مختلف جماعتوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور سیاسی جوڑ توڑ جاری

عارف عزیز  اتوار 15 جولائی 2018
سندھ اور بلوچستان کی انتخابی مہمات اور سیاسی صورت حال کا احوال۔ فوٹو : فائل

سندھ اور بلوچستان کی انتخابی مہمات اور سیاسی صورت حال کا احوال۔ فوٹو : فائل

سندھ بھر کی سیاسی قوتیں انتخابی مہمات کے دوران اپنے مخالفین پر الزامات عائد کرنے کے ساتھ سابق حکومت کو مسائل اور بحرانوں کا ذمہ دار قرار دے کر عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی جلسوں میں دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کے باعث جہاں فضا سوگوار ہے، وہیں خوف اور دہشت کے سائے بھی گہرے ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں جلسوں اور ریلیوں کے دوران قاتلانہ حملوں اور دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس صورتِ حال کے باعث ملک کے حساس علاقوں میں انتخابی مہمات اور امیدواروں کی گھر گھر رابطہ مہم متاثر ہوسکتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے فوج کی مدد لینے سمیت دیگر اقدامات کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

سندھ اور بلوچستان میں پچھلے چند دنوں کے دوران انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی عروج پر رہا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بھی رابطے جاری ہیں۔ سندھ میں عام انتخابات کے موقع پر جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو منی لانڈرنگ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے، وہیں پی پی پی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم کے دوران شہروں اور دیہات میں جاکر عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کر رہے ہیں اور اس موقع پر مخالفین کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اندرونِ سندھ شہری اور دیہی آبادی میں جہاں پی پی پی کا راج رہا ہے، وہیں متحدہ قومی موومنٹ بھی اپنے امیدواروں کو انتخابی عمل کے ذریعے اسمبلیوں میں لانے میں کام یاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ فنکشنل لیگ اور قوم پرست جماعتیں بھی براہِ راست اور جوڑ توڑ کے نتیجے میں کام یابی سمیٹنے میں کام یاب ہوتے رہے ہیں۔ اس بار اندرونِ سندھ تحریکِ انصاف بھی اہم شخصیات کو اپنا ہم خیال بنانے کے ساتھ عوام کو متبادل کی حیثیت سے متوجہ کرنے میں کام یاب نظر آتی ہے اور پی پی پی کو جی ڈی اے کے علاوہ پی ٹی آئی کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔

کراچی کی بات کی جائے تو تجزیہ کاروں کے نزدیک 2018 کے الیکشن روایتی نتائج کے مقابلے میں مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ اسے نظریاتی اختلاف، انحراف اور نئے زمینی حقائق کے سیاق وسباق میں دیکھنا ہو گا۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم میں داخلی تقسیم اور اردو بولنے والے ووٹرز میں تذبذب اور کشمکش عام الیکشن میں کسی بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں اور یہاں کے انتخابی نتائج حیران کن بھی ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں سیاسی اتھل پتھل پر نظر ڈالی جائے تو جہاں متحدہ کی لندن سے لاتعلقی اور حصّے بخروں کے بعد پی ایس پی نے جنم لیا، وہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پچھلے ایک سال کے دوران اس شہر میں جلسے اور عوامی رابطے کر کے اردو بولنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔

متحدہ جو کہ ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار تھی، اب کسی قدر سرگرم نظر آرہی ہے، مگر اردو بولنے والے ووٹر کیا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ انتخابات کے حوالے سے مذکورہ جماعتوں کے علاوہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے دینی جماعتیں، خاص طور پر جماعتِ اسلامی بھی شہر میں انتخابی مہم میں مصروف ہے جب کہ پی ٹی آئی نے بھی اس شہر سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا تین عشروں تک راج قائم رہا اور اب یہاں پیدا ہونے والے خلا کو دیگر سیاسی جماعتیں پُر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔

اندرون سندھ پیر پگارا کی قیادت میں بننے والا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) بھی متحرک ہے اور اس پلیٹ فارم سے نامی گرامی اور بااثر سیاست داں انتخابی حلقوں پر امیدوار ہیں۔ جی ڈی اے کی انتخابی سرگرمیاں سندھ پر راج کرنے والی پی پی پی کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہیں جب کہ تحریک انصاف نے بھی گزشتہ چند برس کے دوران حکومت سندھ کی کارکردگی اور کرپشن سے بیزار عوامی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور ایک تیسری بڑی قوت بن کر ابھری ہے۔ اس الیکشن میں پی پی پی کو پی ٹی آئی کے امیدواروں کا بھی سخت مقابلہ کرنا ہوگا۔ اسی طرح بعض حلقوں پر اندرونی اختلافات کی وجہ سے پی پی پی کو اپنوں ہی سے لڑنا ہے جب کہ ن لیگ، نئے سیاسی اور مذہبی اتحاد بھی اس کے مقابلے پر ہیں۔ پی پی پی کے باغی ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزا بھی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے متحرک ہیں۔

سیاسی مبصرین کراچی میں پی ٹی آئی کو اس کے کم زور سیاسی فیصلوں کے باعث کوئی خاطر خواہ کام یابی سمیٹتا نہیں دیکھ رہے جب کہ پیپلز پارٹی نے انتخابات سے قبل کراچی میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کی اور فلائی اوورز، انڈر پاسز سمیت کئی دوسرے منصوبے شروع کیے تھے۔ یہ جماعت ان کاموں اور متحدہ میں داخلی انتشار سے انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے پُرامید ہے۔ دیگر جماعتیں بھی اسی سوچ کے ساتھ میدان میں ہیں۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ نئے اتحاد، سیٹ ایڈجسنٹمنٹ اور جوڑ توڑ سے صورتِ حال بدل سکتی ہے۔ مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کی سربراہی میں اپ سیٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور دینی اتحاد مختلف حلقوں میں ووٹوں کی تقسیم کا سبب بن سکتے ہیں۔

بلوچستان پر ایک نظر

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے اس صوبے میں اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم تو شروع کر دی ہے مگر یہاں کے ووٹرز قبائلی اور برادری کی قیادت کے زیرِ اثر رہے ہیں اور اس بار بھی ماہرین یہاں سے بڑی اور حقیقی تبدیلی کا امکان ظاہر نہیں کر رہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے کے مخصوص حالات بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور امیدواروں کے جلسے اور کارنر میٹنگز جاری ہیں۔ اسی طرح جوڑ توڑ کی سیاست میں بھی یہاں تیزی آگئی ہے جب کہ مختلف جماعتوں میں وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

چند روز قبل تک قومی سطح کی کسی بھی جماعت کے سربراہ نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے کسی بڑے شہر میں جلسہ منعقد کرکے اپنا منشور عوام کے سامنے نہیں رکھا تھا۔ عام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کی 65 میں سے 51 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوگا۔ باقی رہ جانے والی 14 نشستوں پر خواتین اور اقلیتی برادری کے ارکان کام یاب جماعتوں کی نشستوں کے تناسب سے منتخب ہوں گے۔ اسی طرح بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر بھی براہِ راست انتخاب ہوگا۔

اس بار انتخابات سے قبل حلقہ بندیاں بھی سیاسی جماعتوں کے لیے مسئلہ بنی ہیں۔ اس حوالے سے شکایات اور اعتراضات داخل کروانے کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا ہے۔ بلوچستان میں مختلف اتحاد سرگرم ہیں جب کہ پارٹی قیادت سے اختلافات کے بعد بعض اضلاع میں بااثر شخصیات نے اندرونِ خانہ بھی حمایت و مخالفت کے فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ ان جماعتوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد اختلافات اور دھڑے بندی کا کسی مرکزی راہ نما نے بظاہر نوٹس نہیں لیا ہے۔ دوسری طرف صوبے میں قوم پرست جماعتیں بھی متحرک ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہوئی اور انتخابی اکھاڑے میں الگ الگ نظر آئیں گی۔

بلوچستان کے بلوچ اکثریتی اضلاع میں اثر ور سوخ رکھنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کو چند ہفتے قبل تک مشترکہ امیدوار لانے میں کئی مشکلات درپیش تھیں۔ اس صورتِ حال میں صوبے میں بیشتر سیاسی جماعتوں نے انتخابی ایڈجسٹمنٹ کی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح پشتون اکثریتی اضلاع میں بڑی اور بااثر عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی اتحاد یا مشترکہ امیدوار کو اکھاڑے میں اتارنے میں ناکام رہی ہیں۔ تاہم بعض اضلاع میں مذکورہ جماعتیں اس حوالے سے اکٹھی بھی ہیں۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ ضلعی سطح پر انتخابی ایڈجسٹمنٹ کی جائے۔ اس کی مثال ضلع خضدار میں دی جاسکتی ہے جہاں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) اور نیشنل پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے انتخابی میدان میں اتحاد کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد صوبے کی سطح پر بی این پی اور پی پی پی کے درمیان اتحاد کرنا تھا۔

ایسی صورت میں مذکورہ جماعتیں مکران ڈویژن، لسبیلہ، کوئٹہ، جعفر آباد، نصیر آباد اور سبی کے اضلاع میں انتخابی نشستوں پر فائدہ سمیٹ سکتے ہیں۔ بی این پی کی قیادت نے جے یو آئی (ف) سے مقامی سطح پر اتحاد کے بعد خیال ظاہر کیا تھاکہ یہ اتحاد صوبائی سطح پر بھی ہو سکتا ہے۔ صوبے میں اختر مینگل نے بی این پی، اے این پی اور ہزارہ ڈیموکر یٹک پارٹی کے درمیان بھی اتحاد کا عندیہ دیا تھا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ یہ تینوں جماعتیں پیپلز پارٹی سے مل کر صوبے کی سطح پر کوئی انتخابی اتحاد قائم کر لیں۔ اسی صوبے میں نوتشکیل شدہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) بھی انتخابی میدان میں سرگرم نظر آرہی ہے اور اس کی جانب سے جلسوں کے بعد صوبے کی دیگر جماعتوں کو انتخابات میں اپنی مشکلات بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ یہ جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) کو ’’کنگز پارٹی‘‘ قرار دے کر دھاندلی کے خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بلوچستان کو مخلوط حکومت ملے گی جس میں دو یا اس سے زائد جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔