لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں اساتذہ سے ہتک آمیز رویہ ہفتے میں دوسرے سینئر پروفیسر بھی مستعفی

پروفیسر معین انصاری نے رجسٹرار کے ہتک آمیز رویے پر استعفیٰ دیا، سرجن غضنفر حسن پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں


Safdar Rizvi August 10, 2018
سیاسی بنیادوں پر رکھے گئے رجسٹرارمشکلات پیدا کر رہے ہیں، ڈاکٹر، پڑھانے اور مریض دیکھنے کیلیے کہا، ہ انھیں برا لگا، رجسٹرار۔ فوٹو:فائل

لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسزجامشوروکی انتظامیہ کے غیرسنجیدہ رویے اوراساتذہ کوتنگ کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سبب ایک ہفتے کے دوران مسلسل دوسرے پروفیسر نے یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیاہے اور یونیورسٹی میں تدریس اورپریکٹس سے مزید منسلک رہنے اور کام جاری رکھنے سے انکار کردیاہے جس کے سبب میڈیکل کے شعبے میں سندھ کے ایک بڑی اور معروف یونیورسٹی کی فیکلٹی تیزی سے زوال پذیرہونا شروع ہوگئی ہے۔

ذرائع کاکہناہے کہ یونیورسٹی کی بیشتر سینئرفیکلٹی کورجسٹرارکے غیرپیشہ ورانہ رویے اور تدریسی وتعلیمی اداروں کے ماحول سے عدم وابستگی پر شدید اعتراضات ہیں ''ایکسپریس'' کومعلوم ہواہے کہ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے وابستہ اوردماغی امراض کے ماہر پروفیسر معین انصاری نے بھی اپنااستعفیٰ یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹربیکھارام کوبھجوا دیا ہے۔

اس سے قبل برطانیہ سے آئے ہوئے پاکستان کے معروف ماہر امراض منہ وجبڑا اور سینئر ترین پروفیسر ڈاکٹر غضنفر حسن بھی اپنے شعبہ ''اورل اینڈ میگزولوفیشل سرجری'' (امراض منہ وجبڑا) میں چیئرمین کے عہدے سے ہٹاکر جونیئرفیکلٹی کوشعبہ کاسربراہ مقررکیے جانے کے معاملے پر احتجاجً یونیورسٹی ملازمت سے ہی مستعفی ہوگئے تھے۔

ڈاکٹر معین انصاری نے یونیورسٹی وائس چانسلرڈاکٹربیکھارام کو بھجوائے گئے اپنے استعفیٰ میں موقف اختیار کیا ہے کہ استحقاق وعزت سے محروم کرنے، اورمسلسل دبائوکے سبب وہ یونیورسٹی میں اپنی موجودہ پوزیشن سے مستعفی ہورہے ہیں تاہم ایک ماہ تک بطور''نوٹس پیریڈ''کام کریں گے۔

''ایکسپریس'' سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹرمعین انصاری کا کہنا تھا کہ ریٹائر اور سیاسی بنیادوں پر رکھے گئے رجسٹرار ڈاکٹر روشن علی بھٹی اساتذہ وماہرین طب کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں وہ انتظامی معاملات چلانے کے بجائے سینئرفیکلٹی کے ساتھ مسلسل بدتہذیبی اورناشائستہ رویہ اختیارکیے ہوئے ہیں اوراپنے اختیارات کاناجائزاستعمال کر رہے رجسٹرارکے رویے کے سبب خواتین اساتذہ ان کے پاس جاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں جان بوجھ کراساتذہ کی جانب سے بھجوائے گئی دفتری دستاویزات گم کردی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر انصاری کاکہناتھاکہ انھیں اسلام آباد میں ایف سی پی ایس کاامتحان لینے کے لیے یہ کہہ کر جانے سے روک دیاگیاکہ ان کی چھٹیاں ختم ہوچکی ہیں رجسٹراریہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ سرکاری کام اور ملازمت کاحصہ ہے۔ اگرکوئی لیکچرکے لیے کسی دوسرے ادارے میں جارہاہے تویہ یونیورسٹی کے لیے اعزازکی بات ہے انھوں نے کہاکہ تمام سینئر فیکلٹی اس بات پر خوش تھی کہ یونیورسٹی میں ایک اکیڈمک شخص نے وائس چانسلرکی اسامی سنبھالی ہے تاہم لگ رہاہے کہ وائس چانسلرکے پاس اتھارٹی نہیں ہے۔

قابل ذکرامریہ ہے کہ دوماہ قبل اپنی مدت پوری کرنے والی حکومت سندھ کی جانب سے منظوری کے لیے سرکاری جامعات کے ترمیمی ایکٹ 2018میں رجسٹراراورناظم امتحانات کی تقرری کا اختیار متعلقہ جامعات کودے دیاگیاہے جوسلیکشن بورڈ کے ذریعے مستقل بنیادوں پر ان عہدوں پر تقرری کرسکتی ہیں تاہم لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں رجسٹرارکے عہدے پر تقرری کے لیے اشتہارہی نہیں دیاجارہا۔

ذرائع کاکہناہے کہ اس سلسلے میں ایک یادداشتی خط محکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈزکی جانب مذکورہ جامعہ کوبھجوایاجاچکاہے تاہم اس خط اور یونیورسٹی ایکٹ کے حوالے سے مستقل رجسٹرارکے تقرری کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں کی جارہی۔

اس تمام صورتحال پریونیورسٹی انتظامیہ کاموقف جاننے کے لیے جب لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلرڈاکٹربیکھارام سے رابطہ کیا گیا تو ان کاکہناتھاکہ وہ اس وقت کلینک میں مصروف ہیں۔ ان کے میڈیاکوآرڈینیٹرسے رابطہ کیاتاہم میڈیاکوآرڈینیٹرکے دیے گئے موبائل نمبرپرکسی نے فون ریسیوونہیں کیا انھیں ایس ایم ایس بھی کیاگیاتاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوایونیورسٹی کے رجسٹرار روشن بھٹی سے رابطے کیاگیاتوان کاکہناتھاکہ مذکورہ پروفیسرمعین انصاری کو پولیس ویریفیکیشن درکار تھی یہ دینایونیورسٹی کاکام نہیں ہے ہم نے انھیں سروس سرٹیفیکیٹ دے دیا تھا ان کا استعفیٰ میرے دفترمیں نہیں پہنچا۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں 400اساتذہ ہیں یہ سروے سب سے کیاجائے کہ میرا اساتذہ کے ساتھ رویہ کیسا ہے محض چند لوگ جوسینیٹ اور ایسوسی ایٹ پروفیسرکی نشست پر سینڈیکیٹ کیلیے انتخابات میں حصہ لیناچاہتے ہیں وہ میرے خلاف مہم چلارہے ہیں یہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔

انھوں نے مزیدکہاکہ جووائس چانسلر کہتے ہیں رجسٹرارآفس وہ کرتاہے ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے مسئلہ یہ ہے کہ پروفیسرزسے کہاہے کہ بچوں کو پڑھائو اور مریض دیکھو یہ انھیں برالگ رہاہے یہ چاہتے ہیں جولے کرآئیں وہ دستخط کردیے جائیں ہم نے نظام بنایاہے توسیاست کی جارہی ہے۔

مقبول خبریں