کاروباری لاگت بڑھنے سے کنفیکشنری کا کاروبار بری طرح متاثر

کاشف حسین  پير 15 اکتوبر 2018
بچوں کے کنفیکشنری آئٹم کی تیاری و فروخت میں 60 فیصدکمی آ گئی، 50  فیصد چھوٹے یونٹ بند ہو گئے، بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ فوٹو: فائل

بچوں کے کنفیکشنری آئٹم کی تیاری و فروخت میں 60 فیصدکمی آ گئی، 50  فیصد چھوٹے یونٹ بند ہو گئے، بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ فوٹو: فائل

 کراچی:  گیس کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی بے قدری نے مہنگائی اور قوت خرید میں کمی کا شکار کنفیکشنری انڈسٹری کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

کھانے پینے کی بنیادی اشیا کی طرح بچوں اور بڑوں کو لبھانے والی چاکلیٹ ٹافیاں، کینڈیز،سویٹ سپاری، نمکو آئٹمز، پاپڑ، بسکٹ سمیت دیگر اشیا بھی مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید سے باہر ہوتے جارہے ہیں، کاروباری لاگت میں اضافہ اور عوام کی سکت کم ہونے کی وجہ سے کنفیکشنری کے کاوربار کا حجم تیزی سے سکڑ رہا ہے رہی سہی کسر چینی اور ایرانی اشیا کی بھرمار نے پوری کردی ہے۔

بچوں کے کنفیکشنری آئٹم کی تیاری اور فروخت میں60 فیصد تک کمی کا سامنا ہے اور ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصے میں 50  فیصد چھوٹے یونٹ بند ہوچکے ہیں جس سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

کنفیکشنری کی مرکزی تھوک مارکیٹ کھجور مارکیٹ لی مارکیٹ میں ہے جہاں250 کے لگ بھگ دکانوں پر بچوں کی دلچسپی کی کھانے پینے اشیا فروخت کی جاتی ہیں جن میں 90 فیصد مقامی سطح پر تیار کردہ مصنوعات شامل ہیں شہر بھرکے لاکھوں چھوٹے دکاندار اور خوانچہ فروش اس بازار سے بچوں کے آئٹم لے جاکر دکانوں پر فروخت کرکے روزی کماتے ہیں۔

کنفیکشنری انڈسٹری میں بڑی کمپنیاں اپنا مال ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے فروخت کرتی ہیں جنھوں نے ڈسٹری بیوشن میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوتی ہے تاہم گھریلو سطح کے کارخانے اور فیکٹریاں اپنا مال تھوک مارکیٹ کے ذریعے فروخت کرتی ہیں کھجور مارکیٹ سے کنفیکشنری آئٹمز کراچی کے علاوہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب تک کے شہروں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

آل پاکستان کنفیکشنری ایسوسی ایشن کے چیئرمین جاوید عبداللہ کے مطابق کاروباری لاگت میں اضافہ بجلی گیس کے نرخ بڑھنے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کے قدر میں غیرمعمولی کمی سے کنفیکشنری کا کاروبار بری طرح متاثر ہورہا ہے ساتھ ہی خریداروں کو بھی مشکلات کاسنا ہے۔

کنفیکشنری آئٹمز بچوں کا دل بہلانے کے علاوہ ہلکی پھلکی بھوک کا متبادل ہیں اور مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں کاروباری لاگت بڑھنے سے ان اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور فروخت محدود سے محدود تر ہورہی ہے کراچی کے علاوہ ملک بھر میں کنفیکشنری بنانے والے ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں قائم ہیں جن میں سے 50 فیصد چھوٹے کارخانے بند ہوچکے ہیں تاجروں کا سرمایہ پھنس کر رہ گیا ہے۔

پاکستان میں تیار کردہ کنفیکشنری آئٹم جنوبی افریقہ، مشرقی افریقہ کے ممالک، متحدہ عرب امارات، نیپال بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ کے علاوہ ایران اور افغانستان کو ایکسپورٹ بھی کیے جاتے ہیں جبکہ حالات بہتر ہونے کی صورت میں بھارت بھی پاکستانی کنفیکشنری آئٹمز کی بڑی مارکیٹ ہے تاہم لاگت بڑھنے سے ایکسپورٹ بھی مشکلات کا شکار ہے گیس کی قیمت میں حالیہ اضافہ اور کمرشل کنکشن کا حصول دشوار ہونے کی وجہ سے صرف گیس کی قیمت بڑھنے سے لاگت میں 15فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

کنفیکشنری کے آئٹمز کی لاگت بڑھنے میں روپے کی بے قدری کا بھی بڑا دخل ہے، کنفیکشنری کی تیاری کے لیے مصنوعی فلیورز، چاکلیٹ، سکرین، فوڈ کلر، مختلف اقسام کا پیکنگ میٹریل درآمد کیا جاتا ہے جو روپے کی قدر کم ہونے سے مہنگا ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں کنفیکشنری آئٹمز بھی مہنگے ہو رہے ہیں۔

اسکولوں میں کنفیکشنری اشیا کی فروخت پر پابندی سے تاجر متاثر ہونے لگے

سندھ حکومت نے سرکاری اور نجی اسکولوں میں غیرمعیاری کنفیکشنری آئٹمز کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے اس فیصلے سے غیرمعیاری مصنوعات بنانے والوں کے ساتھ معیاری مصنوعات بنانے اور فروخت کرنے والوں کو نقصان کا سامنا ہوگا۔

کنفیکشنری آئٹمز کی تیاری سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یکدم یورپ کے معیارات نافذ نہیں کیے جاسکتے اس کے لیے بتدریج بہتری کی ضرورت ہے قوانین کا اطلاق نسبتاً آسان اور قابل عمل اقدامات سے شروع کیا جائے تو تاجروں کو بھی آسانی ہوگی بصورت دیگر کاروباری نقصان کے اثرت ملکی معیشت پر مرتب ہوں گے۔

چھالیہ کی درآمد پر پابندی اور کسٹمز کارروائیوں سے قیمت بڑھ گئی

چھالیہ سپاری کی درآمد پر پابندی اور کسٹم حکام کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے چھالیہ سپاری کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس سے چھالیہ سپاری فروخت کرنے والے تاجروں کا کاروبار محدود ہوا ہے وہیں چھالیہ سپاری کے مینوفیکچررز کے وارے نیارے ہوگئے ہیں، پابندیوں کے باوجود چھالیہ کی مینوفیکچرنگ جاری ہے دو سال کے عرصے میں چھالیہ کے ڈبے کی قیمت 220 روپے درجن سے بڑھ کر 2500 روپے درجن کی سطح پر آچکی ہے جس کے بعد چھالیہ مختلف میوہ جات بادام پستہ اخروٹ سے بھی زائد قیمت پر فروخت ہورہی ہے۔

پاکستان کی سوئٹ سپاری دنیا بھر میں مشہور ہے اور یورپ اور امریکا کینیڈا، برطانیہ میں مقیم پاکستانی اور ایشیائی ملکوں کے باشندے پاکستانی سوئٹ سپاری کے شوقین ہیں، چھالیہ انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور سنگا پور سے درآمد کی جاتی ہے ۔

پاکستان تھائی لینڈ کی چھالیہ کا بڑا خریدار ہے، پاکستان میں چھالیہ کی درآمد پر سختیوں کی وجہ سے اب سوئٹ سپاری مینوفیکچررز اپنی فیکٹریاں انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہے ہیں جس سے پاکستان میں روزگار کے مواقع کم ہوں گے ساتھ ہی حکومت کو محصولات کی مد میں بھی نقصان کا سامنا ہوگا۔

ذرائع نے بتایا کہ چھالیہ کی دستیابی مشکل لیکن نا ممکن نہیں ہے افغان ٹرانزٹ اور ایرانی سرحد سے چھالیہ کی وافر مقدار پاکستان لائی جا رہی ہے، دودھ کے رکھوالی پر تعینات بلے ہی اس کاروبار میں شراکت دار بن چکے ہیں جس کی وجہ سے سوئٹ سپاری منشیات کی مانند چوری چھپے تیار کی جارہی ہے جبکہ قیمت بڑھنے سے مینوفیکچررز کا منافع بھی کئی سو گنا بڑھ چکا ہے یہی وجہ ہے کہ چھالیہ کی قانونی درآمد کا راستہ بند کیے جانے کے خلاف کسی سطح پر کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی۔

تاجروں نے مسائل کے حل کیلیے واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا

کنفیکشنری کی مرکزی تھوک مارکیٹ میں صفائی کی حالت ابتر ہے تنگ گلیوں میں سیوریج کا نظام بوسیدہ ہوچکا ہے، تاجر اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کراتے ہیں، لاقانونیت کے دور میں یہ علاقہ گاہکوں اور تاجروں کے لیے نوگو ایریا بنا رہا اب اسٹریٹ کرائم کا سلسلہ جاری ہے۔

کراچی کے تاجروں نے مسائل حکام اور محکموں تک پہنچانے کے لیے واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا ہے جس میں اولڈ سٹی ایریا کے تمام بازاروں سمیت کراچی بھر کی200 مارکیٹوں کے عہدیداران اور سیکیورٹی اداروں کے ذمے داران شامل ہیں، چیئرمین، صدر اور سیکریٹری سطح کے تاجر رہنما مسائل اس گروپ پر ڈسکس کرتے ہیں جس پر پولیس اور رینجرز حکام سمیت بلدیاتی اداروں کی جانب سے فوری ایکشن لیا جاتا ہے ۔

اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ درخشاں تھانے میں ڈکیتی کی رپورٹ درج کرانے کے لیے جانے والے تاجر کے ساتھ بدتمیزی کی اطلاع جب گروپ پر دی گئی تو ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر امیر شیخ خود تھانے پہنچ گئے اور معاملے کو حل کرایا جبکہ گروپ میں چاروں ڈی آئی جیز بھی ایڈ ہیں اسی طرح رینجرز کے تینوں سیکٹر کمانڈرز سمیت مختلف ونگ کمانڈرز بھی ٹریڈرز گروپ کا حصہ ہیں۔

دوسری جانب گروپ میں آل سٹی تاجر اتحاد، اولڈ سٹی تاجر اتحاد، کنفیکشنری ایسوسی ایشن، ٹریڈرز ایسوسی ایشن، صدر الائنس، جامع الائنس، کراچی الیکٹرونکس ڈیلر ایسوسی ایشن، موٹر سائیکل مارکیٹ ایسوسی ایشن، مختلف ٹرانسپورٹرز ایسو سی ایشن و دیگر کے عہدیداران کے علاوہ کراچی چیمبر آف کامرس کی اسمال ٹریڈرز کمیٹی اور سینئر قیادت بھی موجود ہیں ۔

اس پلیٹ فارم پر تاجر اسٹریٹ کرائم، تالے توڑے جانے کی واردات، ڈکیتی، موبائل فون چھیننے سمیت مختلف مسائل پر بات کرتے ہیں اسی گروپ میں رینجرز اسپیشل ٹاسک فوس (آر ایس ٹی سی) کے ڈائریکٹر نجیب دانا والا بھی شامل ہیں بھتہ خوروں کی جانب سے پرچی آنے پر اس گروپ میں نوٹس لیا جاتا ہے اس کے علاوہ چھن جانے والے موبائل فونز کی ریکوری کے لیے بھی آر ایس ٹی سی گروپ ممبران کی مدد کرتی ہے کے الیکٹرک اور سینی ٹیشن کے ذمے داران بھی گروپ ممبران کی جانب سے توجہ دلانے پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

گروپ کے ایڈمن احمد قادری نے بتایا ہے کہ اس گروپ میں مزید مارکیٹوں کے عہدیداران بھی شامل کیے جائیں گے تاکہ سب کو ساتھ لے کر مسائل حل کیے جائیں اور حل طلب مسائل کو اجاگر کیا جائے۔

چینی و ایرانی مصنوعات سے کنفیکشنری انڈسٹری متاثر ہونے لگی

چین اور ایران کی مصنوعات کی یلغار سے پاکستان کی کنفیکشنری انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے، چین کی مصنوعات میں خوردہ فروشوں کا منافع زیادہ ہونے، ورائٹی اور وافر دستیابی کی وجہ سے معیار میں پست ہونے کے باوجود مارکیٹ میں چینی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ پلاسٹک کے کم قیمت چینی کھلونوں میں کھانے پینے کی اشیا بھر کے فروخت کی جاتی ہیں جو بچوں کی توجہ فوری اپنی جانب مبذول کراتی ہیں کنفیکشنری انڈسٹری میں چینی مصنوعات کا مارکیٹ شیئر10فیصد سے تجاو ز کرچکا ہے ۔

دوسری جانب ایران سے بڑے پیمانے پر درآمد کردہ چاکلیٹ، بسکٹ، جوسز، ٹافیاں اور کینڈیز پاکستانی مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہیں معیار اور ورائٹی کے ساتھ ایرانی آئٹمز کی قیمت بھی کم ہونے کی وجہ سے ایرانی کنفیکشنری آئٹمز تیزی سے اپنی جگہ بنارہے ہیں مرکزی تھوک مارکیٹ میں بھی ایرانی کنفیکشنری آئٹمز کے تاجر کاوربار کررہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ سرحد پر کسٹم کی سختیوں اور روپے کی قدر میں کمی سے ایرانی مصنوعات کی درآمد بھی متاثر ہو رہی ہے۔

ایرانی آئٹمز کی خوردہ قیمت 5 سے 10اور 20روپے کے درمیان ہے نئے فلیورز اور دیدہ زیب پیکنگ کی وجہ سے ایرانی مصنوعات تیزی سے فروغ پا رہی ہیں شہر کے بیشتر بڑے بازاروں میں تھوک دکانوں پر ایرانی آئٹمز فروخت کیے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔