نواز شریف، مریم اور صفدر جیل سے رہا، جاتی امرا پہنچ گئے

ویب ڈیسک  بدھ 19 ستمبر 2018

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی سزائیں معطل کرکے انہیں رہا کردیا جس کے بعد تینوں افراد لاہور میں اپنی رہائش گاہ جاتی امرا پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن  (ر) صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں پر سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے دلائل اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے جوابی دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن  (ر) صفدر کو رہا کرنے کا حکم  دیا۔ عدالت  نے قرار دیا کہ تینوں ملزمان کی اپیلوں پر حتمی فیصلے تک احتساب عدالت کا حکم معطل رہے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد كمرہ عدالت میں موجود مسلم لیگ (ن) كے رہنماؤں نے نواز شریف كے حق میں نعرے بازی كی جب کہ عدالت کے اندر اورباہر موجود لیگی کارکنوں نے ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں اورمٹھائیاں تقسیم کیں۔ اس موقع پر مریم اورنگزیب اور دیگر لیگی خواتین كے خوشی سے آنسو نكل آئے۔

مسلم لیگ (ن) كے رہنما سینیٹر چوہدری تنویر نے نواز شریف، مریم نواز اور كیپٹن (ر) صفدر كے ضمانتی مچلكے ڈپٹی رجسٹرار كے پاس جمع كرا ئے جس کے بعد روبکار جاری کیا گیا۔ اڈیالہ جیل کو روبکار موصول ہونے کے بعد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو رہا کردیا گیا۔

رہائی کے بعد نواز شریف، مریم نواز اور كیپٹن (ر) صفدر دیگر لیگی رہنماؤں کے ہمراہ قافلے کی صورت میں نورخان ایئربیس آئے اور وہاں موجود خصوصی طیارے کے ذریعے تینوں افراد لاہور پہنچے جہاں کارکنوں کی بڑی تعداد نے اپنے قائد کا استقبال کیا اور پارٹی کے حق میں نعرے بازی کی۔

 نواز شریف کی رہائی کی خبر ملتے ہی پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی کارکنوں نے جشن منایا، مٹھائیاں تقسیم کیں اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے۔

قبل ازیں دوران سماعت ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ نیب لندن فلیٹس سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا لیکن پراسیکیوٹر نیب کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ فلیٹس نواز شریف کے ہیں۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر نیب سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مریم کے نام فلیٹس بنائے؟۔ اکرم قریشی نے کہا کہ جی، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تو پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتادیں، ہم کیسے فرض کریں جب آپ کی تفتیش کے بعد بھی نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں بن پارہا، نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آرہا، آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کرلیں، کیا ہم فرض کرلیں کہ بچے چھوٹے ہیں تو مالک والد ہوگا؟۔

اکرم قریشی نے کہا کہ بار ثبوت مجرموں پر تھا کہ وہ بتائیں فلیٹس کیسے بنائے؟ والد کو بچانے کے لیے مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ تیار کی، قانون کہتا ہے کہ جب فلیٹس ان کے قبضے میں تھے تو ملکیت بھی وہ بتائیں، جب بچے کم عمر تھے تو فلیٹس کے مالک نواز شریف ہیں۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کا موقف ہے کہ 1993ء میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے، آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں، تو مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا؟۔

جسٹس گل حسن نے کہا کہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے اگر اثاثے چھپائے گئے تو اثاثے بنانے میں سزا کیسے ہوئی ؟ ۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ بچوں کی آمدن کے ذرائع بن نہیں رہے تھے تو مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی، نواز شریف کو بچانے کے لیے مریم نواز نے یہ جعلی معاہدہ بنایا، مریم نواز نے نیلسن اور نیسکول کی ملکیت تبدیل کر کے والد کی ملکیت چھپائی۔

یہ بھی پڑھیں: مفروضے پر دی گئی سزا برقرار نہیں رہ سکتی، ہائیکورٹ

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آگے چلیں، یہ تو مفروضوں پر مبنی ہے، فرض کر لیتے ہیں کہ نواز شریف نے فلیٹس خریدے، تو مریم اور نواز شریف دونوں مالک کیسے ہو سکتے ہیں، فرض کرلیں کہ مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جے آئی ٹی اور احتساب عدالت میں جمع کرائی، اگر جرم جعلی ٹرسٹ ڈیڈ ہے تو اسے آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر سزا کیسے ہوئی؟۔

پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ آپ سارے سوالات مجھ سے ہی پوچھ رہے ہیں، کچھ سوالات نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے بھی پوچھ لیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ سے یہ سوالات اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے یہ تمام کہانی بنائی، آپ نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے نواز شریف کا دور سے کوئی تعلق بنے۔

واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی جب کہ حسین اور حسن نواز کو اشتہاری قرار دیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔