انتخابی مہم اختتامی مرحلے میں

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وقت حکومتی دوڑ میں مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔


Editorial July 23, 2018
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وقت حکومتی دوڑ میں مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

25جولائی جوں جوں قریب آ رہی ہے ' عام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں اتنی ہی شدت آتی جا رہی ہے، ہر سیاسی جماعت پوری قوت اور شد ومد سے عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حقیقی اور فوری حل صرف اس کے پاس موجود ہے اور وہ برسراقتدار آکر ان مسائل کو عوام کی خواہشات کے مطابق حل کر کے ملک کو ترقی نئی راہ پر ڈال اور عوام کی تقدیر بدل دے گی۔

یہ ہر سیاسی جماعت کا آئینی حق ہے کہ وہ ووٹرز تک اپنا منشور پہنچائے اور وہ ایسا ہی کررہی ہیں۔ شہروں شہروں جلسے ہورہے ہیں اور میڈیا پر بھی انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔ادھر الیکشن کمیشن کے ضابطے اخلاق کے مطابق انتخابی مہم پیر کی رات 12بجے ختم ہو جائے گی اور بدھ 25جولائی کو انتخابات کا فیصلہ کن معرکہ ہو گا اور عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے مستقبل کی حکومت کا فیصلہ کریں گے۔

یہ امر قدرے اطمینان بخش ہے کہ حالیہ انتخابی مہم تمام تر شکایات کے باوجود پرامن رہی اور انتخابی امیدواروں نے کھل کر اپنی اتخابی مہم چلائی تاہم اس دوران دہشت گردی کے چند ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے جس سے انتخابی امیدواروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہو گیا اور ماحول بھی افسردہ رہا۔ دہشت گردوں نے پہلے پشاور میں بلور خاندان کے چشم و چراغ ہارون بلور کو نشانہ بنایا، 10جولائی کو اے این پی کے امیدوار ہارون بلور کی انتخابی کارنر میٹنگ میں اچانک خود کش دھماکہ ہوا جس سے ہارون بلور سمیت 14افراد شہید اور 65زخمی ہو گئے۔

پھر 13جولائی کو بنوں میں ووٹرز کو خوف زدہ کرنے کے لیے اکرم درانی کے قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا جس میں 5افراد شہید ہوئے' اسی دن مستونگ میں سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی کے جلسے میں خود کش حملہ ہوا جس سے سراج رئیسانی سمیت 130افراد شہید جب کہ 150سے زائد زخمی ہوئے' اس طرح ہارون بلور کے حلقہ پی کے78 اور سراج رئیسانی کے حلقہ پی بی 35 میں الیکشن ملتوی کر دیئے گئے۔ اس کے بعد کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے انتخابی امیدواروں کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی۔ ادھر نیکٹا نے واضح کیا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پر حملے کے خطرات بدستور موجود ہیں۔

تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف عمل اور امن و امان کی صورت حال خراب کرنے میں کوشاں ہیں' انھوں نے انتخابی امیدواروں کو اپنے نشانہ پر رکھا ہوا ہے'دہشت گردی کی جاری حالیہ لہر میں اتوار کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک خود کش حملے میں پی ٹی آئی کے امیدوار اکرام اللہ گنڈا پور شہید ہوگئے جب کہ سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی پر ایک اور حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے۔

انتہا پسند دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن نگران حکومت اور الیکشن کمیشن پرعزم ہیں کہ 25جولائی کو ہر صورت انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے گا۔ انتخابی مہم کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جوش و خروش سے جاری ہے' جذبات کی رو میں بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے جس پر الیکشن کمیشن کو نوٹس لیتے ہوئے انھیں متنبہ کرنا پڑا کہ وہ غیرمہذب الفاظ اور رویے سے گریز کریں۔

اسی دوران سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ۔گزشتہ روز راولپنڈی میں این اے 60پر مسلم لیگ ن کے امیدوار حنیف عباسی کو ایک کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور انھیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ۔ ایسی اطلاعات بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ متعدد انتخابی امیدواروں کے خلاف کیسز انتخابات کے باعث التوا میں ڈال دیئے گئے ہیں اور الیکشن کے بعد ان کے خلاف کیس ری اوپن کیے جائیں گے' اس سلسلے میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان انتخابی امیدواروں میں سے بھی بعض کے ڈس کوالیفائی ہونے کے خدشات خارج از امکان نہیں۔ بہرحال قانون نے اپنا راستہ بنانا ہوتا ہے ، اس پر کسی کو سیاست نہیں چمکانی چاہیے بلکہ قانون کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے ، یہی درست طریقہ ہے ۔

25جولائی کو عوام ووٹ کے ذریعے اپنے امیدواروں کا چنائو کریں گے' کون جیتتا اور کون ہارتا ہے اس کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا لیکن اس امر سے قطعی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح انتخابات کا شفاف' غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انعقاد ہے۔ ایسی کسی بھی کوشش کو سختی سے رد کیا جانا چاہیے جس سے انتخابی عمل میں گڑ بڑ اور دھاندلی کے الزامات سامنے آئیں۔ مسلم لیگ ن کی رخصت ہونے والی حالیہ حکومت پر بھی دھاندلی کے الزامات لگا کر جلسوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس سے پورے ملک میں سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا جس کے ملکی معیشت پر گہرے اور طویل منفی اثرات مرتب ہوئے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی متعدد بار اقتدار میں آ چکی ہیں اب انھیں ایک تیسری سیاسی مخالف جماعت پی ٹی آئی کا سامنا ہے' سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وقت حکومتی دوڑ میں مسلم لیگ ن' پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور ان ہی میں سے کسی ایک کے اقتدار میں آنے کے امکانات ہیں۔ اقتدار کسی بھی جماعت کے حصے میں آئے الیکشن بہرصورت منصفانہ اور شفاف ہونے چاہئیں' اگر کہیں کسی گڑ بڑ کا شائبہ بھی ہوا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کے الزامات لگا کر احتجاج اور دھرنوں کا نیا سلسلہ شروع کر سکتی ہیں جس سے نئی آنے والی حکومت کو شروع دن ہی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نئی آنے والی حکومت کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں جن میں آکٹوپس کی طرح تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی' روپے کی گرتی ہوئی قدر' ملکی اور غیرملکی قرضوں کا انبار اور ان کی ادائیگی' متزلزل معاشی صورت حال' دہشت گردی کے عفریت سمیت توانائی اور پانی کا بحران شامل ہیں' اور حکومت کا یہ سب سے بڑا امتحان ہو گا کہ وہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اور پالیسی اختیار کرتی ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ' گردشی قرضہ اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ نئی حکومت کے لیے پہلے ہی دن سے سردرد ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

مقبول خبریں