واہ رے استاد

زاہد نثار  پير 24 ستمبر 2018
استاد سے تعلیم دینے کے علاوہ ہر کام لیا جا سکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

استاد سے تعلیم دینے کے علاوہ ہر کام لیا جا سکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کسی نہ کسی جگہ ہمیں استاد سے پالا پڑ ہی جاتا ہے۔ کسی ورکشاپ میں چلے جائیں، آوازیں سنائی دیتی ہیں آیا استاد! بس سے اتریں تو کنڈکٹر کہتا ہے چل استاد، ہوٹل پر جائیں تو چائے والا کہتا ہے ایک چائے استاد، کوئی جیب کترا بھرے بازار میں پکڑا جائے تو وہ بھی چلانے لگتا ہے ’بچا استاد‘ اور پھر ایک شخص بھاگتے ہوئے چلاتا ہے بھاگ استاد۔ کسی مداری کو سڑک پر تماشا دکھاتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ بچہ جمورا… اور ایک بچہ بولتا ہے جی استاد۔ لیکن ایک اور بھی استاد ہے، جی بالکل! وہی استاد جو محکمہ تعلیم کا ملازم ہوتا ہے، جس سے محکمہ تعلیم تعلیم دینے کے علاوہ ہر کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ ہمارا سماجی سچ ہے کہ کچھ لوگ جس کام کے لیے رکھے جاتے ہیں، اس کے بجائے کسی اور کام کے لیے چُن لیے جاتے ہیں۔ جیسے انارکلی رکھی تو کنیز کے کام کے لیے جاتی ہے، مگر اکبر بادشاہ کے لیے دیوار میں چُنی جاتی ہے، جیسے پی ٹی وی کی آمدن بڑھانے کے لیے کسی کو رکھا جاتا ہے اور وہ آمدن بڑھانے کے چیلینج کے بجائے بلڈ پریشر بڑھانے والی گولیاں چُن لیتا ہے۔ ایسے ہی آج کل کسی کو تعلیم نہ دینے کے لیے بطور استاد چُن لیا جاتا ہے۔

جب کوئی شخص استاد کے لیے چُنے جانے کی خواہش میں حکومت سے یہ مطالبہ کرے کہ سُن صاحبا سُن، پیار کی دُھن، میں نے تجھے چُن لیا، تُو بھی مجھے چُن۔ تو پھر حکومت بھی تعلیم دینے کے کام کے علاوہ اسے چُن ہی لیتی ہے۔ یعنی چُن لیا میں نے تمہیں، سارا جہاں رہنے دیا۔ اور محکمہ تعلیم تو استاد چُننے میں بہت مہارت رکھتا ہے، اس بار محمکہ تعلیم کے عبقری نابغوں نے اساتذہ کے اندر وہ خفیہ صلاحیتیں بنا کسی ظاہری سائنسی تحقیق و آلات دیکھ لی ہیں، جن کا اس سے قبل کسی کو ادراک تک نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹنگ کے میدان میں استاد اب ایسے استعمال ہونے والے ہیں کہ مارکیٹنگ کے طریقہ کار ہی بدل جائیں گے۔ محمکہ تعلیم نے اساتذہ کی پوشیدہ اور بے پناہ صلاحیتوں کو اب ایک نئے سرے سے دریافت کر کے عملی شکل دے دی ہے۔ اساتذہ کو ہدف دیا گیا ہے کہ وہ مطلوبہ تعداد میں بچوں کا اسکول میں داخلہ یقینی بنائیں، بصورتِ دیگر کڑی سزائیں ان کی منتظر ہیں۔

اس سلسلے میں استاد کو باقاعدہ والدین کی منتیں کرنا بھی پڑیں گی، اور بالفرض اگر کسی علاقے میں آبادی ہی کم ہے تو خاندانی منصوبہ بندی والوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کر کے اپنے مشن کی تکمیل کرنا ہوگی۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟ استاد کی انہی خوبیوں کی بنا پر حکومت نے اس کو اندرون و بیرون ملک استعمال کرنے کا عظیم الشان منصوبہ بنایا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔

آپ الیکشن ڈیوٹی ہی لے لیں۔ کوئی جمہوری حکومت کیا الیکشن کے بغیر بن سکتی ہے؟ یقیناً استاد کی ضرورت ہے صاحب، استاد کی۔ یہی حکومت جب اپنے وزراء مشیروں کی فوج ظفر موج لے کر مختلف ممالک پر سیر سپاٹے کی نیت سے سفارتی یلغار کرے گی تو درحقیقت اس کے پیچھے استاد کی محنت ہوگی، پھر مردم شماری کےلیے بہترین چوائس کیا ہوگی؟ ارے بھائی استاد! اب استاد سے بہتر کون گنتی کر سکتا ہے؟ جو گنتی سکھاتا ہے اس سے بہتر کون کر سکتا ہے گنتی؟ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں استاد کی اہمیت و موجودگی سے کون ظالم انکار کرسکتا ہے؟ جب کسی بچے کو محکمہ صحت کے نکھٹو اہلکار قطرے پلاتے ہیں تو بچے کا منہ کون کھولتا ہے؟ بتائیے بھلا؟ وہی عظیم ہستی، یعنی استاد۔

اب پٹواریوں کی سن لیجیے۔ زمینی معاملات سے یکسر نابلد پٹواریوں پر استاد کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کے پڑھائے ہوئے پٹواری زمین درازی اور زمین دستی کے مرتکب تو نہیں پائے جارہے؟ نت نئے منصوبے زیرِغور ہیں، استاد کے بے پناہ ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے کے لیے، کہیں سڑک بن رہی ہو تو اس سڑک کی لمبائی کون بتائے گا؟ وہ بھی پیدل چل کر؟ تو وہ یہی ہستی استاد ہے۔ تہوار اور قومی ایام پر استاد کو ایسے یاد رکھا جاتا ہے جیسے دشمن ساس کو کینہ پرور بہو یاد رکھتی ہے۔ حکومت کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ امن و امان کی بحالی کے لیے استاد کو میدان عمل میں لایا جائے۔ کیونکہ جو استاد دو سو شریر بچوں کی کلاس کو تن تنہا سنبھال سکتا ہے تو سو پچاس شرپسند اس کے لیے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ لہٰذا وہ امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھ سکتا ہے۔

ممکنہ طور پر مستقبل میں استاد سے خسارے میں جانے والے مختلف قومی اداروں مثلاً پی آئی اے کے لیے بھی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ ہوائی جہازوں کے مختلف شہروں اور دیہات کے اوپر سے گزرنے کی وجہ سے عام طور پر ہمارے لوگ سر اٹھا کر ان کو دیکھتے ہیں، ایسے تمام لوگ جو بلامعاوضہ اور بلا ٹکٹ اڑتے جہاز کو دیکھتے ہیں اور پھر اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ان پر ٹیکس لگانے کا کام تو ظاہر ہے حکومت کا ہے۔ اور اس ٹیکس کی وصولی سوائے استاد کے کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ کیوںکہ استاد جانتا ہے کہ اڑتے جہاز کو لوگ کنکھیوں سے اور بہانے بہانے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

چوںکہ ریلوے کی ابتر حالت کے ذمہ دار وہ افراد ہیں جو ریلوے اسٹیشن پر فضول میں بیٹھ کر ہر آتی جاتی ٹرین کو نظر لگاتے ہیں۔ ان کی بد نظری کی وجہ سے محکمہ ریلوے دن بہ دن خسارے میں جارہا ہے۔ ایسے بدنظر افراد پر نظر رکھنا ایک استاد کی ذمہ داری ہے، تاکہ قومی ادارے منافع بخش ادارے بن سکیں۔ یہ جو غلغلہ سا اٹھا ہے کہ شجرکاری کی جائے اور اربوں درخت لگانے کے منصوبے زیرِبحث ہیں تو استاد کو کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ بے شک پودے لگانا عوام اور حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر ان پودوں کی نگہداشت جیسی اہم ترین ذمہ داری استاد کے علاوہ کس کی ہوسکتی ہے؟ کیا پتا کوئی دل جلا کسی وقت پودے کو پانی ہی نہ دے اور بہانہ گھڑے کہ اس کو تو خود پینے کے لیے پانی میسر نہیں۔ تو ایسی صورت میں استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ محکمہ جنگلات کو اس ماحول دشمن انسان کی نشان دہی کرے اور پودوں کو پانی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہر وقت اپنی پیٹھ پر ایک مشک یا ہاتھ میں کولر رکھے۔

پرندے بھی تو درختوں پر بیٹھتے ہیں، وہ بھی اسی ملک کے باسی ہیں۔ پرندوں کی مفت رہائش گاہوں کو گننے اور اسے حکومتی دائرہ کار میں لانے کے لیے استاد کو آگے لایا جائے۔ پرندوں کے لیے باقاعدہ مارکیٹنگ کی جاسکتی ہے۔ ’تم شجر کو زرا دلاسا دو، میں پرندے بلا کے لاتا ہوں‘۔

الغرض استاد سے تعلیم دینے کے علاوہ ہر کام لیا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کی بے پناہ غیر تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے ایک وقت آنے والا ہے جب یہ ناپید ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے۔

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں ’’استاد‘‘ ہیں ہم۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زاہد نثار

زاہد نثار

ادب سے سیاست، تاریخ، مذہب اور تصوف تک مختلف موضوعات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والے زاہد نثار جو کچھ جذب کرتے ہیں، اسے نکھرے سلجھے اور تیکھے لفظوں کے ساتھ قاری کے حوالے کردیتے ہیں۔ ان کی تحریریں ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شائع ہوتی رہتی ہیں اور بلاگ سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔