راحتِ قلب

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 14 ستمبر 2018
زندگی ہر شخص کو محبوب ہے اور مرنے سے ہر شخص ہی گھبراتا ہے۔ فوٹو: فائل

زندگی ہر شخص کو محبوب ہے اور مرنے سے ہر شخص ہی گھبراتا ہے۔ فوٹو: فائل

حضور اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا، ان دونوں کی مثال زندہ اور مُردہ کی سی ہے کہ ذکر کرنے والا زندہ اور ذکر نہ کرنے والا مُردہ ہے۔‘‘

زندگی ہر شخص کو محبوب ہے اور مرنے سے ہر شخص ہی گھبراتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ زندہ بھی مُردے ہی کے حکم میں ہے، اس کی زندگی بھی بے کار ہے۔

حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ جنّت میں جانے کے بعد اہل جنّت کو دنیا کی کسی چیز کا بھی قلق و افسوس نہیں ہوگا۔ بہ جُز اس گھڑ ی کے جو دنیا میں اللہ کے ذکر کے بغیر گزر گئی ہو۔‘‘

جنّت میں جانے کے بعد جب یہ منظر سامنے ہوگا کہ ایک مرتبہ اس پاک نام کو لینے کا اجر و ثواب کتنا زیادہ ہے کہ پہاڑوں کے برابر اجر مل رہا ہے تو اس وقت اپنی کمائی کے نقصان پر جس قدر افسوس ہوگا وہ ظاہر ہے۔ ایسے خوش نصیب بندے بھی ہیں جن کو یہ دنیا بھی بغیر ذکر اللہ کے اچھی نہیں لگتی اور وہ اپنی زندگی کو ذکر الہی سے منور رکھتے ہیں۔

حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مناجات میں فرمایا کرتے تھے : ’’ یااللہ! رات اچھی نہیں لگتی مگر تجھ سے راز و نیاز کے ساتھ، اور دن اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر تیری عبادت کے ساتھ، اور دنیا اچھی نہیں معلوم ہوتی مگر تیرے ذکر کے ساتھ، اور آخرت بھلی نہیں مگر تیری معافی کے ساتھ اور جنّت میں لطف نہیں مگر تیرے دیدار کے ساتھ۔‘‘

حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جرجانیؒ کو دیکھا کہ ستّو پھانک رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہ خشک ہی پھانک رہے ہیں ؟ کہنے لگے کہ میں نے روٹی چبانے اور پھانکنے کا جب حساب لگایا تو چبانے میں اتنا وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ اس میں آدمی ستّر مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکتا ہے۔ اس لیے میں نے چالیس برس سے روٹی کھانا چھوڑ دی ہے اور ستو پھانک کر گزر کرلیتا ہوں۔

منصور بن معمر رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ چالیس برس تک انہوں نے نماز عشاء کے بعد کسی سے بات نہیں کی۔ ربیع بن ھیثم کے متعلق لکھا ہے کہ بیس برس تک جو بات کرتے اس کو ایک پرچے پر لکھ لیتے اور رات کو اپنے دل سے حساب کرتے کہ کتنی بات اس میں ضروری تھی اور کتنی غیر ضروری۔

غرض یہ کہ زیر نظر حدیث سے وقت کی اہمیت مفہوم ہوئی اور اللہ والوں کی سیرت و عمل سے وقت کی قدر کرنے کا سبق ملا ہے۔

حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کے ذکر کے لیے مجتمع ہوں اور ان کا مقصود صرف اللہ ہی کی رضا ہو، تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کہ تم لوگ بخش دیے گئے اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس مجلس میں اللہ کا ذکر نہ ہو، حضور اکرم ﷺ پر درود نہ ہو، اس مجلس والے ایسے ہیں جیسے مُردہ گدھے پر سے اٹھے ہوں۔

ایک حدیث میں ہے کہ مجالس کا حق ادا کیا کرو! اور وہ یہ ہے کہ اللہ کا ذکر ان میں کثرت سے کرو، مسافروں کو ( بہ وقت ضرورت) راستہ بتاؤ، اور ناجائز چیز سامنے آجائے تو آنکھیں بند کرلو (یا نیچی کر لو کہ اس پر نگاہ نہ پڑے )

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : کیا میں تمہیں ایسے بہترین اعمال نہ بتادوں جو رب کے نزدیک بہت ستھرے اور تمہارے درجات بہت بلند کرنے والے، اور تمہارے لیے سونا اور چاندی خیرات کرنے سے بہتر ہوں اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہوں کہ تم دشمن سے جہاد کرو اور تم ان کی گردنیں مارو اور تمہیں شہید کریں ؟ صحابہؓ نے عرض کیا جی ضرور ارشاد فرمائیے! تو آپؐ نے فرمایا: وہ عمل اللہ کا ذکر ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے اپنا ذکر اور رسول اکرم ﷺ پر درود شریف بھیجنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔