کیا بلوچستان میں انتخابات شفاف تھے

جہاں سے شکایات موصول ہورہی ہیں وہاں شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں ورنہ لوگوں کا انتخاب نامی سیاسی عمل سے اعتماد اٹھ جائے گا


یوسف عجب بلوچ July 31, 2018
مخالف سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو بلوچستان میں حکومت دلانے کےلیے ہر طرح کی دھاندلی کی گئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

حال ہی میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں شفافیت پر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں سوالات اٹھا رہے ہیں جن میں خاص طور مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر درجنوں مذہبی اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں اور کئی حلقوں میں ان سیاسی تنظیموں نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ مسلم لیگ کی دعوت پر 27 جولائی کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے الیکشن 2018 کو مسترد کرتے ہوئے حالیہ انتخابات کے نتائج کو عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ قرار دیا اور انتخابی نتائج کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ دوبارہ شفاف انتخابات کرائے جائیں ورنہ ان نتائج کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ ان کا الزام تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا اور دھمکی دی کہ وہ چور اور لٹیروں کو پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔

ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان کے کئی حلقوں میں اس الیکشن کے نتائج کے حوالے سے شکوک و شہبات کا اظہار کیا جارہا ہے؛ اور اس حوالے سے مختلف الزامات بھی لگائے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے مکران بیلٹ میں چند امیدوارں کی طرف سے یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ بے شمار پولنگ اسٹیشنز دن کے بارہ بجے بند کیے گئے اور بعد میں ان کے من پسند نتائج بنائے گئے اور ایسے پولنگ اسٹیشنز جو بدامنی کی لپیٹ میں تھے وہاں رات کے اندھیرے میں ہزاروں ووٹ بلوچستان میں نئے بننے والی سیاسی تنظیم 'بلوچستان عوامی پارٹی' کے امیدواروں کے حق میں ڈالے گئے جس میں قبروں میں پڑے مردوں کے ووٹ بھی شامل ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) این اے 271 کے امیدوار جان محمد دشتی اس بنا پر انتخابی نتائج کو رد کرچکے ہیں کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران ان کے تحفظات کو دور نہیں کیا گیا۔ جان محمد دشتی کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل بی این پی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان، صوبائی الیکشن کمشنر، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور انتظامیہ کو دھاندلی کے بارے میں پیشگی آگاہ کیا تھا جس میں پولنگ اسٹیشنز کو دور دراز اور ویران علاقوں میں قائم کرنا، جانبدار اور بد دیانت پریزائیڈنگ و اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسرز کی تعیناتی اور ضلعی انتظامیہ اور نئی بننے والی جماعت 'بلوچستان عوامی پارٹی' کے بار ے میں تحفظات شامل تھے۔ لیکن ان تحفظات کو دور کرنے اور انتخابات کو شفاف و غیر جانبدار بنانے میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں گئی۔

پی بی 37 قلات کے انتخابی نتائج کا چار دن بعد اعلان بھی کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ حتمی نتائج کا اعلان نہ کرنے کے خلاف بات ڈی سی آفس و مجسٹریٹ آفس کے سامنے دھرنا دینے تک آن پہنچی اور بالآخر پوسٹل ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کیا گیا۔ مگر اس حوالے سے متحدہ مجلس عمل کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے ساتھ مکمل دھاندلی کی گئی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 75 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تمام جماعتوں نے عملے اور ایجنٹس سے لیے تھے جن میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے امیدوار میر سعید احمد لانگو 1500 ووٹوں سے اپنے مخالف اور بی اے پی کے امیدوار میر ضیا اللہ سے برتری پر تھے۔ پھر بعد میں ان ووٹوں کی تعداد 450 بتائی گئی مگر اچانک یہ اعلان کیا گیا کہ بی اے پی کے امیدوار 22 ووٹوں سے لیڈ کر رہے ہیں۔ تاہم جب چیلنج کیے گئے اور مسترد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی گئی تو ان میں سے 14 میر سعید احمد لانگو کے حق میں نکلے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانچ پولنگ اسٹیشنز کے چیلنج اور مسترد کیے گئے ووٹ غائب تھے جنہیں بعد میں ڈسٹرکٹ مستونگ اور ڈسٹرکٹ سکندر آباد سوراب سے لایا گیا۔

اس دوران ریٹرننگ آفیسر مسلسل الزامات کی زد میں رہا تاہم جب راقم نے ضلع قلات میں بے اے پی کے ایک رہنما سے ان الزامات کے حوالے سے پوچھا تو انہوں ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں ایسی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی جس کا الزام قلات میں موجود بی اے پی کی لیڈر شپ پر لگایا جائے۔

بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر راحیلہ حمید درانی جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست این اے 265 اور پی بی 29 کوئٹہ سے الیکشن میں امیدوار تھیں، وہ الیکشن نتائج سے مطمن نظر نہیں آتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں اصولوں پر مبنی سیاست کی سزا دی گئی ہے کیونکہ انہوں نے مشکل حالات میں اپنی سیاسی جماعت کا ساتھ دیا۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کا چوبیس گھنٹے بعد اعلان ہونا، ہمارے پولنگ اہلکاروں کو ووٹوں کی گنتی کے وقت باہر نکال دیا جانا اور فارم 45 کا اجراء نہ کیا جانا سسٹم اور نتائج کے مستند ہونے پر کئی سوال اٹھاتا ہے۔

نیشنل پارٹی کی سابق ایم پی اے اور پی بی 32 کوئٹہ کی امیدوار یاسمین لہڑی نتائج کے خلاف الیکشن کمیشن آفس کے سامنے احتجاج کی دھمکی دے چکی ہیں اور نتائج ماننے سے انکاری ہیں۔ راقم سے گفتگو کرتے ہوئی یاسمین لہڑی کا کہنا تھا کہ دھاندلی کو یقینی بنانے کےلیے تاریخ میں پہلی مرتبہ پولنگ کے دوران نماز کا وقفہ کیا گیا اور اس دوران پولنگ ایجنٹس کو کمروں سے نکال کر اپنے من پسند امیدوار کےلیے ووٹ ڈالے گئے جس میں ڈیوٹی پر موجود افراد نے بھی دھاندلی کرنے والوں کا بھرپور ساتھ دیا۔

یاسمین لہڑی کہتی ہیں کہ کوئٹہ میں خودکش حملے کے باعث ووٹ کاسٹ کرنے والوں کا تناسب کم رہا مگر اس کے باوجود ہمارے مخالف امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد زیادہ رہی۔ اسی طرح مختلف پولنگ اسٹیشنز پر ہمارے پولنگ اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ڈرایا دھمکایا گیا؛ اور نہ ہی ہمارے پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 کا اجراء کیا گیا۔

عام انتخابات 2018 کے جائزے کےلیے پاکستان آئے ہوئے یورپی مبصرین نے انتخابی مہم پر اثرانداز ہونے والے عوامل کی نشاندہی کرتے ہوئے مبصرین کی تعیناتی میں رکاوٹوں پر تحفظات ظاہر کیے۔ یورپی یونین کے مبصر مشن کے نمائندہ مائیکل گاہلر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی، پرتشدد واقعات اور مختلف مسائل انتخابی مہم پر اثرانداز ہوئے۔ تاہم انہوں نے الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بنانے کی تجویز دے کر یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ الیکشن کمیشن بااختیار نہیں۔

جہاں وفاقی سطح پر سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کو دھاندلی کے ذریعے نشستیں دینے کے حوالے سے الزامات لگارہی ہیں وہاں بلوچستان میں کچھ سیاسی جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کو قومی اور صوبائی سطح پر کامیاب کروانے اور صوبے میں زیادہ سے زیادہ نشستیں دلوانے کی کوشش کی گئی اور اس کےلیے دھاندلی کا سہارا لیا گیا مگر بی اے پی کی اعلی قیادت ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو ان کے کئی امیدوار الیکشن میں ہار نہیں جاتے۔ تاہم بلوچستان سمیت ملک کے کونے کونے سے ایسے ثبوت سامنے آرہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں شفافیت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے جن میں بلوچستان میں پولنگ اسٹیشنز کے باہر دھاندلی کی غرض سے لائے گئے بیلٹ پیپرز کا ملنا، بیلٹ بکسوں اور بیلٹ پیپرز کا غائب ہوجانا، بیلٹ پیپرز کا جلی ہوئی صورت میں ملنا، انتخابی نتائج کا تین یا چار دن تک اعلان نہ ہونا، پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 کا اجراء نہ کرنا، پولنگ ایجنٹس کو نتائج گننے کے وقت باہر نکال دینا کچھ ایسی مثالیں ہیں جن کی وجہ سے انتخابات کی شفافیت پر سولات اٹھائے جارہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان امیدواروں کو حلقوں میں ریٹرننگ آفیسرز کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے بلکہ جہاں جہاں سے شکایات موصول ہورہی ہیں، ان حلقوں میں شفاف تحقیقات کا آغاز ضرور ہونا چاہیے ورنہ لوگوں کا 'انتخاب' نامی اس سیاسی عمل سے اعتماد اٹھ جائے گا اور لوگوں کو اپنا ووٹ بے قیمت محسوس ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں