انوکھے کام

ذیشان الحسن عثمانی  جمعرات 2 اگست 2018
یہ ہیں وہ انوکھے کام جنہیں کرکے آپ بہ آسانی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ ہیں وہ انوکھے کام جنہیں کرکے آپ بہ آسانی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا جاتا ہے کہ کوئی ای میل، فیس بک میسج یا کوئی نوجوان نہ ملتا ہو جو کچھ انوکھا، منفرد اور یونیک نہ کرنا چاہتا ہو۔ ’’سر! میں چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا کام کروں جو سب سے یونیک ہو۔ بالکل اچھوتا، جو کسی نے نہ کیا ہو، جو دیکھے بس داد دے۔ میرے پاس بہت سارے آئیڈیاز ہیں۔ کاش کوئی قدر کرنے والا ملے تو میں اسے بتاؤں…‘‘ اور یہ کہانی چلتی ہی رہتی ہے۔

کچھ نیا، انوکھا اور سب سے الگ کرنے کی دھن ہمیں روزمرہ کاموں کا بھی نہیں چھوڑتی۔ جس شخص نے زندگی میں ڈبل روٹی تک نہ بیچی ہو وہ بھی چاہتا ہے کہ نیسلے کا سی ای او لگ جائے (صرف اور صرف اپنے آئیڈیاز کی بدولت)۔ جس نے ریڑھی نہ لگائی ہو وہ بھی ملک ریاض کو پیچھے چھوڑنے کے دعوے کرتا ہے۔ بڑے کام کرنے کی خواہش میں ہم ہزاروں چھوٹے کام کرنے سے رہ جاتے ہیں، بڑا آدمی بننے کی دھن میں ہم سرے سے آدمی ہی نہیں بن پاتے۔ یاد رکھیے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے مل کر ہی بڑا کام ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے لوگوں سے مل کر ہی بڑا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور یہ روزمرہ کے معمولی معمولی کام ہی ایک دن انہونی کی بنیاد بنتے ہیں۔

چلیے، آپ کی خواہش کے احترام میں، آپ کو کچھ انوکھے کام بتا دیتا ہوں۔ یہ کرنا شروع کیجیے، اِن شاء اللہ ضرور بہتری آئے گی:

1۔ اپنے اوپر خیرات کیجیے: خیرات ہم عموماً معاشرے کے ایسے لوگوں کو دیتے ہیں جو معاشرے کے اوسط معیار سے نسبتاً کم درجے کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ آپکے پاس گاڑی ہے، اچھے کپڑے اور کھانا ہے، ایسے میں آپ کسی شخص کو روڈ پر کچرے سے کچھ کھاتا دیکھیں گے تو آپ کا دل فوراً چاہے گا کہ اسے کچھ خیرات دے دیں۔

ہم میں سے اکثریت کی علمی و شعوری حالت بھی معاشرے سے کم تر ہے، اب اگر ہمیں اچھی تربیت نہ مل سکی یا ہم نے پڑھائی کا زمانہ ٹی وی اور کھیلوں میں گنوا دیا تو اس کی سزا معاشرے کو تو نہ دیجیے ناں۔ اپنے آپ پر خیرات کیجیے اور ان پیسوں سے علم حاصل کیجیے۔ کوئی کورس کرلیجیے، کہیں سفر پر چلیں جائیے، چھٹی لے کر کسی نیک آدمی کی صحبت میں بیٹھ جائیے کہ ماضی کی کوتاہیوں کا کچھ تو ازالہ ہو۔

2۔ اپنا احتساب کیجیے: روز رات کو سونے سے پہلے اپنا احتساب کیجیے، ایسا کہ جیسا کوئی دشمن کرے۔ ہونے والے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگیے، نعمتوں اور نیکیوں پر شکر ادا کیجیے۔ اچھا انسان بننے کی نیت کیجیے اور آئندہ والا کل آپ کے گزرے ہوئے آج سے بہتر بنانے کا عزم کیجیے اور دعا کرکے سوجائیے۔ جیسے بچہ اپنی ماں سے باتیں کرتا ہے، بالکل اسی طرح اللہ سے باتیں کیجیے۔ یہ بالکل انوکھا کام ہے، اسے کچھ سال تک جاری رکھیے۔ قدرت ضرور آپ سے کام لے گی۔ اور نہیں بھی لیا تو کیا؟ بقول شاعر

اس کی مرضی ہے جسے پاس بٹھالے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا

3۔ نفس کے مورچے پہچانیے: کامیابی کا انحصار دشمن کی معرفت پر ہوتا ہے۔ جتنا آپ اپنے دشمن کو سمجھ پائیں گے، اتنی ہی زیادہ امید آپ کی کامیابی کی رکھی جاسکتی ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور خود ہی کو نہیں جانتے۔ یہ نفس کئی مورچوں سے حملہ آور ہوتا ہے۔

آپ نیک ہیں اور جسمانی خواہشات کو لگام دیئے رکھتے ہیں تو یہ غصے کا مورچہ کھول دے گا۔ جتنا نیک، اتنا ہی غصے کا تیز۔ آپ علم میں لگے ہوتے ہیں تو یہ شہوت کا مورچہ سنبھال لے گا۔ عقلمند آدمی وہ ہے جو ان مورچوں کو پہچانے ورنہ نفس وہ سانپ ہے جو 99 پر ڈس لیتا ہے۔ اور ساری زندگی کی محنت بیکار چلی جاتی ہے۔ یہ مورچے ٹپکنے والی چھت کی مانند ہیں کہ اگر ایک سوراخ بند کرو تو دو اور ٹپکنا شروع ہوجاتے ہیں۔

ان میں سب سے پہلا مورچہ لذت کا ہے کہ گناہ کو کرنے کا چسکا لگ جائے۔ عام آدمی کا گناہ، گناہ کے روپ میں آتا ہے۔ نیک آدمی کا گناہ نیکی کے روپ میں۔ بندہ کسی عادی نشئی کی طرح لگاتار کرتا ہی چلا جاتا ہے۔

دوسرا مورچہ غفلت کا ہے۔ اللہ کی یاد سے غافل، نماز سے غافل، اللہ کی صفات سے غافل۔ غور کریں تو ہماری زندگی غفلت و معصیت کے درمیان ہی گزر جاتی ہے۔ یا تو گناہ کررہے ہوتے ہیں یا اسے بھولے ہوتے ہیں۔ یاد کرنے کی تو نوبت ہی نہیں آتی۔

تیسرا اور خطرناک مورچہ سرکشی کا ہے۔ کسی بات کا پابند نہیں ہونا۔ کسی کی نہیں ماننی، بات بات پر غصہ۔ اپنی نفسانی خواہشات پوری نہ کرپایا تو اب اس کا انتقام لوگوں سے غصے کی شکل میں لیتا ہے۔ انسانی اخلاق کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اندرونی خیالات کا اثر دوسروں تک نہ پہنچنے دے۔ سر کشی بغاوت کا موجب بنتی ہے۔ اس کی سزا روح کی موت ہے کہ سارے فضائل یکے بعد دیگر ختم ہوجاتے ہیں۔

4۔ کتابیں پڑھیے: ہم لوگوں نے من حیث القوم پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ کم از کم روز سو صفحے تو پڑھیے۔ یقین جانئے یہ ایسا انوکھا کام ہے کہ کوئی نہیں کررہا۔

5۔ سچ بولیے: ایک خوبی اپنا لیجیے کہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ یقین جانیے آپ منفرد ہو ہی گئے۔ ہزاروں پریشانیوں کی جڑ یہ جھوٹ ہے۔ اس سے بچیے۔

6۔ اعتراض کرنا چھوڑدیجیے: قدرت نے آپ کو انسان بنا کر بھیجا ہے، اکاؤنٹنٹ نہیں۔ ہر وقت لوگوں کا محاسبہ کرنا چھوڑ دیجیے۔ جتنا وقت اوروں پر لگاتے ہیں، وہ اپنے آپ کی بہتری میں لگائیے۔

یہ ہیں وہ انوکھے کام جنہیں کر کے آپ بہ آسانی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔

تو چلیے، آج سے ہی شروعات کرتے ہیں!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔