پاک چین دوستی اور سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی

چین پاکستان کی سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد کرے، نوازشریف


Editorial May 24, 2013
چین پاکستان کی سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد کرے تاکہ پاکستان میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چھوٹے بڑے پراجیکٹ لگائے جا سکیں، نواز شریف۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں توانائی کے شدید بحران نے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نئی وجود میں آنے والی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن وسائل کو بروئے کار لانے پر توجہ دینا ہو گی۔ متوقع وزیراعظم نواز شریف کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ توانائی کا بحران جلد از جلد حل نہ ہوا تو ملک میں سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ اقتصادی زبوں حالی میں بھی اضافہ ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چینی وزیراعظم سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مدد مانگی ہے۔ انھوں نے چینی وزیراعظم لی کی چیانگ سے ملاقات میں توانائی کے مسئلے ہی کو سرفہرست رکھتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کی سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد کرے تاکہ پاکستان میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چھوٹے بڑے پراجیکٹ لگائے جا سکیں۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کی ضرورت کو لمحوں میں حل کرنا ممکن نہیں' اس کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں عرصہ درکار ہوتا ہے لہٰذا توانائی کی کمی پورا کرنے کے لیے پاکستان کو قلیل المدتی اور طویل المدتی منصوبے تشکیل دینا ہوں گے۔ اگر پاکستان میں توانائی کی پیداواری کمپنیوں کو ادائیگیاں کر دی جائیں تو ہزاروں میگاواٹ پر مشتمل بجلی کا پیداواری عمل فوری شروع ہو سکتا ہے جس سے لوڈشیڈنگ میں قدرے کمی واقع ہو سکتی ہے مگر مسئلہ سرمائے کی کمی کا درپیش ہے۔ ایک جانب توانائی کی پیداواری کمپنیوں کو ادائیگیاں کرنی ہیں تو دوسری جانب آئی ایم ایف کے قرضوں کی قسط بھی ادا کرنی ہے۔

حکومت کے سامنے معاشی مسائل کے پہاڑ لگے ہیں جس کا اندازہ عام آدمی کو نہیں۔ اخباری خبر کے مطابق میاں نواز شریف نے چینی وزیراعظم سے کہا کہ چین پاکستان کو مدد دینے کے بجائے یہاں سرمایہ کاری کرے جس سے جہاں چین کو فائدہ ہو گا وہیں پاکستان میں روز گار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ نواز شریف کا یہ فیصلہ انتہائی صائب ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ تمام ملکی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور بہتر حکمت عملی کی بدولت انھیں حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ توانائی کے بحران نے ملکی معیشت کو انتہائی سست کر دیا ہے۔ متعدد فیکٹریاں بند ہونے سے بے روز گاری میں اضافہ ہوا ہے۔

نئی سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث روز گار کے مواقع محدودہو رہے ہیں۔ ان ہی مسائل کے تناظر میں نواز شریف نے چین کو سرمایہ کاری کی دعوت دی کیونکہ اس سے جہاں چین کے جدید صنعتی انفرااسٹرکچر سے پاکستان فیض یاب ہو گا وہاں تجارت کو فروغ ملنے سے روز گار کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ چین کے سرمایہ کاری کرنے اور جدید صنعتی انفرااسٹرکچر لانے سے دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو بھی تحریک ملے گی اور وہ بھی تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے پاکستان کا رخ کریں گے اس سے یہاں خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا۔ اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین دوست بھی ہے۔ اس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ چین اور پاکستان کی دوستی چٹانوں سے مضبوط اور ہمالیہ سے بلند ہے۔

اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابھی نئی حکومت کی تشکیل بھی نہیں ہوئی کہ چینی وزیراعظم پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لیے خوشحالی اور ترقی کے منصوبے لے کر یہاں تشریف لے آئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے حوصلہ افزا انداز میں کہا کہ پاکستان اور چین کو مشترکہ مقاصد کے لیے ہر طوفان کا مقابلہ کرنا ہو گا' پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات جاری رکھیں گے۔ انفرااسٹرکچر' معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان کی مدد کریں گے۔ پاکستان اور چین کی دوستی ہر امتحان میں پوری اتری ہے۔ چین نے دفاع' ترقیاتی منصوبوں سمیت ہر شعبے میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی اس دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے عالمی سطح پر چین کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔

تائیوان کے مسئلے پر بھی پاکستان نے عالمی طاقتوں کی مخالفت مول لے کر چین کے موقف کی تائید کی۔ یہی سبب ہے کہ چین بھی پاکستان کی دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ چینی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان دوستی کے حوالے سے انتہائی جذباتی انداز اپناتے ہوئے کہا کہ ''سونے کو تو پھینکا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ دوستی کو کبھی نہیں چھوڑا جائے گا' اگر آپ چین سے پیار کرتے ہیں تو پھر پاکستان سے بھی محبت کریں' چین اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ سانس لیتے ہیں۔ ہمیں پاک چین دوستی پر فخر اور ناز ہے''۔ چین اور پاکستان میں دو مختلف سیاسی نظام رائج ہیں۔ دونوں کی زبان' ثقافت و تہذیب اور رسم و رواج تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر حکومتی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان لازوال دوستی کا رشتہ قائم ہے۔

پاکستانی تاجروں کی بڑی تعداد چین کا دورہ کرتی رہتی ہے مگر عوامی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات گہرے اور بنیادی نوعیت کے نہیں ہیں۔ اس کی راہ میں لسانی مسئلہ بھی حائل ہے۔ اسی لسانی فاصلے کو کم کرنے کے لیے چینی وزیراعظم نے کہا ہے کہ چینی زبان کو مقبول بنانے کے لیے چین پاکستان کے ایک ہزار اساتذہ کو تربیت دے گا۔ اگر یہ لسانی فاصلہ کم ہوتا ہے تو چین اور پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے کے مزید قریب آنے کا موقع ملے گا۔ عالمی سطح پر بہت سے ممالک پاکستان اور چین کی دوستی سے خائف ہیں مگر انھیں اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہ دوستی کسی تیسری قوت کے خلاف نہیں' دونوں پرامن ملک ہیں اور انھوں نے دنیا میں ہمیشہ امن کے لیے کام کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ بہترین موقع ہے کہ وہ چین میں ہونے والی ترقی سے فائدہ اٹھائے۔

معیشت' ثقافت' تعلیم' سیروسیاحت' زراعت تجارت اور صنعت میں دونوں ممالک کے درمیان روابط وسیع کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ عوامی سطح پر روابط مضبوط بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ ویزا کا نظام سادہ اور آسان بناتے ہوئے غیر ضروری پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستانی عوام بھی چین سے پیار کرتے اور اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ چینی وزیراعظم کا یہ دورہ اس امر کا عکاس ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھے گا اور ان کی دوستی ہر قسم کے امتحان میں پوری اترتے ہوئے مزید مضبوط ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں