’درخت‘ محافظوں کی قطار، دوستوں کا گھیرا

سید بابر علی  بدھ 9 فروری 2022
خشک سالی روکنے سے خوش حالی لانے تک پھیلا پیڑوں کا کردار۔ فوٹو: فائل

خشک سالی روکنے سے خوش حالی لانے تک پھیلا پیڑوں کا کردار۔ فوٹو: فائل

 کراچی: درخت انسانی زندگی کا جزو لازم ہیں، اور بنی نوع انسان ازل سے ان پر انحصار کرتا رہا ہے۔ درخت ہمیں آکسیجن فراہم کرنے کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہوا کو صحت مند بناتے ہیں۔ دنیا کے بڑھتے درجۂ حرارت میں کمی اور موسمی تغیرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگلات کو کٹنے سے روکنے اور شجر کاری کو فروغ دینے کے اشد ضرورت ہے۔

درخت بنی نوع انسان اور دیگر مخلوقات کے لیے قدرت کی جانب سے دیا گیا ایک عظیم تحفہ ہیں۔ یہ ہمیں تازہ ہوا فراہم کرتے ہیں، گرمیوں میں چھاؤں دیتے ہیں، زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ درختوں کی عدم موجودگی سیلاب اور سمندری طوفان کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25 فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، مگر پاکستان میں جنگلات کل رقبے کے محض چار فی صد پر مشتمل ہیں اور ان کی تیزرفتاری سے ہونے والی کٹائی ہمیں موسمی تغیرات اور قدرتی آفات کے لیے مزید غیرمحفوظ بنا رہی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں جنگلات کے رقبے میں اضافے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ماحولیاتی تناظر میں دیکھا جائے تو 35فی صد رقبے پر محیط جنگلات والے ملک کے شہریوں کی صحت دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ اچھی ہوگی۔

لیکن ہم شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے ماحولیاتی اور موسمی تغیرات کے خطرات سے دانستہ اور نادانستہ طور پر چشم پوشی کر رہے ہیں، بڑھتا ہوا درجۂ حرارت شمالی علاقہ جات میں گلیشیئرز کو پگھلا رہا ہے، گلیشیئرزکو پگھلنے سے روکنے کے لیے ہم مزید شجرکاری کرنے کے بجائے قیمتی لکڑی کے حصول کے لیے درختوں کی کٹائی بھرپور طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ درخت جس تیزی سے کاٹے جارہے ہیں، اس کے نتیجے میں فضا میں آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہو رہی ہے، جو جانداروں کے لیے شدید خطرات کا باعث ہے۔

درخت لگانے کا کام بہت مہنگا یا زیادہ وقت طلب نہیں ہے، صرف چند بیجوں کو ایسی جگہ بوئیں، جہاں ہوا، دھوپ اور مٹی موجود ہو اور آپ دن میں ایک بار پانی دے سکیں۔ پودا لگا دینا بہت بڑی بات ہے، مگر پودے کی باقاعدہ حفاظت اور آب یاری کرنا اس سے بھی بڑی ذمے داری ہے، کیوںکہ پودا لگانے کے مقاصد تو اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں، جب پودا لگانے کے بعد اس وقت تک اس کی حفاظت کریں، جب تک وہ بڑا نہیں ہوجاتا۔ پاکستان میں متعدد بار شجرکاری مہم چلائی گئی۔ ہر سال سرکاری سطح پر اربوں روپے کے پودے لگائے جاتے ہیں، لیکن پودے لگانے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں۔ اگرچہ ہم انفرادی طور پر اپنے ملک میں جنگلات میں اضافہ نہیں کرسکتے، لیکن اپنے اپنے طور پر درختوں میں اضافہ تو کرسکتے ہیں۔ درجۂ حرارت میں کمی کے علاوہ درختوں کے بہت سے فوائد اور بھی ہیں۔

٭خشک سالی سے بچاؤ

اگر یہ کہا جائے کہ درخت قحط سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ جنگلات اور شہروں میں لگے درخت پانی کی گردش کو برقرار رکھنے میں اہم کردار کرتے ہیں۔ پانی درخت کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوتا ہے اور پھر درخت اس پانی کو پتوں کے ذریعے ہوا میں خارج کردیتے ہیں، جس سے ہوا میں نمی کا تناسب برقرار رہتا ہے۔ اس سارے عمل کو اخراج بخارات (ٹراسپیریشن) کہا جاتا ہے۔ درخت بارش کا پانی پتوں سے جذب کرکے اسے بخارات کی شکل میں دوبارہ خارج ہو کر بارش کے بادل بناتے ہیں، چند سل قبل برازیل کے دارالحکومت ریو میں سینٹر فار انٹرنیشنل فاریسٹری ریسرچ (سی آئی ایف او آر) کی جانب سے ہونے والی تحقیق کے مطابق بارانی جنگلات خشک موسم اور بارشوں کے دوران نہ صرف دریاؤں کے بہاؤ کو باقاعدگی سے رواں رکھتے ہیں، بل کہ قلت آب اور سیلاب کے خطرات کو بھی کم سے کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس بابت محقق ڈیوڈ ایلیسن کا کہنا ہے کہ ’درخت اور پانی کے درمیان موجود ربط بہت پیچیدہ ہے۔ مقامی سطح پر آب گیری پر ہونے والے مطالعوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ درحقیقت درخت نظام سے پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درخت مٹی سے پانی کو جذب کرکے ہوا میں خارج کردیتے ہیں۔ درخت کے پتے ایک مزاحم کا کردار ادا کرتے ہوئے بارش کا پانی جذب کرکے کسی اور جگہ بارش کے برسنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سارے عمل کو ایواپو ٹرانسپیریشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایلیسن کا کہنا ہے کہ ’ماحولیاتی تغیرات کے ساتھ ساتھ بدترین خشک سالی بھی عام ہوتی جارہی ہے، اور ہمیں درختوں کا موثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے آبی چکر پر اثرانداز ہونے کے مواقع کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’سمندر کی نسبت دنیا کے اہم اور بڑے دریاؤں پرایواپو ٹرانسپیریشن کے ذریعے پانی کے بخارات بننے کے تناسب کی شناخت پر ہونے والے مطالعوں کے بعد ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بارش کے ہونے میں ایواپو ٹرانسپیریشن کا بڑا حصہ ہے، دنیا بھر میں موسم گرما میں یہ عمل اوسطاً پچاس فی صد اور سالانہ چالیس فی صد بارشوں کا سبب بنتا ہے۔‘‘ لہٰذا جنگلات یا درختوں کی کٹائی سے پانی کے بخارات کی بین براعظمی منتقلی پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح خشک سالی سے متاثرہ خطوں میں درخت لگانے سے مستقبل میں بارشیں کی جاسکتی ہیں۔

٭سیلاب سے تحفظ

پانی جذب کرنے کی صلاحیت کی بنا پر درخت سیلاب سے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف برمنگھم اور ساؤتھ ٹیمپٹن میں ہونے والی تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ درخت شہری علاقوں میں سیلاب لہروں کی بلندی کو بیس فی صد تک کم کر سکتے ہیں۔ برمنگھم یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف فاریسٹ ریسرچ کے پروفیسر اور اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر سائمن ڈکسن کا کہنا ہے کہ اس کام کے لیے ہم نے برکین ہرسٹ قصبے کے نشیبی علاقے میں واقع دریا کے کنارے سو کلومیٹر رقبے پر درخت لگائے۔ دریا کی مجموعی لمبائی کے محض دس سے پندرہ فی صد علاقے میں درختوں کی شکل میں موجود رکاوٹ سے دریا کی سیلابی کیفیت میں بلند ہونے والی لہروں کی اونچائی میں چھے فی صد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ اور اگر دریا کی لمبائی کے بیس سے پچیس فی صد پر درخت لگادیں تو اس کی وجہ سے مستقبل میں آنے والے سیلاب کی لہروں کی اونچائی میں بیس فی صد تک کمی ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر سائمن کا کہنا ہے کہ درخت نہ صرف سیلاب بلکہ دیگر قدرتی آفات کے خطرات کو بھی کافی حد تک کم کرتا ہے، کیوں کہ درخت نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی مٹی کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے جس کا نتیجہ سیلاب کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ درخت مٹی کے بہنے کو روک کر پانی کی رفتار کو کم کرتے ہیں جس سے زمین سیلابی پانی کے کٹاؤ سے محفوظ رہتی ہے، اور سیلاب کے گزر جانے کے بعد ہوا کے کٹاؤ سے بھی زمین کی اوپری سطح کی زرخیز مٹی کو اڑا کر دور چلے جانے سے روک لیتی ہے۔ اور زمین کی زرخیزی برقرار رہتی ہے۔ برطانیہ کی محکمۂ ماحولیات کے فلڈ رسک مینیجر بین لیوکے کا کہنا ہے کہ ’ہم سیلاب سے روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کے ساتھ مختلف اقدامات کر رہے ہیں جس میں شجرکاری سر فہرست ہے اور سائنسی تحقیقی جریدے ارتھ سرفیس پراسیسز اینڈ لینڈ ریفارمز میں شایع ہونے والی اس تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔

٭مٹی کے کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ سے تحفظ

زمین کے کٹاؤ کو عموماً ماحولیاتی مسائل میں سب سے کم اہمیت دی جاتی رہی ہے ، لیکن در حقیقت یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں دنیا بھر میں مٹی کی اوپری سطح کٹاؤ کی وجہ سے ضایع ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے مٹی کی زرخیزی میں کمی اور کھارے پن میں اضافہ ہوا ہے، اور اس کا بلاواسطہ اثر زراعت پر پڑا ہے۔ جب کہ دریاؤں، نہروں اور میٹھے پانی کے ذخیروں میں رہنے والی آبی حیات کی تعداد میں بھی کافی حد تک کمی ہوئی ہے۔ مٹی کے کٹاؤ میں اضافے کی ایک اہم وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی ہے۔ تیز ہوا اور بارش کے سبب مٹی کی اوپری زرخیز سطح بہہ جاتی ہے۔

اس سے زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہوتی ہے، جس سے زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت مزید خراب ہوجاتی ہے جب یہ بہنے والی مٹی زمین پر موجود دیگر آلودہ اشیا کو ساتھ لے کر سمندر یا دریاؤں میں جا گرتی ہے۔ یہ آلودگی پانی میں آبی حیات کے لیے موت کا سامان بننے والی نائٹروجن گیس کی سطح میں اضافہ کرتی ہے۔ درخت اپنی زیرزمین پھیلی مضبوط جڑوں کی مدد سے نہ صرف مٹی کے کٹاؤ کو روکتے ہیں، بل کہ تیز ہوا کی شدت کم کر کے مٹی کو اڑنے سے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ مٹی کا کٹاؤ رکنے کی وجہ سے لینڈسلائیڈنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

٭زمین کی زرخیزی میں اضافہ

درخت پانی اور مٹی کو ایک ساتھ ملا کر اس کی زر خیزی میں اضافہ کرتے ہیں، مٹی کی زرخیزی اچھی فصل کی ضامن ہے۔ درخت سے جھڑنے والے پتے اور ان کی شاخیں زمین پر گر کر ڈی کمپوز ہوجاتی ہے جو حشرات الارض کی غذا بنتی ہیں۔ یہ تمام تر نامیاتی مادہ زمین کی قدرتی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق درختوں اور جنگلی حیات کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوگا، زمین کی زرخیزی اور اس میں اُگنے والی فصل اور زیادہ غذائیت بخش ہوگی۔

٭صوتی آلودگی میں کمی

صوتی آلودگی قدرتی ماحول میں غیرفطری طریقے سے پیدا ہونے والی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ آلودگی ہمارے صوتی حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسانی طرزحیات میں ترقی کے نام پر جنگلات کی بے دریغ کٹائی، کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر، مواصلاتی نظام کی ترسیل کے لیے تعمیر کیے جانے والے بلند وبالا موبائل فون ٹاورز سے پیدا ہونے والا شور صوتی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ آلودگی کی یہ شکل دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق رہنے کے لیے مناسب گھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جُڑا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رہائش کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں، جنگلوں کو کاٹ کر چٹیل میدانوں کی شکل دی گئی۔

درخت صوتی آلودگی کو کم کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ماحول میں موجود شور کو جذب کرکے آواز کی لہروں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کی شدت کم کر دیتے ہیں۔ درخت اپنے پتوں کی سرسراہٹ سے ناپسندیدہ آواز کو پس ِ پشت کرنے کا اہم فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں، یہ شور کی راہ میں مزاحم ہوکر شور کے منبع اور سننے والے کے درمیان فاصلہ پیدا کرتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق زیادہ درخت والی جگہوں پر تیس میٹر کے فاصلے پر پیدا ہونے والے شور کی شدت 6 ڈیسی بل (شور کا پیمانہ) تک کم ہوسکتی ہے، 15سے 30 میٹر چوڑے رقبے پر موجود درخت اور جھاڑیاں شور کی سطح کو 6سے 8 ڈیسی بل تک کم کر سکتے ہیں۔ صرف درخت ہی نہیں بل کہ اس کی شاخیں اور پتے بھی صوتی آلودگی کی شدت میں کمی کے لیے اہم فعل سرانجام دیتے ہیں۔

٭ درجۂ حرارت میں کمی

گلوبل وارمنگ ماہرین ماحولیات کو درپیش ایک بڑا مسئلہ ہے جس میں سے نمٹنے کے لیے دنیا کا ہر ملک اپنے اپنے طور پر کوشش کر رہا ہے۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود زمین کا درجۂ حرارت دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، جس کا ایک عنصر درختوں کی کٹائی اور نئے درخت نہ لگانا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں پاکستان خصوصاً شہر قائد کو شدید ترین گرم موسم کا سامنا رہا ہے، جس کی اہم وجہ شہری منصوبہ بندی کا نہ ہونا، تیزی سے بڑھتی آبادی کے رہنے کے لیے درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے جس نے اس میگا سٹی کو موسمیاتی تغیرات برداشت کرنے کے لیے غیر محفوظ بنادیا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’سَسٹین ایبل انرجی فار آل‘ کی رپورٹ کے مطابق کرۂ ارض کے بلند ہوتے درجۂ حرارت سے ایک ارب سے زائد افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ یہ لوگ گرمی کی شدت کم کرنے والے مصنوعی برقی آلات پنکھوں، فرج، اے سی جیسی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرمی کی شدت سے متاثر ہونے والوں میں ان افراد میں اکثریت کا تعلق جنوب ایشیا سے ہے، جب کہ لاطینی امریکا کے دیہی علاقوں کے چار کروڑ تیس لاکھ اور کچی آبادیوں میں رہنے والے چھے کروڑ افراد گرمی کی شدت سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ یہ رپورٹ دنیا کے 52 ممالک میں ہونے والے سروے کے نتائج پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے شجر کاری کے فروغ پر بھی زور دیا گیا ہے، کیوں کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب اور آکسیجن کو جذب کرنے کے ساتھ اپنے پتوں میں موجود پانی کو بخارات کی شکل میں ہوا میں خارج کرتے رہتے ہیں، جس سے اطراف میں گرمی کی شدت کم ہوتی ہے، جب کہ درختوں کے سائے میں موجود زمین میں پانی کے بخارات کی شکل میں ضایع ہونے کی شرح بھی بہت کم ہوجاتی ہے۔

٭درخت، خوشی کا سبب

درخت لوگوں کی صحت اور مسرت کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ آپ کسی تناور درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر خود کو پُرسکون محسوس کرتے ہیں تو اس کی بھی ایک سائنسی توضیح موجود ہے۔ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کسی درخت کے سائے میں بیٹھنا یا کسی درخت یا جنگل کی تصویر مرکزی اعصابی نظام پر اثر انداز ہو کر باعث سکون بنتی ہے۔ اعصابی نظام کا یہ حصہ دو حصوں sympathetic اورparasympathetic پر مشتمل ہوتا ہے۔ sympathetic حصہ کسی لڑائی کی صورت میں دل کی دھڑکن ، سانس اور خون کی گردش میں اضافہ کرتا ہے جس سے خون میں ایک ہارمون ایڈرینالین میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے آنکھ کی پتلیاں پھیل جاتی اور منہ خشک ہوجاتا ہے، ہمارے پٹھے اکڑ کے سخت ہوجاتے ہیں، جب کہ اس کے بر عکس parasympathetic حصہ سکون اور نظام ہضم کو کنٹرول کرتا ہے، نبض کی رفتار مدھم، خون کی گردش اور سانس کی رفتار معمول کے مطابق ہوجاتی ہے اور جب ہم کسی سرسبز جگہ پر جاتے ہیں تو ہمارے مرکزی اعصابی نظام کا یہ parasympathetic زیادہ فعال ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم خود کو زیادہ پُرسکون اور خوش محسوس کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسپتالوں اور دیگر طبی مراکز میں درختوں کی تعداد زیادہ رکھی جاتی ہے کیوں کہ یہ مریض کے لیے سکون بخش ثابت ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔