ڈرون حملوں میں کمی کا امکان

اگرچہ امریکا کی قومی سلامتی کو خطرات بدستور درپیش ہیں مگر گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرےمیں ان خطرات کی نوعیت بدل گئی ہے، اوباما


Editorial May 24, 2013
اگرچہ امریکا کی قومی سلامتی کو خطرات بدستور درپیش ہیں مگر گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرےمیں ان خطرات کی نوعیت بدل گئی ہے، اوباما فوٹو: اے ایف پی/ فائل

امریکی صدر بارک اوباما نے بیرون ملک انتہا پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کو محدود کرنے اور گوانتا نامو بے کی فوجی جیل کے بیگناہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے جو رکاوٹیں حائل ہیں ان کو دور کرنے کے اقدامات کا اشارہ دیا ہے۔ امریکی صدر کی امور خارجہ کے بارے میں تازہ تقریر میں بعض اہم باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

عالمی میڈیا میں ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشتگردی کے خلاف جو جنگ شروع ہوئی ہے' موجودہ حالات میں صدر اوباما اب اس جنگ کے دائرے کو محدود کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا اگرچہ امریکا کی قومی سلامتی کو خطرات بدستور درپیش ہیں مگر گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں ان خطرات کی نوعیت بدل گئی ہے۔

لہٰذا ہمیں بھی اپنی قومی سلامتی کی پالیسی میں اس کے مطابق ترامیم کرنا ہوں گی۔ صدر نے مزید کہا کہ نائن الیون کے بعد سے ہمارے ساحلوں کے اندر داخل ہو کر ہم پر حملہ نہیں ہوا۔ البتہ بغیر پائلٹ کے اڑنے والے پری ڈیٹر ڈرون طیاروں کے حملوں کے اخلاقی جواز پر امریکا کے اندر بھی تنقید ہو رہی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی آزادانہ سوچ کے حامل اہل دانش بھی ڈرون حملوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا تو دعویٰ ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کو کم کرنے کہ بجائے الٹا فروغ دے رہے ہیں۔

چنانچہ اب صدر بارک اوباما اس نتیجے پر پہنچتے نظر آ رہے ہیں کہ ڈرون طیاروں کا استعمال محض شدید خطرے کی صورت میں کیا جائے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈرون حملوں کا اختیار پینٹاگون کو دیا جا رہا ہے۔ بارک اوباما نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکا دیگر ممالک کی ریاستی خود مختاری کا احترام کرے گا اور القاعدہ اور اس کے حامیوں کے خلاف ڈرون حملوں کو محدود کر دے گا۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے خاصے عرصے سے ہو رہے ہیں۔گو ان حملوں میں القاعدہ اور طالبان کے کئی معروف لوگ بھی مارے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد کی جانیں بھی ضایع ہوئی ہیں۔اس صورت حال کے باعث پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

اس کے اثرات پاکستان کے سیٹلائٹ ایریاز تک بھی پہنچے ہیں۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی اس حوالے سے تقسیم کا شکار ہوئی ہیں۔ امریکا میں بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ڈرون حملوں کے باعث پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ امریکی صدر کے تازہ بیان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں کسی حد تک کمی واقع ہو جائے۔ صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی امریکی شہری بیرون ملک امریکی مفادات کے منافی کوئی اقدام کرتا ہے تو اس کی امریکی شہریت اس کا بچاؤ نہیں کر سکے گی۔ بہر حال دہشت گردی اب صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں رہا ہے ۔

پوری دنیا اس کا شکار ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی نے تو حشر برپا کیا 'اسے بیان کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اس ملک کا ہر شہری اس سے متاثر ہوا ہے اور وہ اس کے نقصانات سے بخوبی آگاہ ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اعتماد کا رشتہ بھی ہو اور آپس میں معلومات کا تبادلہ بھی۔ڈرون حملوں کے حوالے سے بھی امریکا کو پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

امریکی حکومت بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکا کی حکومت ڈرون حملوں کے حوالے سے بھی پاکستان کے موقف کو تسلیم کر لے ۔مغربی ذرایع ابلاغ سے جواشارے مل رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ امریکا انتظامیہ کے موقف میں تبدیلی آ رہی ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں