حکومت کی دانشمندی کا امتحان
نئی حکومت نہ مزدوروں کی ہے نہ کسانوں کی اسے ہم جمہوریت کا معجونِ مرکب کہہ سکتے ہیں۔
جس جمہوریت میں ہم 71 سال سے اور دنیا تقریباً ڈھائی سو سال سے زندہ ہے یہ جمہوریت، جمہوریت متعارف کرانے والے عمائدین کی ہی تعریف پر پوری نہیں اترتی۔ اس حوالے سے یہ سوال کیے جاسکتے ہیں، کیا ہماری جمہوریت میں عوام کی حکومت ہوتی ہے؟ کیا ہماری جمہوریت عوام کے لیے ہوتی ہے،کیا ہماری جمہوریت عوام کے ذریعے ہوتی ہے ۔
ان تین سوالوں میں ایک سوال کا جواب درست سمجھا جاسکتا ہے کہ جمہوریت عوام کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ باقی دو سوالوں کے جواب نفی میں ہیں یعنی عوام کی حکومت ، عوام کے لیے؟ ہماری جمہوریت میں حکومت نہ عوام کی ہوتی ہے اور نہ عوام کے لیے ہوتی ہے ۔ ہاں ، جمہوریت عوام کے ذریعے بھی شکوک کی زد میں ہوتی ہے، جس کا ثبوت ہمارے 2013 کے انتخابات میں تلاش کیا جاسکتا ہے ، یعنی دھاندلی زدہ انتخابات یہی الزام اب 2018 کے انتخابات پر انتخابات ہارنے والے لگا رہے ہیں ۔ ہمارے ملک کی جمہوریت میں انتخابات اور دھاندلی ہم معنی ہوکر رہ گئے ہیں ۔
ہماری جمہوریت کو '' نیابتی'' کہا جاتا ہے یعنی منتخب افراد کی حکومت۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ منتخب افراد کون ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، دیہی علاقوں میں کسانوں کی تعداد 60 فیصد پائی جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ منتخب کیے جاتے ہیں ، وہ مزدوروں کے نمایندے ہیں کیا وہ کسانوں اور ہاریوں کے نمایندے ہیں۔انتخابی مہم پرکروڑوں روپے خرچ کرنے والے کیا مزدوروں کے نمایندے ہوسکتے ہیں ، اربوں روپے انتخابات پر لگانے والے کیا کسانوں کے نمایندے ہوسکتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ منتخب نمایندے نہ مزدوروں کی نمایندگی کرتے ہیں ، نہ کسانوں کی البتہ اپنی پارٹیوں کی سپورٹ سے انتخابات لڑنے والے کسی حد تک عوام کے نمایندے ہوسکتے ہیں ۔ باقی وہ سرمایہ کار ہوتے ہیں جو ایک لاکھ لگا کر ایک کروڑ وصول کرتے ہیں ۔اس کا نام ہے'' نیابتی جمہوریت'' جو ہمارے سروں پر سے سوار ہے۔
جمہوریت پر تنقیدکا مطلب جمہوریت کی نفی نہیں بلکہ ایک ایسی بامعنی جمہوریت کی طرف پیش قدمی کرنا ہے جو عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے کی تعریف پر پوری ا تر سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ملکوں، جن معاشروں پر اشرافیہ قابض ہے۔ کیا وہ اس جمہوریت کی طرف پیش قدمی کرنے دے گی جس کا ذکر ہم نے کیا ہے؟ بالکل نہیں اس کا ثبوت ہماری نئی حکومت ہے۔
نئی حکومت نہ مزدوروں کی ہے نہ کسانوں کی اسے ہم جمہوریت کا معجونِ مرکب کہہ سکتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حکومت کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکومت کا فائدہ یہ ہے کہ اس نے اس جمہوریت کی عمارت میں زقند لگائی ہے جو اشرافیہ کا قلعہ بنی ہوئی تھی۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں بلکہ ایک بڑی اور بامعنی تبدیلی ہے اس تبدیلی کو تبدیل کرکے ملک کو دوبارہ اسی اشرافیائی جمہوریت کی طرف لے جانا ہے جو برسوں سے عوام کا خون چوس رہی ہے۔
اس حوالے سے ضروری بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اندرونی اور بیرونی طور پر اس قدر پائیدارہوکہ اشرافیہ کی سازشوں کا مقابلہ کریں گے، اشرافیہ پوری کوششوں کے باوجود اب تک حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی جب اشرافیہ ایک مہم میں ناکام ہوجاتی ہے تو دوسری مہم کی طرف پیش قدمی کرتی ہے اور وہ مہم اندر سے حکومت کے خلاف سازشیں کرنا ہے۔ کسی بھی حکومت میں حکومت کے سو فیصد ارکان ایماندار اور باضمیر نہیں ہوتے اشرافیہ اربوں کی مالک ہے اس کی راجدھانی کو چھین لینے والوں کے خلاف وہ ہر حربہ استعمال کرسکتی ہے اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موثر ذریعہ یہ ہے کہ حکومت کے ان عناصر کو استعمال کیا جائے جو کسی بھی وجہ سے حکومت یا قیادت سے اختلاف رکھتے ہیں اور ایسے لوگ ہر حکومت میں ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے حکومتی قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی بھی حوالے سے حکومت سے نالاں افراد کو ان کی جائز شکایات دور کرکے اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام بنا سکتی ہے جو نہ صرف غیر مطمئن ساتھیوں کی جائز شکایات دورکرے بلکہ ایسے افراد پر نظر رکھے جو حکومتی عمارت میں سرنگ لگانے کی سازشیں کر رہے ہوں یہ احتیاط اس لیے ضروری ہے کہ اس وقت اشرافیہ کا حال چوٹ کھائے ہوئے''شیر'' کا ہے وہ عمرانی حکومت کو ہراساں کرنے کی ہر طرح کوشش کرسکتی ہے۔پہلی بار پاکستان میں ایک مڈل کلاس کی زیر قیادت حکومت بنی ہے، اسے قائم رکھنے اور عوام کے مسائل حل کرنے کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے۔
اشرافیائی حکومتیں لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہ کرسکیں، اس عرصے میں ملک مسائلستان بن گیا ہے ہر طرف مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں، سارے مسائل ایک ساتھ حل نہیں کیے جاسکتے۔ باشعور حکمران مسائل کی ترجیحات طے کرتے ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی بناتے ہیں اور یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو نہ صرف اہم قومی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک موثر میکنزم بنانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اب یہ قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اہل دوستوں کو تلاش کرے اور ان کی اہلیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
مثلاً کراچی کو لے لیں بلاشبہ کراچی بے شمار مسائل میں گھرا دوکروڑ آبادی کا شہر ہے جہاں بے شمار مسائل حل طلب ہیں ان میں سے ایک مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ہے جس کا کراچی کا ہر شہری شکار ہے۔
اس حوالے سے اس مسئلے کے جو حل تلاش کیے جا رہے ہیں وہ برسوں کا وقت چاہتے ہیں اگر حکومت ہنگامی طور پر صرف دو سو بسوں کا انتظام کر دے تو ٹرانسپورٹ کی دشواریاں فیس کرنے والے لاکھوں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں حاصل ہوجائیں گی اگرچہ یہ اس مسئلے کا جامع حل نہیں ، لیکن دو سو برسوں سے لاکھوں عوام کو سہولت حاصل ہوجائے گی اور عوام محسوس کریں گے کہ حکومت ان کے مسائل حل کر رہی ہے۔ موجودہ حالات میں اس قسم کے اقدامات کی شدید ضرورت ہے جو عوام کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ حکومت کا ایک اچھا امیج بنا سکتے ہیں۔