نئی حکومت کا پہلا بجٹ

عوامی حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ بجٹ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔


Editorial June 13, 2013
بجٹ میں 70 سے 80 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں کی ہر قسم کی چھوٹ ختم کرنے کی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

مسلم لیگ ن نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنا پہلا مالی سال 2013-14 کے لیے 35کھرب 91 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ مالیاتی خسارے کا تخمینہ 16کھرب 51 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ وفاق کی جانب سے صوبوں کو قابل تقسیم محاصل سے 1502 ارب روپے دیے جائیں گے، اس طرح گزشتہ برس کی بہ نسبت صوبوں کو 23 فیصد زیادہ فنڈز ملیں گے۔

میاں نواز شریف نے 5 جون کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد ان کے سامنے سب سے پہلا اور فوری چیلنج بجٹ پیش کرنا تھا۔ انھوں نے ایک ہفتہ کے اندر بجٹ پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے پر عزم ہیں۔ اگرچہ وہ ملک کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں اور یہ ان کے لیے بجٹ پیش کرنے کا پہلا تجربہ نہیں تھا مگر چند روز کے اندر بجٹ پیش کرنے کے چیلنج کا انھوں نے بخوبی مقابلہ کیا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملکی معیشت شدید دبائو میں ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ بجٹ خسارے کا بجٹ ہے۔ اگر ملکی معیشت بہتر ہوتی تو یقیناً یہ فاضل بجٹ ہوتا اور ملکی ترقی کے لیے حکومت کے پاس مطلوبہ خزانہ موجود ہوتا۔

حکومت نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافے کا فیصلہ کر کے احسن قدم اٹھایا ہے اگرچہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابل یہ اضافہ پنشنرز کی اشک شوئی نہیں کر سکتا ہے مگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہ ہونے سے ان میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سرکاری ملازمین نے تنخواہوں میں اضافہ نہ کیے جانے پر بجٹ کوملکی تاریخ کا سیاہ ترین بجٹ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے اور سراپا احتجاج بنتے ہوئے سڑکوں پرآ گئے ہیں۔ آل پاکستان فیڈرل ایمپلائز یونین اور ایپکا نے 21 جون سے ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین نے نئی حکومت سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ موجودہ بجٹ میں پوری نہ ہو سکیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے کا فیصلہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حکومتی خزانے میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تنخواہوں میں اضافے کا بوجھ اٹھا سکے۔

دوسری جانب سیلز ٹیکس 16 سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا گیا ہے۔ جی ایس ٹی بڑھنے سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جی ایس ٹی اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے مہنگائی کی لہر آنے کا امکان ہے۔ غریب طبقہ جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے مزید مالی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ خوردنی تیل' مشروبات' سگریٹ' پان' چھالیہ اور درآمدی بیج مہنگے کر دیے گئے ہیں۔ چھالیہ اور پان پر ڈیوٹی کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس طرح بجٹ میں ریلیف نہ ملنے' جی ایس ٹی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد آنے والی مہنگائی سے عوام میں اشتعال بڑھے گا۔ عوامی حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ بجٹ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ بجٹ میں 70 سے 80 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں کی ہر قسم کی چھوٹ ختم کرنے کی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔

چینی پر عائد 8 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرکے 16 فیصد سیلز ٹیکس عائد جب کہ سیمنٹ' فریج' اے سی وغیرہ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے اور متعدد زیرو ریٹنگ سیلز ٹیکس مصنوعات پر چھوٹ ختم کرنے سے یہ اشیا مہنگی ہو جائیں گی' اسی طرح کتابیں' کاپیاں' قلم' روشنائی' سلائی مشینیں' ٹریکٹر سمیت 85 مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ نجی تعلیمی اداروں پر 5 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ایک جانب کتابیں کاپیاں مہنگی ہو جائیں گی تو دوسری جانب ٹیکس کی آڑ میں نجی تعلیمی ادارے فیسوں میں اضافہ کر دیں گے لہٰذا نچلا متوسط طبقہ جو اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے کوشاں ہے اس کے لیے مہنگائی کا نیا طوفان آنے کے بعد بچوں کو اچھی تعلیم دلانا خواب بن جائے گا جب کہ سرکاری اسکولوں کی حالت یہ ہے کہ یہاں نہ حکمرانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نہ اعلیٰ سرکاری افسروں کے حتیٰ کہ قدرے خوشحال طبقہ بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرانے سے کتراتا ہے۔

لہٰذا تعلیم کا معیار برقرار رکھنے میں نجی شعبہ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اب ٹیکس لگنے سے یہ شعبہ بھی مالی دبائو میں آئے گا جس کا اثر بچوں کے والدین پر منتقل ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ پرچون اور تھوک فروشوں پر ایک فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، توانائی کے شعبے میں موجود گردشی قرضہ 60 دن میں ختم کر دیں گے، عمارتی شعبے میں بلڈرز پر 50 روپے فی مربع فٹ ٹیکس عائد کیا گیا ہے جب کہ ڈویلپڈ پلاٹ پر 100 روپے فی مربع گز ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ خوش آیند امر یہ ہے کہ پانی کی فلٹریشن کے سامان پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں کمی لائی گئی ہے۔ بجٹ میں پہلی بار تنخواہوں پر ٹیکس کے 2 نئے درجے متعارف کرائے گئے ہیں۔ کاروباری افراد کے لیے ٹیکس کی شرح 25 لاکھ پر 25فیصد تک بڑھانے' 60 لاکھ روپے والے سالانہ آمدن والوں پر 35 فیصد ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ حکومت نے بجٹ خسارے پر قابو پانے اور غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے لیے چند احسن اقدامات کیے ہیں۔

قومی سلامتی کے دو اداروں کے علاوہ وزیراعظم سمیت تمام وزارتوں کے صوابدیدی فنڈز پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے' وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں 44 فیصد کمی کی جائے گی جب کہ وزارتوں کو 30 فیصد اخراجات کم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے 40 ارب روپے کی بچت ہو گی، اس طرح یہ رقم ملکی ترقی پر خرچ ہوگی۔ وزیراعظم آفس اور تمام وزارتوں میں نئی گاڑیوں کی خریداری پر بھی پابندی ہو گی۔ پاکستان کی بجٹ تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کا فیصلہ کیا گیا جب کہ ماضی میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے تشویشناک صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے خطیر قرض لینے کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ بجٹ خسارہ 7فیصد رہا' قرضوں کا حجم 255 فیصد بڑھا' بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے 11 کھرب 53 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جن میں سے 10کھرب 64 ارب روپے صرف ملکی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ حکومت اس وقت شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک بڑی رقم تو سود کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے اگر یہ سود نہ ہو تو بچ جانے والی رقم ملکی ترقی پر خرچ ہوکر انقلاب لا سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں