سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافے کا فیصلہ

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ہفتے کو قومی اسمبلی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تمام سرکاری ملازمین کی...


Editorial June 16, 2013
حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کے حوالے سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے ساڑھے سات فیصد اضافے کی سفارش کی تھی لیکن حکومت نے 10 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے، اسحاق ڈار۔ فوٹو: آن لائن/فائل

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ہفتے کو قومی اسمبلی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کے حوالے سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے ساڑھے سات فیصد اضافے کی سفارش کی تھی لیکن حکومت نے 10 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ 503 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ نئی آنے والی حکومت کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو' ان حالات کے باوجود 540 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ہے کیونکہ اس کے بغیر روز گار ممکن نہیں۔

سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ صائب ہے' تنخواہ دار طبقے کی آمدنی محدود ہوتی ہے' جب مہنگائی بڑھتی ہے تو سب سے زیادہ پریشانی تنخواہ دار طبقے کو ہی ہوتی ہے' وفاقی حکومت نے جی ایس ٹی میں اضافہ کیا ہے اور اسے فوری طور پر نافذ بھی کر دیا ہے' اس کے نتیجے میں ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے' تنخواہ دار طبقہ اس سے براہ راست متاثر ہوا ہے۔ گو مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے 10 فیصد اضافہ بھی زیادہ نہیں ہے لیکن اس سے سرکاری ملازموں کو یہ احساس ہو گا کہ حکومت نے انھیں مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا۔ سرکاری ملازمین تنخواہیں نہ بڑھنے پر مشتعل تھے اور وہ سڑکوں پر آ کر مظاہرے کر رہے تھے' اب حکومت کے اس فیصلے سے ان کی تسلی ہو جائے گی اور ان کے مظاہروں کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کو سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے' وہ درست ہیں لیکن ان مسائل کے ہوتے ہوئے بھی ملک کے پسماندہ اور کم آمدنی والے طبقات کے لیے کچھ نہ کچھ ریلیف کا بندوبست کرنا پڑے گا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہو رہی ہیں۔ کاروباری طبقے نے جی ایس ٹی بھی صارفین پر منتقل کر دیا ہے۔ اس سے ان کی آمدنی میں تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن غریب اور درمیانے طبقے اس سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال نے کاروباری سرگرمیوں کو پہلے ہی کم کر دیا ہے۔ یہ صورت حال یقینی طور پر حکومت کے علم میں ہے۔

ترقیاتی بجٹ کے لیے 540ارب مختص کیے گئے ہیں۔اب ضرورت یہ ہے کہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں پر جلد از جلد آغاز کیا جائے۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوروں کو روز گار ملے گا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کر کے بھی معاشی سرگرمیوں کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ حکومت لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے اپنی کوششیں کر رہی ہے۔ اس میں خاطر خواہ کمی ہو جائے تو حکومت کا یہ بڑا کارنامہ ہو گا۔ بہر حال ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کثیر الجہتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو یہاں دہشت گردی پر قابو پانا ہے وہاں ہمسایہ ممالک سے بھی خوشگوار تعلقات قائم کرنے ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں کو بھی مطمئن کرنا ضروری ہے۔ آج کے زمانے میں کوئی بھی معیشت الگ تھلگ رہ کر ترقی نہیں کر سکتی۔ برما جیسی بند معیشت بھی اب دنیا کے لیے کھول دی گئی ہے۔ پاکستان میں ترقی کا پوٹینشل موجود ہے۔ ضرورت صرف درست سمت کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کو قابو میں لانا ہے۔ حکومت کو صرف معاشی میدان میں ہی سخت فیصلے نہیں کرنے بلکہ اسے سیاسی حوالے سے بھی سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ قوم ان فیصلوں کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے۔حکمران مصلحت اندیشی کا مظاہرہ کریں تو یہ الگ بات ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کی بقا 'سلامتی کے تحفظ اور معاشی ترقی کے لیے کسی قسم کی مصلحت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں