹے کے ساتھ گھر میں بیٹھ کر عیش کرتی ہے ہاں البتہ کبھی کبھار سوتیلے بیٹے کی تعریف کردیتی ہے تاکہ وہ اور بھی محنت سے کام کرے اور زیادہ سے زیادہ کما کر لائے۔ ماں سوتیلے بیٹے کو یہ بھی باور کرواتی کہ تم بھی میرے بیٹے ہو، بلکہ دونوں میرے لیے برابر ہو اور میری آنکھوں کے تارے ہو۔ شب و روز یونہی گذرتے ہیں کہ جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ آجاتا ہے۔ سوتیلا بیٹا یہی سمجھتا ہے کہ ماں کےلیے دونوں برابر ہیں اور وہ دونوں میں انصاف کے ساتھ برابر جائداد تقسیم کرے گی؛ اس لیے اسے کوئی فکر نہ تھی۔

ماں نے جائیداد تقسیم کرنے کے موقع پر اپنے سوتیلے بیٹے سے کہا تم میرے بیٹے تو ہو لیکن ظاہر ہے تم میرے سگے بیٹے تو نہیں، اس لیے جائداد تو میرے سگے بیٹے کو ہی ملے گی۔ اس فلم کی کہانی اکثر یاد آتی رہتی ہے لیکن اب یوں پھر ذہن میں آگئی کہ پاکستان میں نئے ڈیم بنائے جارہے ہیں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی جارہی ہے کہ اس کے لیے دل کھول کر عطیات دیئے جائیں، لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اب تک ووٹ دینے کا حق دار قرار نہیں دیا گیا۔ اسی طرح جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو کہا جاتا کہ آپ تو پاکستانی ہیں، کیا ہوا اگر آپ کسی اور ملک میں مقیم ہیں۔ لیکن 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے موقع پر کہا گیا کہ آپ سگے پاکستانی نہیں اس لیے یہ حق نہیں مل سکتا۔

گویا بیرون ملک مقیم پاکستانی اور دوہری شہریت والے صرف دینے کےلیے ہیں، لینے میں ان کا کوئی حق نہیں۔ جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل پڑی، چاہیے وہ سیلاب کی صورت میں ہو یا قیامت خیز زلزلہ، قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم ہو یا موجودہ ڈیم بنانے کا پروگرام، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جذباتی کرکے ان کی جیبوں سے رقم نکلوائی جاتی ہے لیکن جب وہ کہتے پیں کہ ہمیں بھی برابر کا شہری تسلیم کیا جائے تو کہا جاتا ہے آپ تو سوتیلے بیٹے ہیں، کون سے سگے ہیں۔ دیتے وقت ہم سگے ہو جاتے ہیں لیکن لیتے وقت سوتیلے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے دلوں میں پاکستان دھڑکتا ہے۔ ہماری وجہ سے ہر سال پاکستان کو بیس ارب ڈالر کے برابر زرمبادلہ ملتا ہے جس کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا لیکن ہم پھر بھی سوتیلے ہیں۔

سب سے زیادہ ناانصافی اور زیادتی دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے ساتھ کی جاتی یے۔ پاکستان میں جہاں وہ پیدا ہوئے اور پیدائشی شہریت رکھتے ہیں وہاں انہیں دوسرے درجے کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے، جبکہ جس ملک کی شہریت انہوں نے بعد میں حاصل کی ہوتی ہے وہاں انہیں شہریت کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور مقامی باشندوں کے برابر قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً سوئیڈن میں مقیم پاکستانی دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں۔ اس دوہری شہریت کے ہوتے ہوئے ایک پاکستانی سوئیڈن میں رہتے ہوئے ہر عہدہ کےلیے اہل ہے اور دوہری شہریت کہیں بھی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی۔ سوئیڈن میں رہتے ہوئے دوہری شہریت کا حامل ایک پاکستانی کسی بھی سرکاری ملازمت، پارلیمنٹ کا رکن یہاں تک کے وزیر اعظم بننے کا بھی اہل ہے۔ ستم ظریفی اور ظلم یہ ہے کہ وہی پاکستانی اپنے مادروطن میں نہ سرکاری ملازمت کا اہل ہے اور نہ ہی انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہے۔ اگر اعتراض ہونا چاہیے تو سوئیڈن کو ہونا چاہیے تھا، نا کہ اس پاکستان کو جہاں کی پیدائشی شہریت حاصل ہوتی ہے۔ عدالتوں میں، میڈیا میں دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو تضحیک آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کیا یہ دوہری شہریت ہے؟ یہ دوہری نہیں ڈیڑھ شہریت ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دوہری شہریت کے قانون کو ہی ختم کردیا جائے، یا پھر برابر کے حقوق دئیے جائیں اور جب تک برابر کے حقوق نہیں دیتے ہم سے مزید کوئی دست سوال بھی نہ کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عارف محمود کسانہ

عارف محمود کسانہ

بلاگر، کالم نگار ہیں اور سویڈن کی فارن پریس ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔ سویڈن ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے بھی منتظم ہیں۔ فیس بُک پر ان سے Arifkisana کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔