’معاشی حملہ‘ جدید دور کا انوکھا طرز ِجنگ

سید عاصم محمود  اتوار 30 ستمبر 2018
اب ٹینکوں اور توپوں کا زمانہ نہیںرہا،حریف کو معاشی حملوں سے کمزور وناتواں بنایا جاتا ہے، خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

اب ٹینکوں اور توپوں کا زمانہ نہیںرہا،حریف کو معاشی حملوں سے کمزور وناتواں بنایا جاتا ہے، خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

امریکا کے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ،ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی مملکت کو ’’دوبارہ عظیم‘‘ بنائیں گے۔ مطلب یہ کہ وہ برسراقتدار آکر امریکا کو معاشی مسائل سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔ اس وعدے پر امریکی عوام نے اعتبار کیا اور ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس تک پہنچا دیا۔

صدر ٹرمپ نے مگر اپنی ٹیم کے ساتھ امریکا کو معاشی مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے انوکھا راستہ اپنالیا… وہ مختلف ممالک پر معاشی حملے کرنے لگے۔

انہوں نے گویا انہونی دکھاتے ہوئے معاشی حملے کو جدید دور کا خطرناک طرزِ جنگ بناڈالا۔یہ طرزِ جنگ آشکارا کرتا ہے کہ اب کسی ملک کے خلاف محض ٹینکوں، توپوں اور طیاروں سے حملہ نہیں کیا جاتا بلکہ اسے کمزور کرنے اور اپنا مطیع بنانے کے لیے اس پر معاشی حملے کرنے بھی ممکن ہیں جو شاید زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔وہ اس لحاظ سے کہ انسانی خون بہائے اور تباہی پھیلائے بغیر حملہ کرنے والا ملک اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں نت نئی جنگیں چھیڑ کر ہی امریکی حکمران طبقے نے اپنے ملک کو معاشی مسائل میں گرفتار کروایا اور امریکا کھربوں ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ تاہم ٹرمپ حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور معاشی حملوں کی داغ بیل ڈال دی۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم کے اہم ارکان امریکی فوج کے سابق فوجی افسر ہیں۔ممکن ہے کہ ان کی چھیڑی معاشی جنگوں سے امریکا کو وقتی طور پہ فائدہ پہنچ جائے، لیکن طویل المعیادی لحاظ سے اسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

امریکا کو کئی ممالک سے باہمی تجارت میں خسارہ ہورہا تھا۔ اس ضمن میں چین اور امریکا کی باہمی تجارت میں خسارہ سب سے زیادہ تھا۔ یہ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹرمپ حکومت نے چینی سامان پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ یوں اس نے ایک تیر سے دو شکار کر دئیے۔ ایک تو امریکی حکومت کی آمدن بڑھ گئی، دوسرے ٹیکس بڑھنے سے چینی سامان کی آمد میں بھی کمی آجاتی۔چین نے ٹرمپ حکومت کے اس معاشی حملے کو صبر و سکون سے برداشت نہیں کیا۔ چینی حکومت نے بھی امریکی سامان پر لگے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کردیا۔ اس جوابی وار نے دونوں ممالک کے مابین جاری معاشی جنگ کی شدت بڑھادی۔ تاہم فریقین سنبھل کر اور بڑی حکمت عملی سے ایک دوسرے پر معاشی حملے کررہے ہیں کیونکہ وہ باہمی تجارت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔

ٹرمپ حکومت نے کئی یورپی ممالک سے آنے والے سامان پر بھی ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس پر یورپی یونین بھی چیں بہ جبیں ہوئی۔ بعض یورپی حکومتوں نے ٹرمپ حکومت کے معاشی حملے کا جواب دیا اور امریکی مال پر نئے ٹیکس عائد کردیئے۔ غرض ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں نے بین الاقوامی معیشت میں ہلچل مچا دی اور اس کے استحکام کو ضعف پہنچایا۔خاص طور پر کئی ممالک کی کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھو بیٹھیں ۔یہ امر اکثر ملکوں کو ڈالر سے متنفر کر سکتا ہے۔

ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں کا نشانہ وہ ممالک بھی بنے جو امریکا کی ہدایات من و عن تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان ممالک میں عالم اسلام کے تین ملک،ایران، ترکی اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے سب سے پہلے پاکستان کو معاشی حملے کا نشانہ بنایا۔ٹرمپ حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان کو پاک افواج کی حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے 2002ء سے لے کر اب تک وہ افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے میں کامیاب رہے۔ اسی الزام کے باعث ٹرمپ حکومت نے برسراقتدار آنے کے صرف سات ماہ بعد جولائی 2017ء میں ’’کوکیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی مد میں پاکستان کو دی جانے والی رقم روک دی جبکہ جنوری 2018ء میں اس رقم میں بہت کمی کردی گئی۔

ان معاشی حملوں کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کی معیشت اتنی کمزور کردی جائے کہ وہ امریکا سے ڈالروں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ راہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کی پالیسیاں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتیں۔امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر دباؤ ڈال کر انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے اور یہ کہ افغان طالبان ہتھیار پھینک کر افغان حکومت کا حصہ بن جائیں۔ یہ عمل انجام پذیر ہونے کے بعد امریکی فوج باعزت طریقے سے افغانستان سے رخصت ہوسکتی ہے۔دوسری صورت میں امریکا کو ویت نام کے بعد افغانستان سے بھی ذلت و رسوائی اٹھا کر رخصت ہونا پڑے گا۔ تاہم پاکستان کئی بار اعلان کرچکا کہ وہ افغان طالبان پر اتنا زیادہ اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرسکے۔ افغان طالبان ایک خود مختار اکائی ہیں جو اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔

ٹرمپ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ امریکا اور چین کے مابین جاری معاشی جنگ میں پاکستان کسی ایک فریق کا طرفدار بن جائے۔ پاکستانی حکومت کا المّیہ یہ ہے کہ فی الوقت وہ کھل کر امریکا یا چین کا ساتھ نہیں دے سکتی کیونکہ پاکستان کے دونوں کے ساتھ اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں۔پاکستان کا سرکاری خزانہ تقریباً خالی ہے اور عمران خان حکومت کو ڈالروں کی اشد ضرورت ہے۔ مطلوبہ ڈالر اسے عالمی مالیاتی اداروں سے مل سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ پاکستانی حکومت امریکا کی پالیسیاں قبول کرلے۔

اکثر عالمی مالیاتی اداروں میں امریکا کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے اور وہ امریکی حکومت کی ایما پر ہی مختلف ملکوں کو قرضے دیتے ہیں۔ گویا عمران خان حکومت نے اگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے ہیں تو اسے امریکی حکومت کی’’ڈکٹیشن‘‘ یا ہدایات قبول کرنا پڑیں گی۔چین نے پاکستان میں سی پیک منصوبہ شروع کررکھا ہے۔ وہ پاکستان کو قرضے بھی فراہم کررہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں امریکا جس طرح وسیع پیمانے پر پاکستان کی معاشی و مالی مدد کرتا رہا ہے، اس انداز میں چین ابھی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ یہ امر بھی پاکستان کو امریکا سے کلی طور پر ناتا توڑنے سے باز رکھے ہوئے ہے۔

ایک اور معاشی وجہ یہ کہ پاکستان کا سب سے زیادہ مال امریکی منڈیوں ہی میں جاتا ہے۔ اگر پاکستان نے علی الاعلان امریکا سے رشتہ توڑ لیا، تو پاکستان کو ایک بڑی منڈی سے محروم ہونا پڑے گا۔ گویا ضرورت اس مار کی ہے کہ پہلے پاکستان  امریکی منڈی پر انحصار کم سے کم کرے تبھی وہ اس حیثیت میں آئے گا کہ اپنی شرائط پر امریکی حکومت سے مذاکرات کرسکے۔ فی الحال تو مذاکرات کی میز پر پاکستانی حکومت کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔

مزید براں بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث پاکستان امریکا کے لیے پہلے کی طرح زیادہ اہم ساتھی نہیں رہا۔ امریکی حکمران طبقہ اور امریکی فوج اب چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے جو معاشی و عسکری طور پر طاقتور ہورہا ہے۔ امریکی حکمران چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ چینی معاشی سرگرمیوں خصوصاً ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے پھیلاؤ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکیں۔ اسی لیے امریکی حکمران بھارت کی ناز برداری کرنے اور نخرے برداشت کرنے میں محو ہیں۔

بھارتی حکمران طبقہ اگرچہ کھل کر چین کے سامنے نہیں آنا چاہتا کیونکہ اس خفیہ و عیاں لڑائی میں بھارت کو اچھا خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔(اپنے پڑوسی،پاکستان کی مثال اس کے سامنے ہے جس نے دوسروں کی جنگ میں شامل ہوکر بہت نقصان اٹھایا)اسی لیے مودی حکومت ٹرمپ سرکار کی تمام پالیسیوں پر آمنا صدقاً بھی نہیں کہنا چاہتی۔مثال کے طور پر مودی حکومت روس سے ایس۔400 جدید ترین میزائل خریدنا چاہتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہوا تو بھارت پر امریکی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ امریکی کانگریس نے اگست 2017ء میں ایک بل (CAATSA) منظور کیا تھا۔ اس کی رو سے جو ممالک روسی کمپنیوں سے کاروبار کریں گے، ان پر امریکی معاشی پابندیاں لگ جائیں گی۔

اس کے علاوہ بھارت ایران سے بھی تجارتی تعلقات توڑنے کو تیار نہیں۔ بھارت بڑی مقدار میں ایرانی تیل خریدتا ہے۔ کچھ عرصے سے اس مقدار میں کمی آگئی ہے لیکن بھارت ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کے حق میں نہیں۔جبکہ ٹرمپ حکومت مودی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایران سے معاشی تعلقات توڑ لے۔بھارت نے ایران سے تجارتی رشتہ برقرار رکھا تب بھی امریکی کمپنیاں آزادی سے بھارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکیں گی۔

روس اور ایران کی سمت بھارت کے بدستور جھکاؤ کی وجہ سے ہی ٹرمپ حکومت مخمصے کا نشانہ بن چکی۔گو وہ نت نئے عسکری و سول معاہدے کر کے بھارتی حکمرانوں کو رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی۔اسی باعث اب امریکی حکمران طبقہ کو احساس ہو چکاکہ براعظم ایشیا میں بہ لحاظ آبادی چوتھا بڑا ملک،پاکستان بھی اہم اتحادی ہے اور اس کے ساتھ زیادہ بگاڑ مناسب نہیں۔ یہی وجہ ہے، جب عمران خان کی نئی حکومت آئی تو امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان جانے کا اعلان کردیا۔ یاد رہے،کسی بھی امریکی حکومت میں صدر کے بعد وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے عہدے سے ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ٹرمپ حکومت میں یہ دونوں عہدے سابق فوجیوں کے ہاتھوں میں ہیں جو مذہبی و سیاسی لحاظ سے قدامت پسند ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے پہلے تو وزیراعظم بننے پر عمران خان کو مبارکباد دی۔ لیکن نئی پاکستانی حکومت نے ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی تو امریکی وزیر خارجہ نے دو پاکستان مخالف اعلان داغ دیئے۔ پہلے دھمکی دی کہ امریکہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ نہیں لینے دے گا۔

 

پھر امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے 300 ملین ڈالر روکنے کا بیان دے ڈالا۔ اس طرح نئی پاکستانی حکومت کو ترغیبات دینے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئیں۔کچھ عرصہ سے ترکی بھی امریکا کے معاشی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ معاشی حملے اس لیے ہوئے کیونکہ ایران کے خلاف محاذ میں ترکی نے امریکا کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ کہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری امریکی جنگ میں ترکی امریکا کا اتحادی رہا ۔لیکن اس جنگ نے ترکی کو معاشی طور پر خاصا نقصان پہنچا دیا۔ لاکھوں شامی مہاجرین نے ترکی میں ڈیرے ڈال دیئے۔ پھر شام کے ساتھ ترکی کی طویل سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ لہٰذا ترکی اب امریکی حکمرانوں کی خاطر ایران کے ساتھ لڑائی مول لینے کو تیار نہیں۔

ترکی کو جُھکانے کی خاطر ٹرمپ حکومت نے ترک مال تجارت پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس عمل سے ترک کرنسی کی قدروقیمت گرگئی اور مقامی معیشت کو خاصا نقصان پہنچا۔ امریکا کے معاشی حملے کو تاہم ترک معیشت برداشت کرگئی۔ وجہ یہ ہے کہ صدر طیب اردوان نے پچھلے پندرہ سولہ برس میں معقول معاشی پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم بنا دیا ہے۔ٹرمپ حکومت ایران پر بھی معاشی حملے کررہی ہے۔ امریکا، یورپی یونین اور ایران نے مل کر جولائی 2015ء میں ایٹمی معاہدہ کیا تھا۔

مقصد یہ تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کا اپنا پروگرام منجمد کردے۔ مئی 2018ء میں ٹرمپ حکومت نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اگلے ہی دن ایرانی کرنسی کی قیمت گرگئی۔ تاہم یورپی یونین نے یہ معاہدہ برقرار رکھا ہے، اس باعث ایرانی معیشت کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ مگر ٹرمپ حکومت اقوام متحدہ کی وساطت سے ایران پر نئی عالمی پابندیاں لگانے میں کامیاب رہی تو ایرانی معیشت گھمبیر مسائل کا نشانہ بن سکتی ہے۔

ترکی اور ایران پہ امریکا کے معاشی حملوں کا ایک بڑا مقصد اپنے آقا،اسرائیل کو تقویت پہنچانا بھی ہے۔امریکی و اسرائیلی حکمران اپنی خفیہ و عیاں چالوں سے قطر و شام کے علاوہ اکثر عرب ممالک کو کم ازکم غیر جانب دار ضرور بنا چکے۔ ترکی و ایران لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی وجہ سے اسرائیل کے کٹر مخالف ہیں۔امریکی حکمران دونوں اسلامی ملکوں پر معاشی حملے کر کے انھیں اتنا ناتواں بنانا چاہتے ہیں کہ وہ عسکری لحاظ سے اسرائیل کے لیے خطرہ نہ رہیں۔

امریکا کے نئے طرز جنگ،معاشی حملوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر چین،روس اور ان کے ہمنوا ممالک مختلف تدابیر پر غور کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ دیگر ملکوں سے تجارت ڈالر کے بجائے اپنی قومی کرنسی یا دیگرکرنسیوں مثلاً چینی ین یا یورپی یورو میں کی جائے۔ڈالر نے امریکا کو سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈالر کی کمزوری اسے بھی کمزور کر دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔