بُک شیلف

پہلی شےجو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے،وہ ناول کے’’فلیپ‘‘ اور گردپوش کے اندرونی حصے پر موجود آراء ہیں۔ فوٹو: فائل

پہلی شےجو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے،وہ ناول کے’’فلیپ‘‘ اور گردپوش کے اندرونی حصے پر موجود آراء ہیں۔ فوٹو: فائل

سراب منزل (ناول)

ناول نگار: اے خیام

صفحات: 223

قیمت: 400 روپے

ناشر: میڈیا گرافکس، کراچی

پہلی شے جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے، وہ ناول کے ’’فلیپ‘‘ اور گردپوش کے اندرونی حصے پر موجود آراء ہیں، جو، توقعات کے عین برعکس، اِس ناول، یعنی ’’سراب منزل‘‘ سے متعلق نہیں، فقط ناول اور ناول نگاری کی بابت ہیں۔ یہ امر واقعی دل چسپ ہے کہ تخلیق کار نے اپنی تخلیق کی بابت آراء درج کرنے کے بجائے صف ناول کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ڈی ایچ لارنس اور محمد حسن عسکری کی خیالات کو مقدم جانا۔

’’سراب منزل‘‘ افسانہ نگار، نقاد اور پبلشر کی حیثیت سے پہچانے جانے والے، اے خیام کا بہ طور ناول نگار پہلا تجربہ ہے۔ اِس سے قبل اُن کے دو افسانوی مجموعے ’’کپل وستو کا شہزادہ‘‘ اور ’’خالی ہاتھ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں جدیدیت کی مثبت قدروں کا جلوہ دکھائی دیا۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ترسیل و ترویج‘‘ کے عنوان سے منصۂ شہود پر آچکا ہے۔

زیرتبصرہ ناول میں ماجرے کا آغاز 80 کی دہائی کے شہر کراچی سے ہوتا ہے۔ کہانی نیم متوسط طبقے کے ایک ایسے پڑھے لکھے نوجوان کے گرد گھومتی ہے، جو بہتر مستقبل کی تلاش میں ہالینڈ جانے کا ارادہ باندھتا ہے۔ اِس ایک فیصلے سے اُس نوجوان کا خاندان اور زندگی جس طرح متاثر ہوتی ہے، مذکورہ ناول اُسے بیان کرنے کی سعی ہے۔ ایک زاویے سے یہ ایک تارکین وطن کا حزنیہ قصّہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مرکزی ماجرے کے زیریں بھی ایک کہانی چلتی ہے، جس کا آغاز تقسیم کے زمانے سے ہوتا ہے۔ یہ کہانی اقدار کی شکست و ریخت بیان کرتی ہے۔

35 ابواب پر مشتمل اِس ناول کی کہانی ’’تھرڈ پرسن پوائنٹ آف ویو‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔ تکنیک کے تجربات ملتے ہیں۔ ’’فلیش بیک‘‘ کو برتا گیا ہے۔ کچھ ابواب خطوط پر مشتمل ہیں۔ زبان سادہ اور رواں ہے، جس کی وجہ سے کوئی پیچیدگی یا ابہام پیدا نہیں ہوتا۔ ناول کی ادبی حیثیت کا تعین کرنا ناقدین اور قارئین کا کام ہے، مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ مصنف نے اپنے پیشہ ورانہ سفر کے دوران ہالینڈ میں خاصا وقت گزرا ہے، یہی سبب ہے کہ اِس ناول میں تخیل کے ساتھ تجربات و مشاہدات کا نچوڑ بھی شامل ہیں۔

کتاب کی طباعت اچھی ہے۔ کاغذ معیاری ہے۔ سرورق میں البتہ بہتری کا امکان ہے۔

نشیبی سرزمین (ترجمہ)

مصنف: ہاٹامیولر

مترجم: باقر نقوی

صفحات:160

قیمت:300 روپے

ناشر: اکیڈمی بازیافت

’’نشیبی سرزمین‘‘ رومانیہ میں پیدا ہونے والی جرمن ناول نگار، ہرٹا میولر کے ’’ناول نما‘‘، Nadirs کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب 2009 میں ادب کے نوبیل انعام سے نوازی جانے والی ہولر کی بہ طور ادیب پہلی تخلیق ہے، جو چودہ نثری ٹکڑوں اور ایک طویل قصّے پر مشتمل ہے، جنھیں چند ناقدین سوانح نگاری کی افسانوی شکل قرار دیتے ہیں۔ اِسی لیے راقم الحروف نے اس کے لیے ’’ناول نما‘‘ کی ترکیب استعمال کی کہ ان ٹکڑوں میں بہ ظاہر کوئی ربط نہیں، مگر گہرائی سے دیکھنے میں ایک رشتے کی جھلک ابھرتی ہے۔

میولر کی اِس تخلیق میں اُس کے آبائی گائوں ’’بنات‘‘ کی زندگی، قدیم روایات کے ساتھ نظر آتی ہے، جسے قلم بند کرتے ہوئے مصنفہ کی تحریر میں پیچیدگی، تجریدیت اور علامت نگاری کے عناصر در آتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق میولر کی خاصیت اُس کی نثر کی بے باکی اور شاعرانہ طرز اظہار کا امتزاج ہے، جس کے ذریعے وہ محرومیوں کی سماں بندی کرتی ہے۔

اب کچھ بات ہوجائے ترجمہ کی۔ اِس کتاب کو معروف مترجم، محقق اور شاعر، باقر نقوی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ وہ گذشتہ چند برسوں سے تحقیق اور ترجمے کے میدان میں مصروف ہیں۔ اُن کی تخلیقات ’’نوبیل ادبیات‘‘ اور ’’نوبیل امن کے سو سال‘‘ شایع ہوکر ناقدین اور قارئین سے یک ساں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، جنھیں اردو کے نثری سرمائے میں سودمند اضافہ تصور کیا جاتا ہے۔ اِس ترجمے سے بھی اُنھوں نے بھرپور انصاف کیا ہے۔ ہرٹامیولر کے مخصوص، اور ایک حد تک گنجلک، انداز کو برقرار رکھتے ہوئے بڑی گرفت سے اردو میں ڈھالا ہے۔ اِس نقطۂ نگاہ سے یہ ایک کام یاب کوشش ہے، جس کے طفیل اردو کے قارئین کو میولر کے فکشن سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ کتاب کی طباعت اور کاغذ معیاری ہے۔

پہچان کا لمحہ (افسانے)

افسانہ نگار: انورفرہاد

قیمت:250

صفحات:143

ناشر: میڈیا گرافکس، کراچی

انور فرہاد گذشتہ کئی دہائیوں سے میدان تخلیق میں مصروف ہیں۔ شاعری، افسانہ نگاری اور صحافت اُن کا حوالہ ہیں۔ تعلق Low Profile رہنے والے قلم کاروں کے قبیلے سے ہے۔ سفر زندگی میں اُنھیں گوناگوں مسائل کا سامنا رہا، دو ہجرتوں کا کرب سہا، جس کی وجہ سے اُن کی تخلیقات کو کتابی صورت میں منظر عام پر آنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے قبل ہی پہلا شاعری مجموعہ ’’چاند گہن‘‘ منصۂ شہود پر آیا۔ اب افسانوں کا مجموعہ شایع ہوا ہے۔

یہ مجموعہ 18 افسانوں پر مشتمل ہے۔ ابتدائی حصے میں مصنف کا سوانحی خاکہ موجود ہے۔ ’’لکھنا میرا پیشہ ہے‘‘ کے عنوان سے مختصر مضمون اُن ہی کے قلم سے نکلا ہے، جس میں اُن دوستوں اور کرم فرماؤں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے، جن کے تعاون اور تحریک کے طفیل اُن کی بکھری ہوئی کہانیاں کتابی صورت اختیار کرسکیں۔

کتاب میں انور فرہاد کے فن سے متعلق کسی کا مضمون موجود نہیں، البتہ بیک فلیپ پر ادیب اور نقاد، اے خیام کی رائے درج ہے۔ جو لکھتے ہیں: ’’اِس مجموعے کے افسانے زندگی کے بہت قریب ہیں۔‘‘

اے خیام کی یہ بات درست ہے کہ کتاب میں شامل لگ بھگ تمام افسانے روز مرہ کے واقعات کے گرد گھومتے ہیں، جنھیں تخلیق کار نے سادہ پیرائے میں، مگر پختگی کے ساتھ گرفت کیا ہے۔ اِس ضمن میں پہلا افسانہ ’’فیصلہ‘‘ قابل توجہ ہے، جو ذاتی احساسات و تجربات کے گرد گھومتا ہے۔ دیگر افسانے بھی ایک ’’اچانک‘‘ احساس یا صورت حال جنم دینے میں کام یاب نظر آتے ہیں، اِس تعلق سے ’’آنکھیں بڑی نعمت ہیں بابا‘‘ اور ’’دہشت‘‘ قابل ذکر ہیں۔

افسانوں کی زبان رواں ہے۔ جملے، افسانوں کے مانند، مختصر اور چست ہیں۔ مباحث نہیں ہیں، قاری کسی پیچیدگی سے روبرو نہیں ہوتا۔ الغرض یہ کتاب قاری کے وقت کے اچھا مصرف ثابت ہوسکتا ہے۔

فن کار کہانیاں (مضامین)

مصنف: عمر خطاب خان

قیمت:360

صفحات:288

ناشر: کتاب پبلی کیشنز

زیرتبصرہ کتاب پاک و ہند کی فلمی ہستیوں سے متعلق نوجوان صحافی، عمر خطا ب خان کے تحریر کردہ مضامین پر مشتمل ہے، جسے اُنھوں نے کہانی کی صورت بیان کیا ہے۔

جہاں دلیپ کمار، مینا کماری، دھرمیندر اور نرگس جیسے سنیئرز کا ذکر ہے، وہیں نئے نسل کے فن کاروں پر بھی مضامین ہیں۔ پاکستانی فن کاروں میں وحیدمراد، جاوید شیخ اور وینا ملک کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اِس کتاب میں چودہ شخصیات کے حالات زندگی کو قلم بند کیا گیا ہے۔ بیک فلیپ پر مصنف کا تعارف درج ہے۔ اندرونی صفحات میں کتاب کی ناشر، نثار حسین کے علاوہ ابن آس اور نعیم حبیب کے مضامین موجود ہیں۔ ’’عمر بیتی‘‘ کے زیرعنوان تحریر کردہ مضمون مصنف کے قلم سے نکلا ہے۔

دنیا بھر میں فلمی ہستیوں کو کے حالاتِ زندگی قلم بند کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں اِس میدان میں نسبتاً کم کام ہوا۔ گو قارئین کی کمی نہیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے عمر خطاب خان کی یہ کتاب اچھا اضافہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انھوں نے چست اور رواں زبان میں فلمی ہستیوں کی کہانیاں بیان کی ہیں۔ دل چسپی کا عنصر کا خاص خیال رکھا ہے۔

سرخ پھولوں کی سبز خوشبو

مرتب: خرم سہیل

صفحات:398

قیمت: 1400

ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

زیر تبصرہ کتاب جاپان اور پاکستان کے ممتاز ادیبوں اور اہل قلم کی تحریروں پر مشتمل ہے، جو جاپان اور پاکستان کے ادبی تعلقات کا احاطہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے شعرا، ادیبوں، محققین اور دیگر اہل قلم سے قارئین کو متعارف کرواتی ہیں۔

اِن تحریروں کو یک جا کرنے کا فریضہ نوجوان صحافی، خرم سہیل نے انجام دیا ہے۔ جاپانی ادب کو مختصر پیرائے میں، کتاب میں سموتے ہوئے خرم نے عام قاری کی دل چسپی کو پیش نظر رکھا ہے، جس کے طفیل مطالعیت کا عنصر برقرار رہتا ہے۔

پیش لفظ میں مصنف نے اِس کتاب کو مرتب کرنے کا سبب بیان کیا ہے۔ دیپاجہ دائتوبنکا یونیورسٹی، سائی تاما، جاپان سے منسلک اردو کے استاد، پروفیسر ہیرجی کتائونے لکھا ہے۔ اُنھوں نے کتاب کو مثبت کاوش قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے شعر و ادب اور ثقافت کے رشتے کی عکاسی کرے گی۔

کتاب بنیادی طور پر نو ابواب پر مشتمل ہے۔ جن کی ترتیب کچھ یوں ہے: جاپانی اہل قلم کی اہم اردو تحریریں، جاپانی ادب اور شاعری، جاپانی ادیب اور شعرا، اردو زبان و ادب کے لیے جاپانیوں کی خدمات، جاپانی ادب اور پاکستانی مترجمین، برصغیر کے فکشن میں جاپان، جاپانی تہذیب و فن، جاپان ہماری نگاہ میں اور پاکستانی صحافیوں کی نظر میں جاپان۔

ابواب میں پایا جانا والا تنوع ہی واضح کرتا ہے کہ قاری اِس کتاب کے ذریعے جاپانی ادب سے متعلق بہت کچھ جان سکتا ہے۔

محنت اور لگن کے ساتھ، پاکستان جاپان دوستی کی 60 ویں سال گرہ کے موقع پر، تالیف کی جانے والی یہ کتاب اس میدان میں سودمند اضافہ ہے۔ اگر کوئی جاپانی ادب و ثقافت کے بارے میں قابل اعتماد معلومات تک رسائی چاہتا ہے، تو یہ کتاب اُس کے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ کتاب کی طباعت انتہائی معیاری ہے، کاغذ عمدہ ہے، مگر قیمت اتنی زیادہ ہے کہ عام قاری کے اِسے خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اجرا (ادبی جریدہ)

مدیر: احسن سلیم

صفحات:576،قیمت:400

ملنے کا پتا:1-G-3/2، ناظم آباد، کراچی

جوہڑ رکا ہوا، ایک جگہ مقید پانی، کائی، آلودگی میں رچا ہوا سڑاند میں بسا ہوا تعفن زدہ، ہاں وہ جو ہڑ ہوتا ہے۔ جو ہڑکو سمندر تو کیا ندی نالا بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ندی، نالے، دریا تو وہ ہوتے ہیں، جو اپنا راستہ خود نکالتے، اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دھتکارتے، رواںدواں بہتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی مستی میں مست و بے نیاز، پیاسوں کو سیراب، فصلوں کو شاداب اور کائنات کو آباد کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بہتے دریا پاکی اور طہارت کا منبع ہوتے ہیں کہ رب کی ہر مخلوق اُن سے فیض یاب ہوتی ہے ۔ اور گندے جوہڑ ایک جگہ رکا ہوا تعفن زدہ پانی، جن سے فیض کسی نے نہیں پایا۔ لیکن ہر جوہڑ کا اصرار اور مطالبہ رہا ہے کہ اسے دریا نہیں سمندر کہا جائے، کچھ کور چشم جو اپنے بینا ہونے کے فریب میں گرفتار ہیں، انھیں سمندر بتاتے ہیں۔

ہمارے یہاں بھی ہر طرف جوہڑ ہیں، جو ادب کی ترویج کے دعوے دار ہیں۔ ہم انھیں ادبی جوہڑ کہتے ہوئے بھی رنجیدہ ہیں کہ ادب تو بلند خیالی، نوع بشر کی ذہنی آب یاری، خلق خدا کی دل داری، دکھوں کی ماری انسانیت کی غم خواری کا نام ہے۔ ادب تو انسان کو ہمت، حوصلہ اور بردباری سکھاتا، انسانوں کو باہم ملاتا اور انھیں ہر قسم کے تعصب سے بچاتا ہے۔ ایک لڑی میں پروتا ہے ۔ ہاں، یہ درست ہے کی ادب تقسیم بھی سکھاتا ہے، لیکن بس ظالم و مظلوم ، حق و باطل اور اصل و نقل کی تقسیم۔ ہمارے یہاں ادب برائے تعلقات اور ادب برائے حصول زر کی صنعت بن گیا ہے۔ اشتہارات کو چھاپنے کے کیے مالی منفعت کی میراتھون دوڑ لگی ہے، سب اس میں اول آنے کے لیے ہانپ رہے ہیں، بس الا ماشاء اﷲ۔ ایسے میں کوئی مست ملنگ دیوانہ وار رقص میں ادب برائے تبدیلی کا گیت گا رہا ہو، اور بس رقص ہی نہیں ، رقص بسمل ، تو ہماری بینائی حیران ، عقل پریشان ہوجاتی ہے اور بے ساختہ پکارنے لگتے ہیں آخر کیا ہوا ان کو ۔ لاکھ سمجھائو لیکن یہ دیوانے کسی کی نہیں سنتے اور بس اپنی کرنی کر تے رہتے ہیں۔

ایسے ہی ہیں احسن سلیم جو اس دور میں محو رقص ہیں ۔ اجرا رقص بسمل ہے ۔ ادب کے وقار کو بچانے کی آرزو کیے ہوئے۔ ایک بہتا دریا، جس کا فیض جاری ہے ۔ اجرا سمندر ہے جو سب کے لیے خزانہ ہے ۔ نام نہاد ادب کے سپر مارکیٹ میں گم ہونے سے دور وہ اپنی روشنی سے سب کو فیض یاب کر رہا ہے ۔ اجرا اک چھتنار شجر ہے، جس کی ہر شے نوع بشر کے فوز و فیض کے لیے ہوتی ہیں ۔ کسی بھی صلے و ستائش کی تمنا سے عاری ۔ شجر طیب کی طرح ۔ انسان کا ارادہ اصل ہوتا ہے ۔ یہ اگرخالص ہو تو اصل ہے، جوہر ہے، ورنہ تو بس دھوکا ہے ، سراب ہے ۔ اجرا کا تازہ شمار کتنے رنگوں سے کہکشاں بنا ہوا ہے کہ اجرا خون جگر سے نمود پاتا ہے۔

25 نظمیں، 18 شعرا کی غزلیں، 3 نثری نظمیں، 17 افسانے۔ ادب برائے تبدیلی پر مباحث، مرزا اطہر بیگ کا خصوصی انٹرویو، بیرونی ادب کے تراجم، تنقیدی و تحقیقی مضامین، کتابوں پر تبصرے، الغرض قاری کے لیے سوغات خاص ۔ ہاں یاد آیا کنول ہمیشہ کیچڑ میں کھلتا ہے ۔ ادب کا کنول اجرا، دیکھ لیا آپ نے اجرا ۔

ہاں احسن سلیم کہہ سکتے ہیں:

یہ محفل جو آج سجی ہے

اس محفل میں ، ہے کوئی ہم سا

ہم سا ہے تو سامنے آئے

نمک پارے (سو الفاظ پر مبنی کہانیاں)

مصنف: مبشر علی زیدی

صفحات:160،قیمت: 250،ناشر: شہرزاد

قاری کو متوجہ کرنا، گہماگہمی اور بے قیمتی کے اِس زمانے میں، کسی طور سہل نہیں۔ اِس نسبت سے یہ کتاب کام یاب ٹھہرتی ہے کہ اِس میں سمویا گیا تجربہ قابل توجہ ہے۔

الیکٹرانک میڈیا سے منسلک مبشر زیدی کی یہ کتاب سو کہانیوں پر مشتمل ہے، جن کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر کہانی کی بُنت سو الفاظ سے کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہانیاں گن کر لکھی گئی ہیں۔ الفاظ گن کر کہانیاں لکھنے کا عمل، شاید تخلیق کی ادبی حیثیت کی تعین کرنے میں زیادہ معاون نہ ہو، مگر اس کی انفرادیت پر تصدیق کی مہر ضرور ثبت کرتا ہے۔

کتاب میں شامل کہانیوں یا مختصر افسانوں میں سے 17 طبع زاد ہیں، جب کہ باقی 83 کے خیالات بیرونی ادب، مختلف بلاگز یا ویب سائٹس سے لیے گئے ہیں، اور اُنھیں اردو میں ڈھالتے ہوئے سو الفاظ کی بندش کا خیال رکھا گیا ہے۔ بیش تر مصنفین سے اس عمل کی اجازت بھی لی گئی ہے۔ اس زاویے سے یہ کہانیاں فقط ترجمہ نہیں۔ شاید ’’ماخوذ‘‘ ان کے لیے زیادہ بہتر لفظ ہے۔

موضوع کے اعتبار سے کتاب میں شامل کہانیوں کو گیارہ ابواب میں بانٹا گیا ہے۔ آغاز میں مصنف کا ’’گنے چنے الفاظ‘‘ کے زیرعنوان مضمون شامل ہے، جو اس تجربے کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ آخری حصے میں ’’دنیا کی سب سے مختصر کہانی‘‘ نامی مضمون خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی حصے میں چند انگریزی کہانیاں بھی شامل ہیں، جنھیں مصنف نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ گنے چنے الفاظ سے بُنی کہانیوں کی چند کتابوں کی ایک فہرست بھی کتاب میں موجود ہے۔

کتاب کا سرورق فنی نقطۂ نگاہ سے خوب صورت اور مواد کی مناسبت سے بامعنی ہے۔ بیک فلپ پر کسی کی رائے درج نہیں، البتہ انوکھے انداز میں پیش کردہ ایک کہانی موجود ہے، جو ورق گردانی سے قبل قاری کے تجسس کو مہمیز کرتی ہے۔ کاغذ اور چھپائی بھی اچھی ہے۔

مجموعی طور پر نمک پارے ایک کام یاب تجربہ ہے۔ کئی کہانیاں دل چسپ ہیں۔ اگر طبع زاد کہانیوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوتی، تو بہتر تھا۔ مصنف کو اپنی تخلیقات کی ادبی جراید میں اشاعت کے معاملے پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک رسائی حاصل کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔