قانون کی عملداری

ہمارے ملک میں قانون کو لاقانونیت سے بدلنے میں سب ہی برابر کے شریک ہیں چاہے وہ کوئی امیر ہو یا غریب


امجد طفیل بھٹی October 19, 2018
حکومت کو ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائیوں میں اس لیے دشواریوں کا سامنا ہے کیونکہ خود ناجائز قابضین ہی متاثرین کے روپ میں میڈیا کے سامنے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کہتے ہیں کہ قانون صرف غریب کےلیے ہوتا ہے جبکہ امیر اور صاحبِ حیثیت قانون کو اپنے مفاد میں جب چاہے جہاں چاہے اور جتنا چاہے تبدیل کرسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں درحقیقت قانون کو لاقانونیت میں بدلنے کےلیے سب ہی برابر کے شریک ہیں۔ چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق قانون کے ساتھ ناروا سلوک رکھتا ہے۔ امیر اپنی پہنچ کے مطابق قانون ہاتھ میں لیتا ہے جبکہ غریب اپنی پہنچ کم ہونے کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی خلاف ورزیوں پر ہی گزارہ کرلیتا ہے۔ مثلاً بڑے لوگ اپنے بزنس میں ٹیکس چوری کرتے ہیں تو غریب اپنے ٹھیلے پر ناپ تول میں کمی کرکے کسر پوری کر لیتے ہیں، اونچی جگہ تعلقات والے قبضوں کے ذریعے بڑی بڑی ہاؤسنگ اسکیمیں اور پلازے تعمیر کرتے ہیں تو غریب لوگ اپنی ریڑھی اور چنگ چی رکشے کے ذریعے سڑکوں پر تجاوزات کھڑی کرلیتے ہیں۔

صاحب حیثیت لوگ باہر سے غیر قانونی گاڑیاں بغیر ڈیوٹی ادا کیے، درآمد کرکے ملکی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچاتے ہیں تو عام لوگ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چوری کرکے حساب برابر کرلیتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاستدان اور بیوروکریٹ بینکوں سے لیے گئے اربوں روپے کے قرضوں میں خورد برد کرتے ہیں تو عام چور ڈاکو اسٹریٹ کرائم اور بینک ڈکیتیوں کے ذریعے اپنا بیلنس بڑھاتے ہیں۔ بڑے بڑے گینگ ماسٹر، بھتہ مافیا کے ساتھ مل کر اسلحے کی نوک پر بھتہ وصول کرتے ہیں تو عام چھوٹے گینگسٹر بھیک مافیا کے ساتھ مل کر چوراہوں پر خواجہ سراؤں، فقیروں اور معذوروں سے بھیک منگوا کر اپنا اُلو سیدھا کرلیتے ہیں۔ بڑے بڑے کاشتکار اور مل مالکان سستے داموں غریب کسانوں کا استحصال کرتے ہیں تو چھوٹے کاشتکار اور بھٹہ مالکان ہاریوں اور مزدوروں کو نچوڑ لیتے ہیں۔

اب اگر بات کی جائے کہ ان تمام برائیوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے تو وہ صرف اور صرف قانون کی عملداری سے ہی ممکن ہو سکتا ہے، یعنی کہ قانون بنانے والے اور قانون کے رکھوالے پہلے خود قانون پر عمل کریں اور بعد میں عام لوگوں پر اسی قانون کو لاگو کریں۔ جیسا کہ آج کل پاکستان میں بالخصوص پنجاب میں ٹریفک قوانین کی پابندی اور ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری تو ہے مگر دونوں ہی معاملات میں حکومت کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور شاید یہ مزاحمت ہے بھی اسی وجہ سے کہ پاکستانی عوام قانون پر پابندی کے عادی ہی نہیں۔ یہاں نہ تو موٹر سائیکل والوں کو، بالعموم، ہیلمٹ پہننے کی عادت ہے اور نہ ہی ٹریفک سگنل کی پرواہ ہے۔ یہاں نہ تو بڑے بڑے پلازے اور بنگلے بنانے میں کوئی قانون پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ریڑھی یا ٹھیلے والا اپنا ٹھکانہ بنانے سے پہلے پوچھتا ہے کہ یہ جگہ کس کی ہے۔

بس آہستہ آہستہ سالہاسال کی حکومتی چھوٹ ان لوگوں کو اس قدر بہادر بنا دیتی ہے کہ یہ لوگ ناجائز قبضہ شدہ زمینوں کو اپنا حق سمجھ کر مستقل دکانیں اور گھر تعمیر کرلیتے ہیں اور بعد میں جب سرکاری اداروں کو ہوش آتا ہے تو یہی ناجائز قابضین، متاثرین بن کر میڈیا پر آکر حکومت اور انتظامیہ کے خلاف چیخنا چِلّانا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو! حکومت اس حد تک گر گئی ہے کہ غریب عوام کے پیٹ پر ہی لات مارنے پر تل گئی ہے۔

دانشوروں، تجزیہ کاروں اور حکومتی جماعت کے مخالف جذبات رکھنے والے صحافیوں سمیت، ہمارے میڈیا کے کچھ حصے کو بھی کھل کر حکومت کے خلاف بولنے کا پورا موقع مل جاتا ہے (حکومت چاہے پی ٹی آئی کی ہو، ن لیگ کی یا پھر پیپلز پارٹی کی ہو)۔ ان لوگوں کو تو بس ایک موضوع درکار ہوتا ہے، جو ایسی صورت میں انہیں بہ آسانی مل جاتا ہے؛ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کا ہر ایک صحافی، کالم نگار اور میڈیا ہاؤس ملک میں قانون کی عملداری یقینی بنانے کےلیے حکومتِ وقت کا ساتھ دے مگر بدقسمتی سے اپنے ملک کا کلچر ہی مختلف ہے۔ یہاں ملکی قوانین سے زیادہ ذاتی مفادات اور ذاتی ترجیحات کو اہمیت دی جاتی ہے جو لاقانونیت کا سبب بنتی ہے۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے سے پہلے کم از کم تمام میڈیا اور متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے تاکہ بعد میں ابہام پیدا نہ ہو، کیونکہ اس طرح کے اقدامات نہ کرنے سے قبضہ گروپ چند مخصوص لوگوں اور سیاسی مخالفین کے ذریعے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر اوقات حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے جو سیدھا سیدھا لاقانونیت اور اجارہ داری کو دعوت دینے کے مترادف ہے جبکہ یہ پاکستان کے ساتھ سراسر زیادتی کے مترادف بھی ہے۔

یہی قانون توڑنے والے بڑے لوگ جب غیر ملک جاتے ہیں تو وہاں قانون توڑنے کی گستاخی نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں نہ تو کوئی سفارش چلتی ہے اور نہ ہی جان پہچان کام آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی قانون کی عملداری ہے۔ وہاں قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں چاہے وہ ملک کا صدر ہو، وزیراعظم ہو یا پھر اعلیٰ سرکاری افسر۔

اگر پاکستان کے عوام اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو پھر اپنی ذات سے بڑھ کر قانون کو عزت دینا پڑے گی ورنہ ہم ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں کبھی شامل نہیں ہوسکیں گے۔ قانون پر عملدرآمد کے بجائے اپنی موٹرسائیکل، رکشے یا کپڑے جلانا اور گالم گلوچ سے سرکاری اہلکاروں کی تواضع کرکے وقتی طور پر تو وہ خود کو چالان سے بچا لیں گے مگر پھر حکومتی اقدامات اور پالیسیوں پر تنقید کرنے کا حق بھی آپ کھو دیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں