خیبر پختونخوا حکومت سے وابستہ توقعات

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد ہی یہ واضح ہوگیاتھا کہ پرویز خٹک باآسانی وزیراعلیٰ منتخب ہوجائیں گے۔


Editorial May 31, 2013
خیبر پختونخوا دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اورتحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ڈرون حملوں کے باعث پاکستان میں شدت پسندی کو تقویت مل رہی ہے۔ فوٹو: ایجنسیز

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک خیبر پختون خوا کے 26 ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے جمعہ کو ہونے والی ووٹنگ میں وہ 84 ووٹوں کے ساتھ کامیاب قرار دیے گئے۔ اتحادی جماعتوں قومی وطن پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی جمہوری اتحاد اور آزاد اراکین نے تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کی۔

پرویز خٹک کے مدمقابل وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے دوسرے امیدوار مولانا لطف الرحمٰن کو 37 ووٹ ملے، مسلم لیگ نواز کی طرف سے وجیہہ الزمان کو وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن وہ مولانا لطف الرحمٰن کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف 55 نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہے جب کہ جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ (ن) نے 17,17 نشستیں حاصل کر رکھی ہیں۔ واضح رہے کہ جمعرات کو صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اسد قیصر اور امتیاز قریشی بلا مقابلہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد ہی یہ واضح ہوگیاتھا کہ پرویز خٹک باآسانی وزیراعلیٰ منتخب ہوجائیں گے۔ خیبر پختون خوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے حلف اٹھانے کے بعد صوبائی اسمبلی میں اپنے اولین خطاب میں نو منتخب اراکین کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اسمبلی فلور کو صوبے کی ترقی، معیشت کی بہتری اور امن و امان کے قیام کے لیے استعمال کریں گے، ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے نہیں بلکہ ان سے سبق سیکھیں گے، مرکز سے صوبے کے حقوق آئینی اور قانونی طریقے سے حاصل کریں گے جب کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے وفاق کا بھرپور ساتھ دیں گے، انھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ صوبہ مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے لیکن ہنگامی اور ٹھوس بنیادوں پر صوبے کے عوام کو تمام مسائل سے نجات دلانے کی کوششیں کریں گے۔

11 مئی کے انتخابات کے بعد جہاں قوم نے نئی حکومت خصوصاً خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کو جو مینڈیٹ دیکر مسائل کے حل کے حوالے سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اگرچہ ان توقعات پر پورا اترنا شاید فی الوقت بہت کٹھن اور مشکل ہو لیکن سعی پیہم سے صوبے کی نئی حکومت مسائل پر قابو پا کر تاریخ امر کر سکتی ہے۔

اس ضمن میں صوبے کے عوام کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے، ان میں امن و امان کی بگڑی ہوئی صورت حال، صوبے کے سیٹلڈ ایریاز میں دہشت گردی کی وارداتیں، زوال پذیر معیشت، توانائی کا بحران، مہنگائی اور بے روزگاری شامل ہے، صوبے کے عوام اور بطور خاص کاروباری حلقے معیشت میں بہتری کے لیے تو منتخب حکومت کی ترجیحات پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہیں، خیبر پختونخوا اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخابات کے بعد جے یو آئی کے مولانا لطف الرحمٰن نے اپنے مختصر خطاب میں نو منتخب قائد ایوان کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے اور امن و امان کے قیام کے لیے حزب اقتدار کو بھرپور سپورٹ کریں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے نو منتخب حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نئی حکومت ڈرون حملوں کی بندش کے حوالے سے ٹھوس اور دو ٹوک مؤقف اپنائے۔

یہ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اورتحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ڈرون حملوں کے باعث پاکستان میں شدت پسندی کو تقویت مل رہی ہے، اس لیے نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج طالبان سے بامقصد مذاکرات اور ڈرون حملوں کے حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا، یہ بظاہر آسان لگتا ہے لیکن ماضی میں اس حوالے سے جتنی بھی کوششیں ہوئیں ، وہ ناکام ہوئیں، اب تحریک انصاف اس حوالے سے کن گروپوں سے رابطہ کرتی ہے، اس کا پتہ چل جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی توانائی کا بحران نئی حکومت کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے کیوں کہ ملک میں بجلی کی قلت کے باعث کاروباری سرگرمیاں تقریباً ماند پڑ گئی ہیں، نئی صنعتیں لگنے کے بجائے پرانی صنعتیں بند ہو رہی ہیں، جس کے باعث بے روزگاری کا گراف بڑھ رہا ہے اور اسی بے روزگاری کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال آئے روز بے قابو ہوتی جا رہی ہے، بجا طور عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی اقتدار کا پہلا سال مشکل ثابت ہو گا ۔

کیوں کہ معیشت کو ترقی کی جانب گامزن کرنے اور امن و امان کے قیام کے لیے نئی حکومت کو کٹھن اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے ساتھ حزب اقتدار کو بھی تمام اہم فیصلوں میں شریک کرنا ہو گا۔توانائی کے بحران کے حل کے لیے بھی صوبائی حکومت کو مرکز کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ڈرون حملوں کے حوالے سے بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت کو سامنے رکھ کر کوئی بات کی جانی چاہیے۔ اگر محض سیاسی دکانداری چمکانے کے لیے کوئی بیان جاری کرنا ہے تو اس سے مسائل حل نہیں بلکہ زیادہ گمبھیر ہوں گے ۔دہشت گردی کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا ہمارے بعض سیاستدان سمجھتے ہیں۔بہرحال امید یہی ہے کہ خیبر پختونخوا کی نئی حکومت صوبے کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر ممکن کام کرے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں