ہم نے الطاف حسین کو اِن کی عدم موجودگی میں ’ایم کیو ایم‘ کا قائد بنایا، سید امین الحق

رضوان طاہر مبین / عرفان علی  اتوار 14 اکتوبر 2018
ایم کیو ایم کے بانی راہ نما اور مرکزی ترجمان سید امین الحق سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

ایم کیو ایم کے بانی راہ نما اور مرکزی ترجمان سید امین الحق سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

ایم کیو ایم (پاکستان) کے مرکزی راہ نما اور ترجمان سید امین الحق سے وقت لے کر اُس دن ہم ایم کیو ایم کے مرکز پہنچے، تو عام انتخابات کی آمد آمد تھی، یہ وضاحت کرتے چلیں کہ دراصل ہمارا یہ انٹرویو دو حصوں میں ہوا، (اس کا حصۂ دوم ہماری کچھ ناگزیر وجوہات کے سبب گذشتہ دنوں ہو پایا) ایم کیوایم کے سابق راہ نما سلیم شہزاد سے متعلق تمام گفتگو اُن کے انتقال سے پہلے کی بیٹھک میں ہی ہوئی۔

’’میرا نام امین الحق ہے، وہاں کسی سے بھی پوچھ لینا!‘‘ دوران گفتگو پانی کے ٹینکر والے کو وہ اپنے گھر کا مفصل پتا سمجھا رہے تھے، وسیع مہمان خانے کے ایک کونے میں کچھ افراد محو گفتگو تھے۔۔۔ مرکزی راہ نما فیصل سبز واری بھی یہاں فائلیں اور لیپ ٹاپ اٹھائے آتے جاتے، پھر ایک مذہبی جماعت کا وفد ایم کیوایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کرنے آیا، مہمان وفد کی بہ آواز بلند گفتگو ہماری بات چیت میں مخل ہوئی تو وہ ہمیں دوسری منزل پر ’الیکشن سیل‘ میں لے گئے، جہاں انتخابی حلقوں کی وضاحت کرتے بڑے بڑے نقشے آویزاں تھے، انہوں نے یہاں موجود ارکان سے آواز دھیمی رکھنے کو کہا اور یوں ہم نے اطمینان سے اپنی گفتگو کی، اس دوران علی رضا عابدی اور اسامہ قادری بھی آتے جاتے رہے۔

سید امین الحق ایم کیو ایم کی تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں، بانی رکن اور پہلے سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے انہوں نے بہت سے نشیب وفراز جھیلے۔۔۔ اس لیے ہم نے اُن سے ماضی سے حال اور مستقبل تک کی بہت سی باتیں کھوجیں، جس کا زیادہ تر انہوں نے خندہ پیشانی اور تفصیل سے جواب دیا۔۔۔ کہیں جواب دشوار ہوتا تو وہ کچھ توقف کرتے، اور پھر اپنا محتاط یا مختصر موقف بیان کرتے۔ سیاسیات کے طالب علم کے طور پر ہم اپنی اس کاوش میں کس قدر کام یاب ہو سکے، اس کا جواب تو آپ اگلی سطریں پڑھ کر ہی دے سکیں گے۔

امین الحق یکم جنوری 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ تین بھائی اور دو بہنیں، والد بینک میں ملازم رہے۔ ناظم آباد اور دستگیر میں رہائش رہی، گزشتہ 40 برس سے گھر فیڈرل بی ایریا میں ہے۔ میٹرک 1977ء میں فیڈرل اسکول ناظم آباد اور 1981-82ء میں جناح کالج سے ’بی ایس سی‘ کیا، 1979ء میں سیکنڈ ایئر میں ’اے پی ایم ایس او‘ سے وابستہ ہوئے، تو آتے جاتے لوگ پھبتی کستے ’دیکھو بھئی مہاجر آگیا!‘

1980ء میں امین الحق جناح کالج کے یونٹ انچارج بنے، کہتے ہیں کہ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کا طوطی بولتا تھا، اکثر ہمارے پوسٹر اور بینر پھاڑے دیے جاتے، ’تھنڈر اسکواڈ‘ کی مار پیٹ بھی رہتی، مگر ہم عدم تشدد پر کاربند رہے۔ جذبہ اتنا تھا کہ ہم ٹیوشنیں پڑھا کر پیٹرول، بینر، ہینڈ بل یا پوسٹر وغیرہ پر خرچ کرتے۔

امین الحق بتاتے ہیں کہ 1979ء میں کم تعداد کے سبب جناح کالج کے یونین چناؤ میں حصہ نہ لیا، تاہم جامعہ کراچی میں اس برس ہمیں 100 ووٹ ملے، جو بڑی بات سمجھی، کیوں کہ وہاں ہم مختلف کالجوں سے جاکر اپنی تعداد بڑھاتے۔ کہتے ہیں کہ وہ 1981ء میں وہ ’اے پی ایم ایس او‘ کے مرکزی سیکریٹری نشر واشاعت بنے، خبریں بنا کر تپتی دوپہروں میں اخبارات میں دے کر آتے، جو دو یا تین سطر میں چھَپتی۔ چھوٹے سے چھوٹے اخبار میں بھی خبریں بھیجتے، تاکہ ہر طبقے تک بات پہنچے۔ 1983ء میں ’ایم ایس سی‘ شعبہ جینیات (Genetics) جامعہ کراچی میں داخلہ لیا، یہ سلسلہ ایک سمسٹر بعد منقطع ہوگیا، پھر 1987ء میں جامعہ کراچی سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے (تاریخ) کیا، اور وہاں فعال سیاست بھی کی۔ اس دوران ’ایم کیو ایم‘ کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور ’اے پی ایم ایس او‘ کے نگراں بھی رہے۔

ابتدائی سیاسی ایام کو یاد کرتے ہوئے امین الحق کہتے ہیں 1979-80ء میں فیڈرل بی ایریا میں واقع مشہور ’مکا چوک‘ کے قریب ایک چورنگی ہمارے رابطے کا واحد وسیلہ تھی، جہاں ہفتے میں چار مرتبہ ’اے پی ایم ایس او‘ کی بیٹھک ہوتی۔ جب ہم نے علاقوں میں کام کرنے کا فیصلہ کیا، تو ترجیحاً پہلا دفتر لیاقت آباد میں فردوس سنیما کے پچھلی طرف لیا، پھر پیر الٰہی بخش کالونی، اورنگی ٹاؤن، النور سوسائٹی اور لانڈھی میں ہمارے یونٹ بنے۔ 1983ء کے وسط یا آخر میں الطاف حسین گرین کارڈ کے سلسلے میں شکاگو (امریکا) چلے گئے۔ البتہ وہ ان کے مایوس ہو کر روانگی کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ صرف امیگریشن کے باعث گئے۔ ہم نے بھی انہیں کہا تھا کہ آپ یہ موقع نہ گنوائیں، ہم اپنا کام آگے بڑھا لیں گے۔

امین الحق ایم کیوایم کے قیام میں بزرگوں کے کردار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اختر رضوی، رئیس امروہی اور احمد الطاف سے ہماری مشاورت رہتی تھی، لیکن ان ایم کیوایم کی تاسیس میں ان کا کوئی کردار نہیں، اس لیے ہم انہیں بانیوں میں شامل نہیں کہہ سکتے۔ اُن کے بقول ’ایم کیوایم کے قیام کے لیے ’اے پی ایم ایس او‘ قیادت کی بیٹھکیں لیاقت آباد میں فہیم فاروقی یا عظیم فاروقی کے گھر کی چھت پر ہوتی تھیں۔ 18 مارچ 1984ء کو عظیم احمد طارق، طارق جاوید، ڈاکٹر عمران فاروق، ایس ایم طارق، طارق مہاجر، بدر اقبال، سلیم شہزاد، زرین مجید، شیخ جاوید، آفاق احمد اور عامر خان سمیت 18، 20 نوجوانوں نے ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ بدقسمتی سے الطاف حسین موجود نہ تھے۔ ہم نے اُن کی عدم موجودگی میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ’قائد تحریک‘ ہوں گے۔ 19 مارچ کے ’جنگ‘ کی دو سطری خبر میں یہ لکھا ہے۔‘

’’پھر تو وہ ’اے پی ایم ایس او‘ کے بانی ہوئے، لیکن ایم کیو ایم کے تو نہیں؟‘‘ ہماری اِس حیرانی پر امین الحق بولے: ’’یہ تاریخ طے کرے گی، میں نے تو حقائق بتا دیے۔‘‘ انہوں نے الطاف حسین کی امریکا میں ٹیکسی چلانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انہیں فون پر تمام تنظیمی معاملات سے باخبر رکھتے اور وہ ہمیں آگے بڑھاتے۔‘

ہم نے پوچھا کہ ’اے پی ایم ایس او‘ میں ’چیئرمین‘ سب سے بڑا عہدہ تھا، لیکن ’ایم کیو ایم‘ میں اس سے اوپر ’قائد تحریک‘ اور اس کے لیے الطاف حسین کو رکھنے کی کیا وجہ تھی؟ وہ بولے ’اس لیے کہ 11 جون 1978ء کو ہماری طلبہ تنظیم بنی، تو الطاف حسین ہی اس کے پہلے آدمی تھے۔‘ اخبارات میں جگہ نہ ملنے کی شکایت کرتے ہوئے امین الحق کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی تشہیر کے لیے شہر بھر میں چاکنگ کی: ’’مہاجر قومی موومنٹ، (ایم کیوایم) قائد تحریک الطاف حسین‘‘

1985ء میں بشریٰ زیدی والے واقعے پر امین الحق بولے اُس وقت ’ایم کیو ایم‘ کا چھوٹا مگر ایک فعال ڈھانچا تھا، ہم نے بشریٰ زیدی کے جنازے میں شرکت کی، بیانات دیے اور ہینڈ بل تقسیم کیا۔ ہم پہلے ہی کوٹا سسٹم اور مختلف موضوعات پر ہینڈ بل بانٹ رہے تھے۔ اس واقعے میں ایم کیو ایم کا کردار پوچھا تو وہ بولے کہ اس وقت تو ایم کیو ایم خود بہت کَس مپرسی کی حالت میں تھی۔ ہم نے اِس تشدد میں ایم کیوایم کے لوگوں کا حصہ جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ شہریوں میں محرومی کے سبب اشتعال پیدا ہوا۔

کارکنوں کو تشدد یا ’سیلف ڈیفنس‘ کا اختیار دینے کا ذکر ہوا تو امین الحق بولے ایم کیو ایم نے کبھی تشدد کی بات نہیں کی، جب علی گڑھ کالونی میں درجنوں گھر جلے اور سیکڑوں لوگ جان سے گئے، لیکن پولیس نہ آئی، تو ایسے میں ہر ایک کو اپنے تحفظ کا حق ہے۔‘ ہم نے الطاف حسین کی ’گھر کا سامان بیچ کر اسلحہ خریدو!‘ والی بات کا ذکر کیا تو امین الحق نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں، کچھ اس طرح کے نعرے تھے، تب صورت حال ایسی تھی، لیکن ہم نے یہ کہا کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

’’اس ’دفاع‘ کے سبب پھر پرتشدد ردعمل کی عادت ہوگئی، جس نے پھر آپ کو بھی نقصان پہنچایا؟‘‘ ہمارے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں نے اپنے طور پر حقِ دفاع استعمال کیا، مگر اس سے پھیلنے والی منفیت کو ہم نے روکنے کی کوشش بھی کی۔‘

’’کیسے؟‘‘ ہمارا تجسس بے ساختہ تھا، وہ بولے کہ ’ہم نے کارکنان کو یونٹ اور سیکٹر کا ماتحت کیا، بلدیاتی انتظامیہ ملی تو اس کی مدد بھی لی، لیکن عوامی ردعمل روکنا کسی کے اختیار میں نہیں رہتا۔‘ ہم نے کہا کہ یونٹ اور سیکٹر کے لڑکوں کے پُرتشدد ہونے کا تاثر تو اور بھی زیادہ تھا تو وہ بولے کہ ’ایسی پالیسی بالکل نہیں تھی۔‘

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پھر وہی کارکن دھیرے دھیرے آپ کا تاثر خراب کرتا گیا، آج آپ جہاں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ اسی کی تو شروعات تھی؟‘ ہم نے امین الحق کو کھوجنے کی کوشش کی تو انہوں نے اتنا کہا کہ ہم نے اس کی روک تھام کی کوشش کی۔

امین الحق کے بقول 1988ء کے ’معاہدۂ کراچی‘ کے لیے مذاکرات میں پیپلزپارٹی کی طرف سے پی کے شاہانی اور اجمل دہلوی، جب کہ ایم کیو ایم کی طرف سے وہ اور ڈاکٹر عمران فاروق تھے، جس کے بعد ہم نے صرف حکومت سندھ میں تین وزارتیں لیں۔ 10ماہ بعد یہ اتحاد اور پھر حکومت ختم ہوگئی۔ 1990ء کے انتخابات میں ہم نے پہلے سے زیادہ نشستیں لیں۔ اس مرتبہ ’آئی جے آئی‘ (اسلامی جمہوری اتحاد) سے مذاکرات میں بھی عظیم طارق اور عمران فاروق کے ساتھ وہ شامل رہے، جب کہ دوسری طرف نوازشریف، عبدالستار لالیکا اور زاہد سرفراز تھے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد وفاق میں دو اور صوبے میں سات یا آٹھ وزارتیں ملیں۔

نوازشریف کے ساتھ پہلی ساجھے داری پر امین الحق خاصے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ وہ دور تھا کہ جب ایم کیو ایم نے کچھ کر کے دکھایا۔‘‘ ہم نے پوچھا ’’کیا۔۔۔؟‘‘ تو بولے ’بڑے پیمانے پر شہری علاقے کے لوگوں کو ملازمتیں دلوائیں۔ اسکولوں کی بہتری اور جامعات کے قیام کی کوششیں کیں، ’کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ ڈاکٹر فاروق ستار میئر کراچی تھے، اسی دور میں عید گاہ (ناظم آباد) میں ملک کا پہلا فلائی اوور بنایا گیا۔ ‘ الطاف حسین سے ملاقات کا سوال کیا تو پتا چلا کہ وہ اُن کے لندن روانگی کے بعد سے نہیں ملے، بولے ’’ایم کیو ایم میں واپسی کے بعد میری خواہش ضرور تھی، لیکن بدقسمتی سے میں لندن نہیں جا سکا، البتہ فون پر رابطہ رہا۔‘‘

2008ء کے بعد ’نائن زیرو‘ پر نئے ذمہ داروں کے غالب ہونے کا ذکر ہوا، جنہیں بگاڑ کا ذمہ دار کہا جاتا ہے تو انہوں نے وسیم آفتاب، شکیل عمر، نیک محمد اور سلیم تاجک پر چائنا کٹنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

’’تو کیا مرکز کے پاس اس کی خبریں نہیں آتی تھیں؟‘‘

وہ کہتے ہیں کہ سارے کرتا دھرتا یہی لوگ تھے، سنیئر راہ نما پس منظر میں اور بہت سے بے خبر تھے۔ ہم نے کہا چائنا کٹنگ ایک دو جگہ ہو تو نظر نہ آئے، لیکن اگر پانچ جگہ ہو تو کسی ایک جگہ تو علم میں آ ہی جائے گی؟ یہ بات مرکز یا ’انٹرنیشنل سیکریٹریٹ‘ نہیں پہنچتی تھی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال ہے پہنچتی ضرور تھی، لیکن ’کمال اینڈ انیس قائم خانی کمپنی‘ کے قابض ہونے کے سبب کوئی کارروائی نہ ہو پاتی۔ بالآخر ہم نے 2013ء میں ان لوگوں کو نکالا۔‘‘

2013ء کے انتخابات کے فوراً بعد بعد ’نائن زیرو‘ پر پیش آنے والے ایک پُرتشدد واقعے کا ذکر کیا، جس میں مبینہ طور پر مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور واسع جلیل وغیرہ کے ساتھ مارپیٹ ہوئی۔ امین الحق اِسے انتخابات میں مخصوص لوگوں کو ٹکٹ دینے پر کارکنان کی برہمی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد نئی رابطہ کمیٹی بنی اور چائنا کٹنگ کے معاملات کم اور پھر ختم ہوئے۔‘ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ مصطفیٰ کمال کو تو نہیں ہٹایا گیا تھا؟ تو وہ بولے کہ ان کی حیثیت غیر فعال ہوگئی تھی۔

25 جولائی 2018ء کو تحریک انصاف سے شکست کھاکر انہی سے اتحاد کے ماجرے کو وہ جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنا مثبت کردار کہتے ہیں کہ ’ہم نے کسی وزارت کا مطالبے کے بہ جائے شہری ترقی، اسیروں کی رہائی اور لاپتا کارکنان کی بازیابی کے ساتھ اس عزم کو بھی سمجھوتے کا حصہ بنایا کہ ہم انتخابات پر تحفظات کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی کریں گے، پھر ہمارے ایک درجن کے قریب لاپتا کارکنان بازیاب ہوئے، اب بھی 230 گرفتار اور 100 کارکن لاپتا ہیں۔‘

22 اگست 2016ء کو امین الحق ایم کیو ایم کی تاریخ میں 19 جون 1992ء سے بھی زیادہ سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے خلاف نہیں جا سکتے! الطاف حسین نے ریاست مخالف نعروں پر بے شک معذرت کی، لیکن 24 اگست کو پھر یہی کیا۔‘

گفتگو کا موضوع اب مائنس ون تھا، ہم نے کہا 1991ء کے بعد تواتر سے ایم کیو ایم میں ’مائنس ون‘ کا غلغلہ رہا، جس کی آپ لوگ مخالفت کرتے اور اب خود ہی یہ کر دیا؟ اس کی توجیہہ میں امین الحق گویا ہوئے کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان کے آئین وقانون میں رہ کر حقوق لینا ہیں۔ 22 اگست کے بعد کی ہماری جدوجہد سے ہی سیکڑوں کارکن رہا ہوئے۔‘ ہم نے کہا ’اس سے تو یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ پچھلی ساری مشکلات آپ کو لندن سے کاٹنے کے لیے ہی تھیں؟‘ وہ بولے ’ہماری خواہش یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں ہونا چاہیے۔‘

تو آپ کو لگتا ہے کہ الطاف حسین پاکستان کے خلاف ہیں؟ ہم نے براہ راست پوچھ ڈالا۔

’’میں یہ نہیں کہہ رہا بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی کو بھی تقریر کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے واضح جواب دیا۔ یک دم ہمارے ذہن میں الطاف حسین کے پچھلے سخت بیانات آئے تو دریافت کیا کہ کبھی اس کی روک تھام چاہی؟ وہ بولے کہ کراچی اور لندن کی رابطہ کمیٹی نے انہیں ہمیشہ روکا، وہ کہتے کہ ’آیندہ اجتناب کروں گا!‘

’اتنی اجازت تھی کہ انہیں کہہ سکیں کہ یہ آپ نے غلط کیا؟‘ ہماری حیرت بے ساختہ تھی، وہ اثبات میں جواب دیتے ہیں کہ ’’بالکل، پھر انہوں نے براہ راست یا اپنے وکیل کے ذریعے معذرتیں بھی کیں۔‘‘

ہم نے الطاف حسین پر سے پابندی ہٹنے کے بعد موجودہ ایم کیوایم کے مستقبل یا دوبارہ قائد سے جُڑنے کا سوال کیا تو انہوں نے ایم کیوایم (پاکستان) کو ایک حقیقت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ چیز قبل ازوقت ہے، فی الحال ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔‘‘

کارکنان کی الطاف حسین سے جذباتی وابستگی کے باوجود قائد کی نفی کرنا کیسے ممکن ہوا؟ امین الحق اسے ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے بولے کہ ’عوام ایم کیو ایم کی سوچ اور منشور کے ساتھ ہیں۔‘ ہم نے کہا ’لندن‘ کے حلقے کہتے ہیں کہ نازیبا الفاظ تو دوسروں قائدین نے بھی کہے، لیکن اُن کی جماعتوں نے ساتھ نہ چھوڑا، لیکن آپ آرٹیکل چھے کی قرارداد لے آئے؟ وہ بولے کہ پاکستان کے خلاف تو کوئی سیاسی جماعت نہیں سن سکتی۔ سندھ اسمبلی میں آرٹیکل چھے کی قرارداد دوسری جماعتیں لائیں، ہم نے خاموشی اختیار کی۔‘

امین الحق ایم کیو ایم کے اندر کسی بھی گروہ کی تردید کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے مرکزی معاملات سے دوری کے ذکر پر وہ انہیں اپنا سنیئر راہ نما قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں، کہ وہ ہماری مشاورت میں شامل ہوتے ہیں، اِن کے تحفظات کو تنظیم کے اندر ہی حل کریں گے۔ سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کا استعفا ابھی منظور نہیں کیا، ہم ان سے بات چیت کر کے معاملے کو مثبت طریقے سے حل کریں گے۔ سابق راہ نما شاہد پاشا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 22 اگست کے بعد وہ ڈپٹی کنوینر نہ تھے، انہیں نظم وضبط کی خلاف ورزی پر خارج کیا۔ سابق ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر نصرت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ کسی تنظیمی عہدے پر نہیں، مگر ہمارے رابطے میں رہتے ہیں۔

ایک سال قبل ’پاک سرزمین پارٹی‘ میں جانے والے ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ کو نہ ہٹانے کا سبب پوچھا تو بولے کہ ’فاروق ستار نے الیکشن کمیشن میں پٹیشن دی تھی، اُن کے کنوینر نہ رہنے سے تاخیر ہوئی، اب ارشد وہرہ کے خلاف خالد مقبول کی پٹیشن جا چکی ہے، قانوناً ہم ڈپٹی میئر کو رائے شماری سے نہیں ہٹا سکتے۔‘

سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے حوالے سے امین الحق نے بتایا کہ ’2012ء اور 2013ء سے اُن میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور وہ ایم کیو ایم کے کم اور اسٹیبلشمنٹ کے آدمی زیادہ بن گئے۔‘ سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان کے ایم کیو ایم پر غالب آنے کی بات کو وہ پروپیگنڈہ کہتے ہیں۔

مارچ 2015ء میں ’نائن زیرو‘ پر چھاپے اور  22اگست 2016ء کے واقعے میں عامر خان کے کردار کو کھوجا تو امین الحق نے کہا کہ ’صرف ایک مخصوص چینل نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ 22 اگست کو بھی عامر خان نے الطاف حسین کا اشتعال کم کرنے کی کوشش کی، اگر پوری ویڈیو دکھائی جائے، تو مکمل بات واضح ہو جائے گی۔‘

امین الحق 1988ء، 1990ء کے بعد 2018ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ دو بار کورنگی اور اب حلقہ انتخاب اورنگی ٹاؤن ہے۔ موجودہ ذریعہ آمدن گاڑیوں کا کام بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹیکس دہندہ ہوں۔ 1991ء میں جلاوطنی تک ’دستگیر‘ کے علاقے میں میڈیکل اسٹور تھا۔ دبئی میں گاڑیوں کا کام شروع کیا۔ 25 نومبر 1995ء کو شادی ہوئی، بڑی صاحب زادی اے لیول کر چکیں، دوسری او لیول میں جب کہ صاحب زادے گریڈ 6 میں ہیں۔

جب الطاف حسین کو اٹھا کر جامعہ کراچی سے باہر نکالا گیا!

امین الحق نے تصدیق کی کہ یونین انتخابات میں کام یابی کے بعد تین فروری 1981ء کو ایک تصادم کے بعد الطاف حسین کی ڈنڈا ڈولی کرا کے جامعہ کراچی سے نکال دیا گیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ اس روز وہ بھی حسب معمول جناح کالج سے جامعہ کراچی پہنچے۔ جہاں عظیم طارق ڈٹے تھے، اس دن پہلی بار ہم نے جامعہ کراچی میں ’یو بی ایل‘ کے سامنے ایک بجے پوائنٹس روکے اور ایک بس پر چڑھ کر عظیم طارق نے پرزور تقریر کی، جس کے الفاظ یہ تھے: ’’اے اللہ! تو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، یہ ظلم ختم کرا!‘‘

پھر اگلے دن بھی عظیم طارق کی قیادت میں ہمارے طلبہ جامعہ کراچی کے اندر موجود تھے، لیکن اس کے بعد تشدد کا سلسلہ بڑھا، اردو سائنس کالج اور جناح کالج میں بھی جمعیت کی طرف سے ہمارے یونٹ بند کرا دیے گئے۔ جامعہ کراچی میں ہمارے بیج کے ساتھ داخل ہونا تک ممنوع ہو گیا، کہتے ہیں کہ مرکزی دروازے پر جمعیت کے لڑکے ہمیں پہچان کر روک لیتے اور مار پیٹ کرتے۔ اس صورت حال میں ’اے پی ایم ایس او‘ نے تعلیمی اداروں کے بہ جائے علاقوں میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

اخبار کے بائیکاٹ پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں!

ایم کیو ایم کے سربراہ شعبہ اطلاعات امین الحق سے صحافیوں کو دھمکا کر ایم کیو ایم کی خبریں لگوانے کا سوال بھی پوچھا، جس پر وہ بولے کہ اُس وقت کی نوجوان قیادت سے کہیں نہ کہیں کوتاہیاں ہوئیں، اسی سے سبق سیکھتے ہوئے اب تنقید برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ’’کیا پہلے سخت انداز میں کہتے تھے کہ ہماری خبر اِس طرح چَھپنا چاہیے؟‘‘ ہم نے کریدا۔ وہ سوچتے ہوئے بولے کہ ’میں نے کبھی ایسی گفتگو نہیں کی، لیکن ہمارے کچھ افراد ایسا کر رہے تھے۔‘ ان کے خلاف کارروائی کے سوال پر وہ بولے کہ وہ اس معاملے کو سدھارنے کی کوشش کرتے تھے۔ لگے ہاتھوں ہم نے 1990ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کی جانب سے ایک اخبار کے بائیکاٹ کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ ’صحافت میں جماعت اسلامی کی مضبوط لابی کے سبب ہمیں شہر کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود نظرانداز کیا جاتا تھا، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ہمیں سرخ لکیر پار نہیں کرنا چاہیے تھی، اس عمل پر کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ شرمندگی محسوس کرتا ہوں!‘

ورنہ ’’ایم کیوایم‘‘ نہیں ’’ایم آئی ٹی‘‘ ہوتی۔۔۔!

امین الحق نے کہا کہ میں آج میں پہلی دفعہ یہ انکشاف کررہا ہوں کہ پہلے ہم نے اپنی سیاسی جماعت کا نام ’مہاجر اتحاد تحریک‘ طے کیا، لیکن ہماری بات باہر نکلی اور اگلے دن ہی ڈاکٹر سلیم حیدر نے اس نام سے اپنی تنظیم بنالی! چناں چہ عظیم احمد طارق نے تنظیم کا نیا نام ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (ایم کیو ایم) تجویز کیا، انگریزی اور اردو کی ملاوٹ کے سبب کچھ ساتھی معترض بھی ہوئے، مگر چوں کہ عظیم طارق نے پیش کیا تھا، اس لیے قبول کرلیا۔ امین الحق کے بقول سلیم حیدر سندھ میڈیکل کالج میں ’اے پی ایم ایس او‘ کے بہت اچھے مقرر رہے، مگر 1982ء میں نظم وضبط کی خلاف ورزی پر نکالے گئے۔

 ’’الطاف حسین، عامر خان اور عظیم طارق میری گاڑی میں آئے‘‘

جب ہمارا دفتر الکرم اسکوائر منتقل ہوا تو ہم نے اُس وقت کے تین اضلاع پر تین زون ’اے، بی اور سی‘ بنائے۔ زون اے کے انچارج آفاق احمد، بی کے شاہد مہاجر اور سی کے انچارج عامر خان بنے، حیدرآباد زون کے انچارج کنور نوید ہوئے۔ مختلف شہروں میں ہماری میٹنگوں میں حاضرین بڑھنے لگے تو ہم نے آٹھ اگست 1986ء کو کراچی میں باقاعدہ ایک جلسے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے ہم نے ہر زون کے تحت سیکٹر اور اس کے نیچے یونٹ بنائے۔

یہ تمام معاملات سینئر وائس چیئرمین طارق جاوید اور جنرل سیکریٹری عمران فاروق وغیرہ دیکھا کرتے تھے۔ دوسری جماعتوں کے جلسوں میں جاکر ضروری انتظامات کا جائزہ لیتے۔ ایک نوآموز سیاسی جماعت کے لیے نشتر پارک کو بھرنا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ تینوں زون نے حاضرین کو لانے کے اہداف طے کیے۔ شہر بھر میں بھر پور چاکنگ کی، پوسٹر لگائے اور ہینڈ بل تقسیم کیے، کیوں کہ اخبارات میں تو ہماری آرزو رہ گئی تھی کہ کبھی کوئی خبر دو کالم بھی شایع ہو جائے۔ مختلف تنظیمی ترانے بناکر ہوٹلوں اور کیمپوں میں چلائے۔‘ ہم نے گفتگو میں نقب لگا کر ایم کیوایم کا پہلا ترانہ پوچھا؟ تو وہ یادداشت پر زور دیتے ہوئے بولے ’’غالباً ’دل دیا ہے جان بھی دیں گے ایم کیوایم تیرے لیے۔۔۔‘‘

امین الحق کہتے ہیں کہ مرکزی قیادت کے پاس جلسہ گاہ پہنچنے کے لیے اسکوٹروں کے سوا کوئی سواری نہ تھی۔ اس لیے الطاف حسین عامر خان کے والد کی گاڑی ڈاٹسن 125 میں، جب کہ عظیم طارق میرے والد کی مزدا 1300 میں جلسہ گاہ پہنچے۔ جلسے میں خواتین سمیت بہت بڑی تعداد شریک ہوئی، جو موسلا دھار بارش کے باوجود جمی رہی۔ آٹھ اگست کو ایک اخبار‘ کے ’سٹی‘ کے صفحے پر جلسے کے انعقاد کی چار سطری خبر چَھپی، جب کہ اگلے دن ہماری خبر صفحۂ اول پر چار کالم لگی۔ کام یاب جلسے کے بعد ہمیں لونڈے لپاڑوں کی جماعت کہنے والے پہلی بار سنجیدہ ہو گئے۔‘

1993ء میں عامر خان اور میں ایک ہی پرواز میں دبئی گئے!
’’حقیقی کا بحران کیسے شروع ہوا۔۔۔؟‘‘

ہمارے اس سوال پر کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے، پھر وہ کہتے ہیں کہ ’طاقت کا نشہ بہت برا ہوتا ہے، اسی سے خرابیاں شروع ہوتی ہیں۔ ہمارے کچھ ساتھی جمہوری طریقۂ کار کے بہ جائے طاقت کے استعمال کو فوقیت دینے لگے تھے۔ ‘

ان لوگوں میں انہوں نے سلیم شہزاد کا نام لیا اور کہا کہ اقتدار ملنے کے بعد ان کے اندر عاجزی کے بہ جائے غرور وتکبر آگیا، وہ راہ چلتے لوگوں کو چانٹے مار دیتے، انہوں نے بیوروکریسی میں بے جا مداخلت کی اور طاقت کے بل پر کام کرانے شروع کیے۔‘

امین الحق نے ذہن پر زور دیتے ہوئے 1991ء میں شاہ راہ فیصل کے ایک واقعے کا ذکر کیا کہ جب سلیم شہزاد نے کسی فوجی افسر کے ساتھ بدتمیزی کی، اور ایم کیوایم کے ایک اور وزیر ہاشم علی نے بھی کچھ ایسا ہی فعل کیا۔ اس کی ’ایف آئی آر‘ کٹی اور بلکہ مقتدر حلقوں نے شدید ناراضی ظاہر کی اور پھر انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کی۔

’’ایک اختلاف ہوا جس پر آفاق اور عامر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ امین الحق سرسری سے گزرنے لگے تھے کہ ہم نے اس حوالے سے نائن زیرو کے ایک ناخوش گوار واقعے کی بازگشت کہی، کہ اگر عظیم طارق معاملہ رفع دفع نہ کراتے تو کوئی سانحہ ہو جاتا؟ انہوں نے کہا ’میرے علم میں نہیں۔‘

وہ آفاق احمد اور عامر خان کی جانب سے نائن زیرو پر اسلحے کے استعمال کی کوشش اور سلیم شہزاد کے آڑے آنے کے کسی واقعے کی نفی کرتے ہوئے اظہارخیال کرتے ہیں کہ آفاق اور عامر کو تنظیم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ پارٹی کے مفاد میں ملک سے چلے جائیں ، ان کی روانگی کے سارا انتظام ہم نے کیا، مگر بدقسمتی سے بہت منظم طریقے سے ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ جس کا ذمہ دار وہ سلیم شہزاد کو کہتے ہیں۔ امین الحق نے تصدیق کی کہ آفاق اور عامر کی روانگی کے اگلے روز شہر بھر میں بینر لگ گئے تھے کہ ’جو قائد کا غدار ہے۔۔۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’’آج ہمیں احساس ہوتا ہے یہ کوئی بہت اچھی چیزیں نہ تھیں!‘‘ ہم نے ایسے افعال میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا پوچھا، وہ بولے کہ عظیم طارق نے ان چیزوں کو روکنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ کام یاب نہ ہو سکے، اور ایم کیوایم کو آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔

1992ء میں ایم کیوایم کے کراچی کے دو زونل انچارج آفاق احمد اور عامر خان نے ایم کیوایم حقیقی بنائی، امین الحق تیسرے زون انچارج شاہد مہاجر کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ غیرفعال ہوگئے تھے، مگر اب ہمارے ساتھ ہیں۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ ’حقیقی‘ کی غیرسیاسی سوچ کی وجہ سے تصادم ہوا، تو ہم نے یاد دلایا کہ ’آپ بھی تو ’حقیقی‘ میں چلے گئے تھے؟‘ جس پر وہ بولے ’چند مہینے کے لیے، اس کے بعد میں 1993ء میں دبئی چلا گیا، کیوں کہ، میں نے تو کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ ’’باہر ہی جانا تھا تو ’حقیقی‘ میں گئے ہی کیوں؟‘‘ بولے کہ دسمبر 1992ء میں، وہ گرفتار ہوئے اور پھر تشدد اور دباؤ کے بعد ’حقیقی‘ میں گئے۔

’کیا رہائی کا یہی راستہ تھا؟‘ ہم نے ٹٹولا تو وہ بولے کہ حالات میرے کنٹرول میں نہیں رہے تھے۔ پھر یہ انکشاف کیا کہ عامر خان بھی ایم کیوایم اور حقیقی کے تصادم سے ناخوش تھے اور انہی کی پرواز میں دبئی گئے۔ یک دم ہمیں سلیم شہزاد کی بھی دبئی میں موجودگی یاد آئی، کبھی ملنے کا پوچھا تو تردید کرتے ہوئے بولے ’’میں آج بھی ذاتی طور پر پارٹی میں بنیادی خرابیوں کا ذمے دار انہیں سمجھتا ہوں۔‘‘

امین الحق بتاتے ہیں کہ انہوں نے دبئی میں کاروبار کیا، پھر کینیڈا گئے، 2008ء میں کراچی آکر اور ایم کیوایم میں شامل ہوگئے۔

’شامل ہوئے بغیر واپس آتے تو کیا خطرہ ہوتا؟‘ ہم نے خیال ظاہر کیا تو بولے ’نہیں، میری پہلے ہی بات ہو چکی تھی۔‘ وہ ضلع وسطی میں واقع اپنے گھر واپس آنے کے لیے ’ایم کیو ایم‘ میں لوٹنے کا تاثر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واپسی کے چھے ماہ بعد 2008ء میں ہی وہ ایم کیو ایم کے شعبۂ اطلاعات کی ذمہ داری سنبھالی اور پھر 2013ء میں رابطہ کمیٹی میں آگیا۔

89 اور ’ڈبل فور‘ سے ’نائن زیرو‘ تک۔۔۔!

امین الحق بتاتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم‘ بننے کے بعد ہم اپنی سرگرمیوں کے لیے الطاف حسین کے چھوٹے بھائی اسرار کے توسط سے اُن کی رہائش گاہ استعمال کرتے، اپریل یا مئی 1985ء میں الطاف بھائی کراچی واپس آئے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمارا کوئی دفتر ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے لیاقت آباد ڈاک خانے پر دو کمروں کا دفتر لیا، جس کا راستہ پیچھے گندی گلی سے تھا، کرایہ غالباً 400 روپے تھا، جو ہم ٹیوشنیں پڑھا کر ادا کرتے، ساتھ ہی شرط تھی کہ کوئی شور شرابہ نہیں ہوگا۔

اس لیے ہم رات میں ایک، ایک، دو، دو کر کے نکلتے، تاکہ پاس پڑوس میں کوئی شکایت نہ ہو۔ یہاں الطاف حسین اور عظیم طارق سمیت تمام ارکان نے مل کر صفائی اور سفیدی کی۔ پھر سب کی باریاں مقرر ہوئیں، جس کی ذمے داری شام کو ہوتی، تو وہ چاہے الطاف حسین ہوں یا عظیم طارق، وہ بیت الخلا سمیت تمام صفائی بھی کرتا۔ کچھ ماہ بعد 1985ء میں ہی الکرم اسکوائر میں تین کمروں کا ایک قدرے بہتر دفتر لیا۔ یہ روزانہ دوپہر دو بجے تا رات دس بجے کُھلتا، اسی دفتر میں ہم نے نشتر پارک کے آٹھ اگست 1986ء کے تاریخی کے جلسے کی تیاری بھی کی۔

اس سے پہلے ہم نے حیدرآباد، ٹنڈو جام ، لطیف آباد اور اس کے بعد سکھر میں بھی کام کیا، کیوں کہ جام شورو یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل کالج، ٹنڈوجام زرعی یونیورسٹی میں اردو بولنے والے طلبہ کو سخت مسائل کا سامنا تھا۔

ہم نے ’ایم کیو ایم‘ کا مرکز الکرم اسکوائر سے ’نائن زیرو‘ جانے کا ماجرا کھوجا تو انہوں نے بتایا کہ ’آٹھ اگست کے جلسے کے بعد ہم نے الطاف بھائی کا ڈرائنگ روم استعمال کرنا شروع کیا، پھر اُن کے اہل خانہ وہاں سے منتقل ہوگئے، تو پھر ہم نے پورا گھر لے لیا۔

ساتھ ساتھ ہم دستگیر 14 پر ایم کیو ایم کے فنانس سیکریٹری ایس ایم طارق کا گھر بھی استعمال کرتے تھے۔ الکرم اسکوائر کا دفتر فون کے آخری دو نمبروں کی بنا پر 89 کہلاتا، اسی طرح ’نائن زیرو‘ بھی فون نمبر کے آخری دو ہندسوں سے موسوم ہوا، اسی طرح ایس ایم طارق کے گھر کا آخری نمبر ’ڈبل فور‘ تھا۔ 1988ء تک جب کوئی بڑا سیاسی آدمی آتا تو ہمارے پاس دونوں دفاتر میں کوئی زیادہ معقول انتظام نہ تھا، تو ہم اسے ’ڈبل فور‘ لے جاتے، کیوں کہ اُن کا ڈرائنگ روم بہت شان دار تھا۔ البتہ خالص سیاسی بیٹھکیں ’نائن زیرو‘ پر ہوتی تھیں۔

1985ء کے انتخابات میں حافظ تقی، زہیر اکرم ندیم و دیگر نے ہماری حمایت لی!

امین الحق نے ہمیں بتایا کہ 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں ’اے پی ایم ایس او‘ نے پی آئی بی کالونی سے باقاعدہ اپنے ایک کونسلر سعید جمال کو بھی امیدوار نام زد کیا، جب کہ کراچی اور حیدرآباد کے دو درجن کے قریب آزاد امیدواروں سے اپنی حمایت کے بدلے باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ کیا کہ وہ منتخب ہو کر مہاجر حقوق کے لیے کام کریں گے۔

ہم ان کی مہم کے دوران ’جیے مہاجر‘ کے نعرے لگا کر اپنی حمایت کا اظہار کرتے۔ اِن میں صرف لانڈھی سے قیصر خان ہی جیت پائے۔ اسی طرح 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں ’ایم کیوایم‘ نے مختلف امیدواروں سے باقاعدہ ایک فارم پر دستخط کرائے کہ وہ مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کرتے ہیں اور وہ منتخب ہو کر ان کے لیے آواز اٹھائیں گے۔‘‘ کہتے ہیں کہ ان میں حافظ محمد تقی، الحاج شمیم الدین، زہیر اکرم ندیم، جاوید سلطان جاپان والے اور قیصر خان وغیرہ شامل تھے۔ یہ امیدوار کام یاب بھی ہوئے، لیکن قیصر خان کے سوا کسی نے دوبارہ ہم سے رابطے کی زحمت ہی نہ کی۔

1987ء کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے امین الحق یوں اظہارخیال کرتے ہیں کہ پوری قیادت نے روپوشی میں دورے کرکے امیدواروں کو حتمی شکل دی، کیوں کہ تب تک ہمارے چہروں سے کوئی واقف نہ تھا۔ دفاتر کی بندش کے سبب ہمارے بہت سے امیدواروں کو ’پتنگ‘ کا نشان نہ مل سکا، اس لیے ہم نے دوسرا انتخابی نشان ’تالا‘ لیا۔ بلا مقابلہ ہمارا میئر منتخب ہونے کے بعد 1988ء کے عام انتخابات کے لیے زہیر اکرم ندیم ، الحاج شمیم الدین، حافظ محمد تقی، جاوید سلطان جاپان والا، کنور اعجاز اور بیگم سلمیٰ احمد وغیرہ نے ہمارے ٹکٹ کی خواہش کی، لیکن ہم نے اپنے دیرینہ ساتھیوں کو ترجیح دی، جنہوں نے پھر شان دار کام یابی حاصل کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔