اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک (تیسری قسط)

ببرک کارمل جمالی  ہفتہ 29 ستمبر 2018
بارش میں بھیگی ہوئی، ڈیرہ بگٹی کی ڈبل روڈ کا خوبصورت منظر۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

بارش میں بھیگی ہوئی، ڈیرہ بگٹی کی ڈبل روڈ کا خوبصورت منظر۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ہماری گاڑی اونچے نیچے راستوں پر دوڑ رہی تھی۔ دو گھنٹوں کی مسافت اور پاک فوج کی سات چوکیوں پر اپنا مکمل پتا، شناختی کارڈ نمبر اور گاڑی نمبر اندراج کروانے کے بعد ہم اپنی منزل ڈیرہ بگٹی شہر پہنچ گئے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی، صوبہ بلوچستان کا ایک خوبصورت اور معدنیات سے مالا مال ضلع ہے۔ اس ضلع کی وجہ شہرت نواب اکبر بگٹی اور سابق صدر پرویز مشرف کی جنگ بھی ہے۔ انتظامی طور پر اس ضلع کی تین تحصیلیں ہیں جن میں تحصیل سوئی، تحصیل پھیلاؤ باغ اور تحصیل ڈیرہ بگٹی ہے۔

اس بلاگ کا دوسرا حصہ پڑھیے: اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک (دوسری قسط)

اس بلاگ کا پہلا حصہ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے: اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک

ہم جیسے ہی تحصیل ڈیرہ بگٹی میں رات کے وقت داخل ہوئے تو ہمارے سامنے پہاڑوں پر بنے خوبصورت پاکستانی پرچم نے ہمارا استقبال کیا۔ پاکستانی پرچم رات کے اندھیرے میں انتہائی خوبصورت لگ رہا تھا۔ ہم تھوڑا آگے چلے تو پاکستان چوک آگیا۔ پاکستان چوک ڈی سی آفس اور ڈی ایچ او آفس کے ساتھ ہے۔ اسی کے ساتھ بازار دونوں طرف پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان چوک پر چند سال پہلے پاک فوج کے جوان بیٹھتے تھے مگر اب امن و امان کی صورتحال اچھی ہوگئی تو یہاں سے پاک فوج کے جوان اٹھ کر اپنے کیمپوں میں چلے گئے ہیں۔

ڈیرہ بگٹی میں بھیڑوں کا گلّہ اور چرواہا


ہم جس روز ہم ڈیرہ بگٹی شہر میں داخل ہوئے، اس سے ایک روز قبل جشن آزادی تھا لیکن ابھی تک پورے ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی پرچم کی سبز ہلالی جھنڈیاں لہرا رہی تھی۔ ہم تھکے ہارے لوگ رات کا کھانا اور ساتھ میں دیسی آم کھانے کے بعد کچھ وقت ڈیرہ بگٹی کے مقامی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر یہاں کے بارے میں معلومات لینے کے بعد سوگئے۔

ڈیرہ بگٹی کا ایک واٹر کورس


تھکاوٹ کی وجہ سے رات ایسے گزر گئی کہ کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ پوری رات بے خبر سونے کے بعد ہم صبح سویرے اٹھ گئے اور جیسے ہی مین گیٹ سے باہر نکلے تو اسکول کے کچھ بچے بیری اتارنے میں مصروف تھے جو ہمیں دیکھنے کے بعد اسکول کی طرف بھاگ گئے۔ اسی وقت ڈیرہ بگٹی کے مقامی محمد خان اور بابو بیلی ہمارے لیے ناشتہ لے کر آگئے تھے۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم ڈیرہ بگٹی کی گلیوں میں گھومنے نکل پڑے۔ محمد خان اور بابو بیلی نے اس شہر کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ انہوں نے پوری زندگی اسی شہر میں گزار دی ہے جبکہ وہ لوگ مشرف کی جنگ کے دوران بھی اسی شہر میں موجود تھے۔ وہ لوگ ڈیرہ بگٹی شہر کے چپے چپے سے واقف تھے۔

ایک ساربان اپنے اونٹ کے ساتھ: ڈیرہ بگٹی کا ایک اور منظر


اس روز ہم بانیٴ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے دوست نواب اکبر بگٹی کے شہر کی گلیوں میں موجود تھے۔ نواب اکبر بگٹی، قائداعظمؒ کا ساتھ دینے اور بلوچستان کے سب بڑے جرگے میں پاکستان کو ووٹ دینے والے پہلے بلوچ سردار تھے۔ آج نواب اکبر بگٹی کا قاتل جنرل پرویز مشرف لندن اور دبئی میں پھررہا ہے جبکہ بلوچستان کی سر زمین آج تک اس کی وجہ سے لہولہان ہے۔

ڈیرہ بگٹی شہر کا پینے کا پانی جو پہاڑوں سے نکل کر سیدھا آر او پلانٹ میں جاتا ہے


ڈیرہ بگٹی کے حالات اس وقت انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے جب سوئی کے پی پی ایل اسپتال کی لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ جنسی زیادتی کا انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا۔ تاہم جب کوہلو میں جنرل پرویز مشرف پر راکٹ فائر کرنے کا پیش آیا، تو اُس وقت صدر کی حیثیت سے پرویز مشرف نے بلوچستان پر حملہ کرنے کی ٹھان لی اور یوں صرف چند ماہ بعد پرویز مشرف نے بلوچستان کے مختلف اضلاع پر حملہ کروادیا تھا جس میں سیکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہوئے تھے جن میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی تک شامل تھے۔ جنرل مشرف کا رویہ اس قدر بہیمانہ اور بے رحمانہ تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کو اس حملے کی اجازت نہ دینے کی پاداش میں وزیراعظم کی کرسی چھوڑنی پڑی تھی۔

بلوچستان کے سیاسی، سماجی و قبائلی رہنما نواب اکبر خان بگٹی 26 اگست 2006 کے روز کوہلو میں ایک بڑے کریک ڈاؤن میں شہید ہوگئے تھے، جب وہ ایک غار میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ نواب اکبر بگٹی کے شہادت کے بعد پورے بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی شروع ہوگئی جس کے اثرات ڈیرہ بگٹی اور پورے بلوچستان میں آج تک موجود ہیں۔ نواب اکبر بگٹی، جنرل مشرف سے کئی گنا زیادہ بہادر اور محب وطن تھے۔ وہ بلوچ قوم پرست سردار ضرور تھے مگر مرتے دم تک بلوچستان کی علیحدگی کے قطعاً حامی نہیں تھے۔

ڈیرہ بگٹی میں ٹائر پنکچر والے کی ایک دکان


ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کی زندگی پاکستان کے دیگر شہروں سے بالکل ہی مختلف اور الگ ہے۔ ڈیرہ بگٹی ضلع پورے پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں موٹر سائیکل کے پٹھکے (سائیڈ کور) نکال دیئے جاتے ہیں کیونکہ کئی مرتبہ دستی بم ان ہی سائیڈ کورز چھپائے گئے تھے جنہیں پاک فوج نے پکڑا تھا۔ اس کے کے بعد سے سائیڈ کورز پر پابندی لگا دی گئی۔ آج کے جدید دور میں بھی ڈیرہ بگٹی میں کوئی بھی موبائل نیٹ ورک سروس موجود نہیں، صرف پی ٹی سی ایل کا نیٹ ورک موجود جس پر آپریٹنگ کا کام لیلیٰ بگٹی نامی مقامی شخص انجام دیتے ہیں۔ پہلی مرتبہ ہم ’’لیلیٰ‘‘ ایک مرد کا نام سن رہے تھے۔

لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہفتے میں دو تین دن تک پی ٹی سی ایل کا نیٹ ورک خراب رہتا ہے جس کی مرمت کرکے درست کرنے میں دو سے تین دن تک لگ جاتے ہیں۔ اگر زیادہ بارشیں ہوجائیں تو پھر ٹیلیفون کی تاریں بھی خراب ہوجاتی ہیں جنہیں بنانے میں دو سے تین ہفتے لگ جاتے ہیں۔ اور تو اور، یہاں کے لوگوں کو اکثر لوگ موبائل فون استعمال کرنے کےلیے بھی سوئی شہر کی طرف جانا پڑتا ہے، جہاں پر مختلف موبائل نیٹ ورکس موجود تو ہیں مگر وہ بھی بیشتر وقت مصروف ہی رہتے ہیں۔ سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے درمیان مسافت ایک سے دو گھنٹے تک ہوسکتی ہے۔

ڈیرہ بگٹی کی ڈبل روڈ جو بارش کے بعد منفرد منظر پیش کررہی ہے


حتیٰ کہ ہم جس جگہ رہائش پذیر تھے، وہاں بھی دو دن تک پی ٹی سی ایل کا نظام درہم برہم رہا۔ ہم لوگ جدید دور میں سوشل میڈیا سمیت موبائل سروس سے محروم تھے۔ ان دو دنوں میں ہم اور اور ہمارے ساتھی موبائل پر فارغ وقت میں کینڈی کرش کھیلتے رہے۔ آخر تیسرے روز لیلیٰ نے فون بنا کر دیا اور ہم نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تھا تو گھر والوں کی جان میں جان آئی اور جلد گھر واپس آنے کی فرمائش کردی۔

ڈیرہ بگٹی پاکستان کا واحد ضلع ہے جس میں آج تک نہ تو کوئی بس، نہ کوئی کوچ سروس اور نہ ہی کوئی وین سروس چلتی ہے۔ مقامی لوگ ٹیکسیوں اور کاروں میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی پاکستان کا وہ واحد شہر بھی ہے جہاں عورتیں بازار تک بھی نہیں جاتیں۔ ہم نے تین دنوں تک ڈیرہ بگٹی میں ایک بھی عورت کو بازار میں گھومتے ہوئے نہیں دیکھا تو ہمیں ایسا لگا جیسے اس شہر میں عورتیں رہتیں ہی نہیں… اور اگر بھولے بھٹکے کوئی ایک آدھ عورت، بازار میں دکھائی بھی دے جائے تو اس کی تصویر کھینچنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ ڈیرہ بگٹی کا سب سے بڑا راز ہے کہ پاکستان کے تقریباً تمام وزرائے اعظم بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی کا دورہ کرچکے ہیں اور نواب اکبر بگٹی کے ریسٹ ہاؤس میں سجی کھاچکے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کے دادا کا بنوایا ہوا ریسٹ ہاؤس آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس ریسٹ ہاؤس پر داغے گئے میزائلوں کے نشانات اب بھی جگہ جگہ باقی ہیں، جنہیں آج تک پر نہیں کیا گیا ہے۔

ڈیرہ بگٹی میں پہاڑی پر بنایا گیا خوبصورت سبز ہلالی پرچم


ہم نواب اکبر بگٹی کے خاندانی قبرستان میں گئے جہاں آج تک کسی کو جانے اور تصویر کھینچنے کی اجازت نہیں۔ ہم نے قبرستان میں پہنچ کر فاتح خوانی۔ نواب اکبر بگٹی کے خاندانی قبرستان کی حالت دیکھ کر ہم خاموش ہوگئے اور محمد خان سے پوچھا کہ بھائی، نواب صاحب کی قبرستان پر صرف یہ چند پتھر کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ نواب صاحب کے پوتے یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہاں پر نواب اکبر بگٹی دفنائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ دس سال تک نواب اکبر بگٹی کے قبرستان پر تصویر بنانےکی بھی اجازت بھی نہ تھی۔

پاک فوج کے جوان ان کے قبرستان پر موجود رہتے ہیں مگر جس دن ہم گئے تو وہاں پر کوئی بھی پاک فوج کا جوان بیٹھا ہوا نہیں تھا۔ نواب اکبر بگٹی کے خاندانی قبرستان میں اس کے علاوہ ان کے والد، بیٹے، بھائیوں اور دادا کی بھی قبریں موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کے کچھ اسٹیڈیمز اور کچھ ٹرینوں کا نام نواب اکبر بگٹی کے نام پر رکھنے سے بہتر تھا کہ اس بوڑھے اور محب وطن سردار کو طبعی موت مرنے دیا جاتا، تو پھر شاید بلوچستان کے حالات کبھی خراب نہ ہوتے۔

نواب اکبر بگٹی پاکستان کے سابق وزیر دفاع، وزیراعلیٰ بلوچستان اور گورنر کے عہدوں پر فائز رہ چکے تھے جبکہ انہوں نے کبھی پاکستان کے خلاف کوئی ایک بھی بیان نہیں دیا تھا۔ اگر ان کی نعش کو صرف چند لوگوں کی نگرانی میں دفنانے کے بجائے انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ ڈیرہ بگٹی کے قبرستان میں دفن کیا جاتا تو یہ بہتر عمل ہوتا۔ ان کے بیٹوں نے چند سال پہلے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی تھی کہ ان کے والد کی قبر کشائی کرکے انٹرنیشنل فرانزک ٹیم سے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ یہ یقین دہانی ہوسکے کہ دفنائی جانے والی نعش نواب اکبر بگٹی ہی کی ہے۔

ہم نے نواب صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھی اور نواب اکبر بگٹی کے قلعہ نما کوٹ کے طرف چل پڑے۔

نواب اکبر بگٹی کے قلعہ نما کوٹ کا مرکزی دروازہ


جب ہم قلعہ نما کوٹ کے اندر داخل ہوئے تو اس کے مرکزی دروازے پر پاکستانی پرچم دونوں کونوں پر لہرا رہا تھا۔ 2006 کے بعد پہلی بار پاکستانی پاکستانی پرچم نواب اکبر بگٹی کے قلعے پر لہرا رہا تھا۔ مین گیٹ کے بیچ میں ایک ہرن کا سینگ لگا ہوا تھا جو شاید نواب اکبر بگٹی نے شکار کیا تھا۔ اُس وقت بابو بیلی ہمارے ساتھ قلعے میں موجود تھے۔ انہوں نے قلعہ نما کوٹ کے اندر داخل ہونے میں ہماری بہت مدد کی۔ انہوں نے سب سے پہلے سیکڑوں سال پرانی مسجد دکھائی، جو انتہائی خوبصورت ہے۔ اس مسجد کی دیواریں تین سے چار فٹ اونچی ہیں۔ ہے بابو بیلی نے بتایا کہ نواب صاحب اس مسجد میں نماز ادا کیا کرتے تھے اور مسجد کے سامنے بیٹھ کر فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔ مسجد کی محرابوں پر لالٹین کے رکھنے کے نشانات سیکڑوں سال پرانے تھے۔

نواب اکبر بگٹی کے قلعہ نما کوٹ میں واقع سادہ لیکن پُروقار مسجد


ایک بندوق والے نے ہم سب کی تلاشی لی اور پھر ہمیں قلعہ نما کوٹ کےاندر جانے کی اجازت دی۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک گلی سے نکلتی ہوئی کئی چھوٹی چھوٹی گلیاں ہمیں نظر آئیں۔ اس قلعہ نما کوٹ کے اندر ایک نہیں کئی بنگلے ہیں جن میں سے ایک قدیمی بنگلہ نواب محراب خان کا تعمیر کردہ بھی ہے۔ ہم اس قلعہ نما کوٹ میں گھومنے لگے۔ نواب اکبر بگٹی کا بنگلہ انتہائی پرانا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ آثار قدیمہ کی کوئی عمارت ہے۔ اس عمارت پر جگہ جگہ میزائلوں کے نشانات موجود تھے جبکہ اس عمارت کے ساتھ ہی ایک گلی نواب اکبر بگٹی کے گھر کی جانب جاتی ہے جبکہ دوسری گلی ہندو محلہ سے سے ہوتی ہوئی گوردوارے تک پہنچتی ہے۔

نواب صاحب کے قلعے میں کئی بنگلے موجود ہیں جہاں آج بھی اس قلعہ نما کوٹ کے اندر تمام عمارتوں پر گولیوں کی شدید فائرنگ اور گولہ باری کے نشانات واضح نظر آرہے ہیں۔ بابو بیلی کے بقول اس قلعے میں کتابوں کی ایک بڑی لائبریری بھی موجود تھی جس میں پوری دنیا کی بہترین اور سیکڑوں سال پرانی قدیمی کتابیں موجود تھیں جبکہ ساتھ میں قدیم تلواریں اور بندوقیں بھی تھیں جو مشرف اور نواب اکبر بگٹی کی جنگ کے دوران غائب کردی گئیں، اور جن کا نام و نشان آج تک کسی کو معلوم نہیں۔

سفر اب بھی جاری ہے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔