گوئبیلز! تم کیا جانو جھوٹ کسے کہتے ہیں

سید بابر علی  اتوار 9 ستمبر 2018
مغربی میڈیا اور سیاست کی فریب کاریوں اور دروغ گوئی کی تیکنیکوں سے آشنا کرتی ایک دل چسپ تحریر۔ فوٹو: فائل

مغربی میڈیا اور سیاست کی فریب کاریوں اور دروغ گوئی کی تیکنیکوں سے آشنا کرتی ایک دل چسپ تحریر۔ فوٹو: فائل

برطانوی اخبار گارجیئن اور بی بی سی بنیادی طور پر برطانیہ کے دانش ور طبقے کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں، لیکن زیرنظر مضمون میں ان ’مستند‘ سمجھے جانے والے اداروںکی جانب سے غیر محسوس انداز میں کیے گئے پروپیگنڈے کا ایک تصوراتی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

دنیا میں قتل عام کرنے والے سفاک قاتلوں کے لیے بنائی گئی اس جنت میں گوئبیلز رومیوں، کمیونسٹوں اور یہودیوں کے خون سے بنی شراب کے گھونٹ بھر رہا تھا، اچانک اسے دروازے پر دستک سنائی دی۔ دروازہ اس کے پُرتعیش صوفے سے پچاس فٹ دور تھا۔ صوفے پر انسانی کھال سے بنا غلاف چڑھا ہوا تھا جو اسے مشہور جرمن جرنل لوتھر وون ٹروتھا نے تحفتاً دیا تھا، وہی جرنل لوتھر جس نے نمیبیا میں ہیریرو اور ناما قبائل کے قتل عام سے بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی کا آغاز کیا۔ جرنل لوتھر قاتلوں کی جنت میں گوئبیلز کا سب سے قریبی پڑوسی تھا۔

’یہ کون ہوسکتا ہے ؟‘ گوئبیلز نے تعجب سے سوچا،’کیا یہ میرا عزیزدوست ایریل شیرون ہے؟ شیرون اور گوئبیلز ابتدا میں شیرون کی یہودیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے ، لیکن جلد ہی یہ دونوں جان گئے کہ ان کی خون کی پیاس تمام تر اختلافات سے زیادہ اہم ہے۔ ایک دن قبل ہی دونوں نے بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی پروپیگنڈا حکمت عملی پر پُرجوش بحث کی تھی۔ گوئیبلز نے مسکراتے ہوئے دروازہ کھولا، وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید شیرون کل کی بحث کا دوبارہ آغاز کرنے آیا ہے، لیکن وہ اپنے سامنے شیرون کے بجائے ایک زندہ انسان کو دیکھ کر بدحواس ہوگیا ۔

’’تم کون ہو؟ کون۔۔۔۔‘‘ گوئبیلز نے تشویش سے پوچھا۔

’’ہیلو! میں ایک برطانوی دانش ور ہوں اور دانش وروں کے ایک برطانوی مرکز، دی گارجیئن کے لیے کام کرتا ہوں، جس میں تمام برطانوی دانش وروں کے آؤٹ لیٹس میں سے سب سے زیادہ برطانوی ہیں،‘‘ گوئبیلز کے سامنے کھڑے شخص نے برطانوی ادبی لب و لہجے میں نہایت شائستگی کے ساتھ جواب دیا۔

’’ لیکن کیسے ؟ تم یہاں کیسے آئے؟ اس مقام تک زندہ انسانوں کی رسائی ممکن نہیں ہے،‘‘ گوئبیلز نے بے چینی سے پوچھتے ہوئے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔

’’میں ایک برطانوی دانش ور ہوں اور سچ، انصاف کی خاطر ہم جب جہاں چاہیں جاسکتے ہیں!‘‘

’’اوہ؟ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘ گوئبیلز نے اسے اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’اندر آنے کا وقت نہیں ہے،‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا’’میں آپ کو یہاں سے دنیا میں لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ ہمارے رپورٹرز نے ہمیں بتایا ہے کہ قاتلوں کی جنت میں جدید دنیا میں رائج مختلف پروپیگنڈا حکمت عملیوں پر زورشور کے ساتھ مباحثہ ہورہا ہے۔ خیر، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے فرسودہ خیالات مکمل طور پر احمقانہ ہیں۔ میں آپ کو دکھاتاہوں کہ جدید پروپیگنڈا کیا ہے!‘‘ اس کے ساتھ ہی برطانوی دانش ور نے حیران و پریشان کھڑے گوئبیلز کی کلائی پکڑ کر یہ منتر پڑھنا شروع کردیا:

’’ہم برطانوی دانش ور ہیں، ہم ایمان دار اور ذہین ہیں،

ہم ہمیشہ اپنی حکومت کی وہ بات کہتے ہیں جو سب سے اچھی اور بہترین ہے،

ہم اچھے گانے گاتے اور رقص کرتے ہیں، ہم کتنے بہادر اور آزاد ہیں،

پھر بھی ہم جس پر تنقید کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے،

ہم آپ کو ہمیشہ سچی کہانی سناتے ہیں، ہمارا دل لیبر، ہماری دولت ٹوری ہے!‘‘

منتر کے ختم ہوتے ہی گوئبیلز نے خود کو ایک کمرے میں پایا جو مدیروں اور رائے سازوں (اوپینین میکرز) سے بھرا ہوا تھا۔ ’’اس کمرے میں موجود افراد آپ کو بتائیں گے کہ پروپیگنڈا سسٹم کس طرح کام کرتا ہے،‘‘ برطانوی دانش ور نے اپنا لیکچر شروع کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ایک پیچیدہ نظام ہے جربی، کیا میں آپ کو جربی کہہ کر پکار سکتا ہوں؟‘‘

گوئبیلز کا جواب سنے بغیر اس نے اپنی بات جاری رکھی ’بہت سادہ، جدید پروپیگنڈا سسٹم کو اس طرح بیا ن کیا جاسکتا ہے: نظریات کی وافر خوراک، کاہلی، کم زوری اور احمقانہ حرکات کو ملا کر خوش گوار سچ، آدھے سچ، جھوٹ کی عدم شمولیت اور اکثر و بیشتر جھوٹ پر مبنی صحت مند مکسچر تیار کرنا۔ مختصراً جدید پروپیگنڈا سسٹم یہی ہے!‘‘

برطانوی دانش ور نے گوئبیلز کی طرف دیکھ کر بے ہودہ انداز سے مسکراتے ہوئے کہا: ’’تمہاری طرح کے بھونڈے طریقے سے نہیں!‘‘

گوئبیلز نے جھجھکتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کی لیکن برطانوی دانش ور نے فوراً ہی اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے غلط مت سمجھو۔ یہاں ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جو یقیناً تمھارے طریقے پر چلتے ہیں، مثال کے طور پر فاکس نیوز، لیکن ان کی اپنے ملک کے علاوہ کہیں بھی عزت نہیں کی جاتی۔ دوسری جانب ہم اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہیں اور کسی کو اپنی اقدار کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم نہیں کرتے۔‘‘

گوئبیلز کو اپنی باتوں سے قائل نہ ہوتے دیکھ کر برطانوی دانش ور نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا، ’’برائیاں بہت ہوگئیں۔ اب آپ کی قوت فہم سے شروع کرتے ہیں! اس کے لیے سب سے اہم کیس اسٹڈی جو ہم استعمال کریں گے وہ ہے، جریمی کوربائن کو رُسوا کرنے کی اینٹی سیمیٹزم مہم، جس میں ہم سب سے آگے ہیں۔‘‘ اس مقصد کے لیے میں سب سے پہلے آپ کا تعارف کچھ اہم معاون اداکاروں سے کرواؤں گا۔ یہ پروپیگنڈا نظام کا براہ راست حصہ نہیں ہیں، مجھے خود نہیں پتا کہ یہ ہماری مدد کیوں کر رہے ہیں، لیکن کر رہے ہیں۔ ہمارے پہلے معاون وکی پیڈیا کے بانی جمی ویلز ہیں۔‘‘

آرام دہ کُرسی پر بیٹھے  Ayn Randکے ناول ’Atlas Shrugged‘ کی ورق گردانی میں مصروف ایک شخص نے پلکیں جھپکاتے ہوئے گوئبیلز کو دیکھا۔’’یہ جیریمی کوربائن کو رُسوا کرنے کی مہم میں ہماری مدد کر رہے ہیں‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا ’’مثال کے طور پر تم یہ ٹوئٹ دیکھو۔‘‘

’’ٹوئٹ؟ یعنی پرندوں کی طرح باتیں؟‘‘ گوئبیلز نے احمقانہ انداز میں پوچھا۔ ’’ہاں ٹوئٹس۔ یہ نیا دور ہے جربی۔ کسی کی تعریف اور ستائش کے لیے آپ کو صرف چند سو کیریکٹرز کی ضرورت پیش آتی ہے۔

بس اپنی مبہم اور احمقانہ باتوں پر مبنی ٹوئٹس کرتے رہے ہو اور اپنے مقصد میں کام یاب ہوجاؤ۔‘‘ گوئبیلز کو ٹوئٹ کے اس نئے پلیٹ فارم میں دل چسپی پیدا ہونے لگی جس نے انسان کو پرندوں کے بے وقوف دماغ میں تبدیل کردیا تھا۔ پروپیگنڈا کرنے کے لیے بہترین ٹول کی صورت میں اس کا پہلا سامنا وکی پیڈیا کے بانی جمی ویلز کی فالوئنگ ٹوئٹس کی شکل میں تھا۔ ’’بہترین‘‘ گوئبیلز نے مسرت سے چلاتے ہوئے کہا۔’’حالاںکہ میں جانتا ہوں کہ کوربائن نے کبھی نہیں کہا کہ اس نے اسرائیل کے وجود رکھنے کے حق پر سوال کیا ہو۔ یہ تو یکسر جھوٹ ہے‘‘ اس نے جمی ویلز کی جانب تائیدی نظروں سے دیکھا، جو جھوٹا قرار دیے جانے پر پریشان دکھائی دے رہا تھا۔

’’جھوٹ؟‘‘ ویلز نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ ’’یہ جھوٹ نہیں ہے۔ یہ درجنوں ویب سائٹس بہ شمول گارجیئن میں چھپ چکا ہے۔ اور ہم یعنی وکی پیڈیا جانتا ہے کہ ہماری دنیا میں سچ کی تلاش ناممکن ہے۔ صرف ایک چیز اہمیت رکھتی ہے اور وہ ہے تصدیق۔ اور محترم، میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرا کوربائن پر دیا گیا بیان قابل تصدیق ہے۔ اور میں آپ کو اس بات کو سچ ثابت کرنے والے ہزاروں ذرایع دے سکتا ہوں۔‘‘

’’جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ بن جائے؟‘‘ گوئبیلز نے برطانوی دانش ور کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ یہ بات سن کر برطانوی دانش ور نے مسکراتے ہوئے کہا،’’خیر، پروپیگنڈے کی کچھ پُرانی حکمت عملی ابھی تک کام کر رہی ہے۔‘‘ اسی لمحے انہیں نزدیک آتی ایک خاتون کی آواز سنائی دی جو کہہ رہی تھی’’تم جیریمی کوربائن میرے آنجہانی باپ کی باقیات پر کھڑے ہو!۔‘‘ جمی ویلز کی ٹوئٹ کا پہلا حوالہ، برطانوی دانش ور نے قریب آنے والی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، جس نے اپنے ہاتھ میں ایک کتاب پکڑی ہوئی تھی جس کا عنوان تھا،’’ہاؤ ٹو بی کم رِچ اینڈ فورگیٹ واٹ اٹ فیلز لائیک ٹو بی پور(اینڈ شٹ آن دی اونلی گروپ آف پیوپل ہو ہیو دی کیور)۔

’’ مجھے اپنا تعارف کروانے کی اجازت دیجیے۔ میں جے کے رولنگ ہوں،‘‘ خاتون نے گوئبیلز سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

’اوہ، جے کے رولنگ،‘‘ گوئبیلز کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ’’ قاتلوں کی جنت میں حال ہی میں آنے والا شمعون پیریز تمہاری کتابوں کا بہت دلدادہ ہے۔‘‘

’شکریہ، لیکن کیوں؟، جے کے رولنگ نے مسرت سے کہا۔ ’’ آپ جانتے ہیں دنیا میں کچھ بڑا کام کرنے کے لیے آپ کو سخت محنت اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ شکایت کرنے والے تمام لوگ احمق ہیں۔ انہیں میری طرح سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر شخص میری طرح خوش قسمت نہیں ہوسکتا۔ میں کہتی ہوں کہ آپ بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب قسمت کا نہیں سخت محنت کا نتیجہ ہے۔‘‘

’’یعنی تم بھی کوربائن کے خلاف ہو؟‘‘ گوئبیلز نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی، یہ بھی‘‘ برطانوی دانش ور نے رولنگ کے جواب دینے سے پہلے ہی کہہ دیا، یہ مسلسل اس کے خلاف ہیں، ابتدا ’وہ جیت نہیں سکتا، ’وہ مزدوروں کے لیے بُرا ہے‘ سے ہوئی۔ اب یہ دن رات اس پروپیگنڈے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

’’جی بے شک، میں نے یہ سب کیا،‘‘ جے کے رولنگ نے فخریہ کہا۔ ’’اور جب یہ سب باتیں بے اثر رہیں تو یہ’کوربائن از اینٹی سیمیٹک‘ بریگیڈ میں شامل ہوگئیں۔ آپ ان کی ٹوئٹس چیک کریں۔‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا۔

’’لیکن کیا دائیں بازو کے لوگ اس پر غصہ نہیں ہیں کہ لبرلز اس طرح کہہ رہے ہیں‘‘،گوئبیلز نے بے یقینی سے پوچھا۔

’’یقیناً،‘‘ جے کے رولنگ نے غصے سے اسی لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا جس لہجے میں تمام برطانوی دانش ور بڑبڑاتے ہیں، کیوں کہ یہ لہجہ انہیں وراثت میں ملا ہے۔ ’’یقیناً، آپ مجھے یہ تجویز نہیں دے رہے کہ مجھے صرف اس لیے ان کی باتیں نوٹ کرلینی چاہییں کیوں کہ وہ دائیں بازو کے ہیں۔‘‘

گوئبیلز نے اپنا سر ہلایا، عین اسی لمحے ایک ہل چل سی پیدا ہوئی۔ مشہور برطانوی صحافی جوناتھن فریڈلینڈ اپنے مخصوص شرمیلے اور سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے گوئبیلز کی طرف آرہا تھا۔ اس نے قریب آکر گوئبیلز کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا،’’خیر گوئبیلز، تم بہت بڑے قاتل ہو اور گاریجیئن میں ہم بڑے قاتلوں سے نفرت کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اخلاقی اقدر اور آزادی اظہار پر بھی یقین رکھتے ہیں اور تم تو ویسے بھی مردہ ہو، میرے دل میں کوئی کینہ نہیں ہے اس لیے میں تمہیں بڑا قاتل سمجھتے ہوئے بھی ہاتھ ملا رہا ہوں۔‘‘

فریڈ لینڈ نے گوئبیلز سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا، شاید وہ اپنے بے باک طرز تخاطب کو سراہے جانے کی توقع کر رہا تھا۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کرنے والے گوئبیلز کو فریڈ لینڈ اور اس کے ہم عصروں کے بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں تھا اس لیے اس نے قدرے بے دلی سے ہاتھ ملایا۔ برطانوی دانش ور نے ایک ٹوئٹ دکھاتے ہوئے فخر سے کہا،’’اور یہ ہماری کٹھن مہم میں مسٹر فریڈ لینڈ کی کوششیں ہیں۔‘‘

’’خیر، میں اس کا بہت زیادہ کریڈٹ نہیں لیتا، یہ میرا دن بھر کا کام ہے۔‘‘ فریڈلینڈ نے شرماتے ہوئے کہا۔ ’’اور ایک صرف فریڈ لینڈ نہیں ہے، گارجیئن میں ہم سارا دن یہی کرتے ہیں۔‘‘ برطانوی دانش ور نے دانت پیستے ہوئے کہا،’’یہ تو صرف ایک مثال ہے‘‘ فریڈلینڈ نے برطانوی دانش ور کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا،’’اب میں آپ کو وہ دکھانے جا رہا ہوں جسے دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فریڈ لینڈ نے کمپیوٹر اسکرین گوئبیلز کے سامنے کردی۔ اسکرین پر کوربائن کے حوالے سے گارجیئن میں لکھے گئے مضامین کی طویل فہرست موجود تھی۔’’یہ صرف گذشتہ ایک ماہ میں گارجیئن میں لکھے گئے کوربائن مخالف مضامین ہیں! اور ایسے مضامین کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے۔‘‘

’’فلسطین کے بارے میںکیا خیال ہے؟ کیا تم لوگوں نے کبھی ان کی رائے لی؟‘‘ گوئبیلز نے پوچھا۔

’’خیر ہم انہیں سپورٹ کرتے ہیں،‘‘ فریڈ لینڈ نے ہلکی آواز میں کہا۔’’گارجیئن میں ہم ریاکاری سے کام کرتے ہیں، میرا مطلب ہے کہ ہم فلسطینیوں کے لیے اچھی خدمات سر انجام دیتے ہیں، لیکن راکٹ حملے رکنے چاہییں۔ ہاں ہاں، راکٹ حملے لازمی رکھنے چاہییں، جو شخص یہ کہتا ہے تو ٹھیک ورنہ پھر یہ اینٹی سیمٹ ہے!!‘‘ یہ کہتے ہی فریڈ لینڈ تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔ فریڈ لینڈ کے جاتے ہی کمرے میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک پروگرام کا میزبان اسٹیفین سکُر ان کے قریب آیا اور برطانوی دانش ور کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا،’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم گارجیئن کی اچھائی بیان کرنے کے لیے کتنے شواہد دکھا دیے ہیں، لیکن میں یہی کہوں گا کہ ہم بی بی سی میں اس سے زیادہ بہتر پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔‘‘

’’آپ کے شواہد کہاں ہیں، محترم‘‘ برطانوی دانش ور نے فوراً مطالبہ کیا۔

’’میں معافی چاہتا ہوں، میں آپ کو شواہد دکھاؤں گا۔ میرے پاس صرف کوربائن کے خلاف مہم کے علاوہ بھی کافی ثبوت ہیں۔‘‘ اسٹیفین نے چیختے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود کچھ خبریں دکھاتے ہوئے کہا،’’یہ سُرخیاں دیکھو؟ اس میں اسرائیل ہمیشہ دفاع کرتا ہے اور فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تصادم ہوتا ہے اور اگر دونوں اطراف برابر ہیں ، پھر اس بات پر غور کریں کہ ہم لوگوں کے مرنے کا کیسے بتاتے ہیں، جب صرف فلسطینی مرتے ہیں یا اسرائیلی انہیں مارتے ہیں تو ہم صرف یہ لکھتے ہیں کہ اتنے افراد مرگئے، یہ نہیں لکھتے کہ کس وجہ سے مرے۔ اس طرح ہم اچھی طرح پروپیگنڈا کرتے ہیں!‘‘

’’خیر، بی بی سی کے کیس میں خوف اور کم زوری بھی بہت ہے۔‘‘ برطانوی دانش ور نے یہ کہتے ہوئے بی بی سی ورلڈ میں شایع ہونے والی ایک خبر کی طرف اشارہ کیا:

بی بی سی نے پہلے سُرخی لگائی کہ ’’ اسرائیلی فضائی حملے میں ایک خاتون اور بچہ جاں بحق‘‘، لیکن اسرائیلی لابی کے دباؤ پر تم لوگوں نے سُرخی کو تبدیل کرکے کچھ یوں کردیا،’’غزہ ٖفضائی حملے، اسرائیل پر راکٹ حملے کے بعد خاتون اور بچہ جاں بحق۔‘‘ تمہارے ایک نیو ز ایڈیٹر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے کہ ’’اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں رپورٹ لکھنے کے بعد ہم خوف کے عالم میں اسرائیلیوں کی جانب سے فون کال کے منتظر رہتے ہیں۔‘‘

’’خیر، یہ آپ کا یہ بیان میری بات کو ثابت کرتا ہے۔‘‘ اسٹیفین نے خودپسندی سے جواب دیا۔ ’’میں وہاں بیٹھا ہوا سن رہا تھا کہ تم جب گوئبیلز سے کہہ رہے تھے کہ خوف اور کم زوری بھی پروپیگنڈا سسٹم کا حصہ ہیں۔‘‘ کیا تم اور گوئبیلز دونوں اس منطق سے متفق ہو!۔ ’’ لہذا یہ اس بات کے ثبوت ہیں کہ بی بی سی پروپیگنڈے میں کتنا اچھا ہے، آپ نے خود دیکھا کہ آپ نے خود ہی کیسے ثبوت پیش کیے۔‘‘ اسٹیفین نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا،’’میں پاکستانی شخص حمید ہارون سے انتخابات میں فوجی مداخلت کا مسلسل پوچھتا رہا، وہ لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کرنے والا امیر آدمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہماری بالادستی پر یقین کیا۔‘‘

’’اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ: اگر ایک پاکستانی ناشر کے بجائے تمہارے سامنے روسی ناشر بیٹھ کر یہ بات کہتا کہ پیوٹن اور روسی ایجنسیوں نے آزادی اظہار کو دبا رکھا ہے، تو کیا تم اس سے وہی سوالات اسی جارحانہ انداز میں کرتے؟‘‘ برطانوی دانش ور نے سیکر کو مزید کریدا۔

’’اچھا، خیر‘‘ اسٹیفن نے بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی، لیکن اچانک ہی اسے ایک حربہ یاد آگیا جو کہ تمام برطانوی دانش ور دباؤ میں آنے کے بعد کرتے تھے، یعنی اونچی آواز میں چڑچڑانا اور برہمی ظاہر کرنا۔ ’’تمہارے پاس اس بات کے کیا ثبوت ہیں کہ میں نے کبھی کسی روسی ناشر سے یہ سوالات نہیں پوچھے۔ میں تم سے پوچھ رہا ہوں ثبوت کہاں ہیں؟‘‘ اس نے غصے سے چیختے ہوئے پوچھا۔ حمید ہارون اور گلین گرین ویلڈ سے پوچھے گئے سوالات کے انداز میں اسٹیفین اشتعال میں اپنے اس بے معنی چیلنج کو چھوڑ کر غصے میں کمرے سے چلا گیا۔

برطانوی دانش ور اسے جاتا دیکھ کر ستائشی انداز میں کہنے لگا،’’یہ ایک سچا برطانوی دانش ور ہے۔ ‘‘ گوئبیلز یہ سب دیکھ کر متاثر تو ہوچکا تھا، لیکن آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ ’’لیکن یہ متاثر کن نہیں ہے‘‘ اس نے کہا ’’ہم بھی بالکل اسی طرح کرتے تھے۔ یہ صرف جھوٹی خبروں کی بھرمار ہے۔ جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ بن جائے وغیرہ ، وغیرہ۔‘‘ گوئبیلز نے جرمن لب و لہجے میں اونچی آواز میں کہنا شروع کردیا۔ اس کی بات سُن کر برطانوی دانش ور نے سر ہلاتے ہوئے کہا’’ یقیناً تم درست کہہ رہے ہو، جربی۔ یہ سب بہرحال متاثر کن نہیں ہے۔ ماضی میں تم ان سب چیزوں کے ماسٹر تھے۔ ‘‘ یہ بات سُن کر گوئبیلز تھوڑا پُرسکون ہوا۔ ’’لیکن یہ صرف اس کا نصف ہے جو ہم کر رہے ہیں،‘‘ برطانوی دانش ور نے گوئبیلز کی جانب دیکھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ کہا۔ برطانوی دانش ور کے اس پُراعتماد رویے میں گوئبیلز اپنی متوقع شکست دیکھ رہا تھا، اس نے بے چینی سے پوچھا،’’بقیہ نصف میں تم کیا کرتے ہو؟‘‘

’’ہم ہمیشہ برطانوی اقدار، سچ اور انصاف، شفافیت اورغیرجانب داری کی ظاہری پرت چڑھائے رکھتے ہیں،‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا۔ ’’خیر، میرے دوست تم انصاف اور سچ کے بارے میں زیادہ سوچتے ہو، اور ہم یہودیوں سے محبت کرتے تھے! لیکن میرے خیال میں اس سے تمہاری کوریج پر کوئی غلط اثر نہیں پڑے گا؟‘‘ گوئبیلز نے بے پروائی سے کہا۔

’’یقینا، سارے ثبوت دیکھ لو، سب ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘

’’اگر تم اسے پڑھتے ہو تو پھر اس سے تمہیں کیا توقع ہے۔ اسے ممکنہ حد تک برطانوی بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ہماری اصل کام یابی اسی طرح ہے جس طرح ایک مصور کے ہاتھ کی صفائی، ہم لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا چکے ہیں کہ ’’ذرایع کے فقدان‘‘ کے باوجود گارجیئن کتنا غیرجانب دار ہے۔‘‘

’’ہمارے پاس جارج مون بیوٹ ہے جو دوسروں کے جرائم پر غصے سے بے قابو ہوجاتا ہے، لیکن جب یہی جُرم ہماری عظیم ریاست میں ہو تو یہی غراتا ہوا جارج تمام اچھے برطانوی دانش وروں کی طرح مہذب اور شائستہ بن جاتا ہے۔ وہ اکثر و بیشتر کسی کی ملامت کیے بنا نیو لبرل ازم پر بھی لکھتا ہے۔ ہم اس طرح کی تنقید کو پسند کرتے ہیں، مکمل خلاصہ، مکمل مہربان۔‘‘

’’گوئبیلز متاثر ہوچکا تھا لیکن اسے ظاہر نہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’اس کے علاوہ تم اور کیا کرتے ہو؟‘‘

’’اس کے علاوہ؟ سُرخیاں جربی، اور ان سُرخیوں کے ساتھ کچھ پروپیگنڈا، برطانوی دانش ور نے جواب دیا۔

’’کیا مطلب؟‘‘، گوئبیلز نے پریشانی سے پوچھا۔

’’اس کا مطلب یہ کہ ہم سرخیوں کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ اسٹیفین نے بتایا تھا۔ اور پھر مضمون کے اندر کہیں، اختتام میں تھوڑا سا سچ لکھ دیتے ہیں۔‘‘

’’ اس سے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ گوئبیلز نے حیرت سے پوچھا۔

’’واقعی یہ بات تم پوچھ رہے ہو؟ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ تم اتنے کُندذہن ہو گے۔ اب مجھے حیرت نہیں ہے کہ تمہارا پروپیگنڈا اتنا گھٹیا کیوں تھا! محترم! اگر ہم پر کوئی پروپیگنڈا کرنے یا جھوٹ بولنے کا الزام عاید کرتا ہے تو ہم اسے اُس مضمون میں موجود سچ لکھی گئی کچھ لائنیں دکھا سکتے ہیں۔ لیکن جربی سرخی تو غیرحقیقی یا اس میں غفلت ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر یمن پر حملے کی یہ سُرخی دیکھو؛

’’بچوں کولے جانے والی بس پر فضائی حملے میں درجنوں بچے ہلاک‘‘ دیکھو؟ کیا ہم سرخی میں لکھ سکتے تھے کہ اس سفاکی میں برطانوی مدد حاصل تھی؟ تاہم ہم نے اس خبر کے بالکل آخر میں چند لائنوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس فضائی حملے کے لیے برطانوی حکومت نے سعودی اتحاد کی عسکری مدد کی تھی۔ ہم نے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ برطانیہ نے گذشتہ تین سالوں میں سعودیہ کو چار ارب ستر کروڑ یورو کا اسلحہ فروخت کیا جو اب یمن میں استعمال ہو رہا ہے، لیکن سُرخی میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

جب کہ اس خبر کی سُرخی کچھ اس طرح کی ہونی چاہیے تھی:

’سعودی عرب کی جانب سے یمن میں اسکول بس پر فضائی حملے میں 29بچے جاں بحق‘ اور اس کی ذیلی سُرخی کچھ اس طرح کی ہونی چاہیے تھی ’ریاض کی جانب سے اس حملے میں استعمال ہونے والے برطانوی اسلحے نے شہریوں کی ہلاکت پر سوال اٹھا دیے‘

ذرا سوچو اگر یہی فضائی حملہ ہمارے کسی دشمن نے کیا ہوتا تو اس خبر کی سُرخی کچھ ایسی ہوتی ’’شیطان یمن میں پہنچ گیا: پیوٹن کے فضائی حملے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد جاں بحق‘ اور اس کی ذیلی سُرخی اس طرح ہوتی ’روسی آمر کو لگام دینے کے لیے دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے!‘‘

’’لیکن ظاہر سی بات ہے کہ جب ہمارے اتحادی کہیں بم باری کرتے ہیں تو ہم ان کی بربریت کا تذکرہ خبر کے آخر میں ڈھکے چھپے الفاظ میں کردیتے ہیں تا کہ کسی کو شکایت نہ ہو۔‘‘

برطانوی دانش ور کی ان باتوں نے گوئبیلز کو مغلوب کردیا تھا۔ یہ سب اس کے بے ہودہ دماغ سے کہیں زیادہ تھا۔

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میری باتوں کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے ہو۔ چلو میں تمہیں ایک آخری مثال اور دیتا ہوں، برطانوی دانش ور نے گوئبیلز کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’چلو ہم تمہارے دور کا کوئی واقعہ لیتے ہیں، وارسا میں یہودیوں کی جانب سے ہونے والی بغاوت؛ وارسا کی یہودی آبادیوں میں ہونے والے بغاوت کے دوران نازیوں کو اس طرح کی سُرخیاں بنانی چاہیں تھیں:

’وارسا میں رہنے والے یہودی پُرتشدد ہوگئے، سات دن سے جاری پُر تشدد کارروائیوں میں متعدد دکانوں اور گاڑیوں کو آگ اور دونوں طرف کئی افراد کو قتل کردیا گیا۔‘

اب اس سُرخی سے کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ یہ ہلاکتیں کیوں اور کیسے شروع ہوئیں، اور یاد رکھیں کہ ہم نے ’ دو طرفہ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کی جانب سے ہلاکتوں کا نہیں۔ اس سُرخی سے یہ پیغام مل رہا ہے کہ کچھ وجوہات کی بنا پر یہودی پُرتشدد ہوگئے۔ اس خبر کے آخر میں آپ ایک لائن میں یہ لکھ سکتے ہیں،

’’کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہودیوں کا غصہ جائز ہے کیوں کہ انہیں بڑے پیمانے پر ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اس کے اثرات کو مزید کم کرنے کے لیے اس طرح کا چھوٹا سا پیراگراف شامل کیا جانا چاہیے:

’’تاہم، جنرل وون بلوم برگ کا کہنا ہے کہ شہروں میں دہشت پھیلانے والے افراد کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور جرمن افواج انتشار کا سبب عناصر سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔‘‘

’’تم یہ سب کیسے کرتے ہو میرے عزیز دوست؟‘‘ گوئبیلز نے پوچھا۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری طویل نوآبادیاتی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ ہمارے پاس دنیا کے بہترین دانش ور تھے اور اب بھی ہیں۔ برطانوی فطرتاً بہت شکی ہیں تو ہم ان سے جھوٹ نہیں بولتے۔ اس لیے انہیں ہم اس طرح فریب دیتے ہیں۔ جب کبھی وہ ہمیں چیلینج کرتے ہیں تو ہمارا وہی منہ پھٹ اور غصے والا رویہ ہوجاتا ہے۔ ہمارا یہی غرور اور غصہ ایسے لوگوں کو زیر کرنے کا بہترین ہتھیار ہے جو یقیناً ہم سے کم تعلیم یافتہ ہیں۔‘‘ برطانوی دانش ور نے فخریہ انداز میں کہا۔

’’یہ بات میرے لیے باعث شرمندگی ہے کہ مجھے تم سے کچھ سیکھنے کا موقع نہیں ملا‘‘ گوئبیلز نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

’’جربی تم نے تو ابھی تک اس کے بہترین حصے کے بارے میں تو سنا ہی نہیں ہے‘‘ برطانوی دانش ور نے کریہہ آواز میں کہا، یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات بہت خراب ہوگئے تھے، اس طرح جیسے کسی کے چہرے سے نقاب اتر گیا ہو۔

’’کیا؟‘‘

’’گارجیئن کو برطانیہ کے دانش ور حلقوں میں بائیں بازو کا ترقی پسند اخبار تصور کیا جاتا ہے!!‘‘

’’کیا؟‘‘ گوئبیلز کو اچانک صدمہ پہنچا۔ پھر گوئبیلز اور برطانوی دانش ور کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ پھر دونوں نے بے تحاشا ہنسنا شروع کردیا۔ ان کے دیوانوں کی طرح ہنسنے کی آواز سن کر برابر والے کمرے میں موجود جے کے رولنگ نے بہ آواز بلند ہیری پوٹر کا ایک منتر پڑھا ’’ایکسپیکٹو پیٹرونم‘‘

لیکن دونوں پر اس منتر کا کوئی اثر نہیں ہوا بل کہ وہ اور زیادہ زور زور سے ہنسنے لگے۔

’’جربی او جربی! تم جانتے ہو سب سے مزے دار بات کیا ہے؟‘‘ برطانوی دانش ور نے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’کیا؟‘‘ گوئبیلز نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔

’’بی بی سی کو بھی بائیں بازو کا !!!!!!!!!!!!‘‘

اس آخری جملے نے دونوں نئے دوستوں کو ہذیان میں مبتلا کردیا اور دونوں اپنی پشت سے پشت ملا کر پاگلوں کی طرح ہنسنے لگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔