میں راہی پربتوں کا

حامد الرحمان  اتوار 18 نومبر 2018
کنہار کے کنارے اُس قافلہ سخت جاں کو دیکھا جس نے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار اور اسوہ حسینی پر عمل کیا فوٹو: حامد الرحمن، عظمت اکبر، نور بخاری

کنہار کے کنارے اُس قافلہ سخت جاں کو دیکھا جس نے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار اور اسوہ حسینی پر عمل کیا فوٹو: حامد الرحمن، عظمت اکبر، نور بخاری

بارش کی بوندیں ریسٹ ہاؤس کی چھت پر جلترنگ بجا رہی ہیں۔ انگیٹھی پر رکھے دہکتے کوئلوں پر پکتے ہوئے تکوں کی مہک بھوک کی شدت کو بڑھاتے ہوئے پیٹ میں ہلچل مچا رہی ہے۔ سیاہ لیدر جیکٹ سردی سے بچانے میں ناکام دکھائی دے رہی تھی اور کھیتوں اور باغات کے اس پار دور قراقرم کا تاج محل ’راکا پوشی‘ دبیز اندھیرے کی چادر میں لپٹا تھا۔

کرسی پر بیٹھے ہوئے ہاتھ میں چائے کا مگ تھامے مجھے لگا جیسے یہ ایک خواب ہے۔ بس ابھی میری آنکھ کھلی اور ہمیشہ کی طرح یہ منظر بھی ایک سراب ثابت ہو۔ مگر ہوا کے ایک زوردار تھپیڑے سے جسم میں تھرتھری چھوٹی، جس نے تصدیق کی کہ میں اس وقت ہنزہ کے ایک ریسٹ ہاؤس میں موجود ہوں۔

کراچی سے 3 روز کے طویل سفر کے بعد اسلام آباد، کاغان ناران اور چلاس سے ہوتے ہوئے تھوڑی ہی دیر پہلے ہنزہ کی اس سرسبز و شاداب وادی پہنچے تھے جسے دیکھ کر جنت ارضی کا گماں ہوتا ہے۔ یہ شمالی علاقہ جات کا میرا پہلا سفر تھا اور فطرت کی خوبصورتی کو دیکھ کر مسحور کن کیفیت طاری تھی۔

ہنزہ کی صبح میں ایک خماری ہے۔ فجر کی اذانوں نے رات کی ظلمت کا پردہ چاک کیا اور صبح کی نوید سنائی۔ ریسٹ ہاؤس میں ہمارے کمرے کے روشن دان سے سورج کی کرنیں چھن چھن کر آرہی تھیں۔ باہر نکلے تو راکا پوشی نے استقبال کیا جس کی حسین چوٹی کسی پردہ نشیں کی مانند بادلوں کا پیرہن پہنے تھی۔

لوگ اسے وارفتگی سے دیکھتے اور مسخر کرنے کی آرزو لیے گھروں کو واپس لوٹ جاتے، تاہم اس کا قرب آسان نہ تھا۔ اس کےلیے سخت محنت اور کٹھن راستہ طے کرنا ہوتا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

پوری شان سے سورج طلوع ہوتا اور بادل چھٹتے تو راکا پوشی اپنے محبوب کےلیے بادلوں کا نقاب اتارتی؛ اور یوں دامن میں سیکڑوں سیاحوں کو اس بہانے اس کا دیدار نصیب ہوتا۔ مگر کبھی کبھی وہ سورج کو بھی اپنا دیدار کرانے سے انکار کردیتی۔

میرا یہ سفر ایک کتاب کی مانند ہے جس کے بہت سے مضامین ہیں اور میں صرف موضوعات کی فہرست ہی دیکھ سکا ہوں، چہ جائیکہ ہر مضمون ایک الگ کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایک روز کراچی سے رخت سفر باندھا اور اگلی رات اسلام آباد پہنچے جہاں سے منہ اندھیرے ہی شمال کے پربتوں کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ پہلا پڑاؤ بالاکوٹ میں ڈالا جہاں سے دریائے کنہار کا ساتھ شروع ہوا جو ناران اور اس سے بھی آگے تک جاری رہا۔ فطرت کی رنگینیوں اور رعنائیوںِ نے ذہن پر جمے زنگ کو کھرچا، تو اندر سے وہی ننھا بچہ مچلنے لگا جسے جنگلوں میں کھوجانے کا شوق تھا۔

شہر کی مشینی بھاگ دوڑ کی زندگی سے ذہن و خیالات پر مسلط جمود ٹوٹا، کھلی تازہ مہکتی فضاؤں میں سانس لیا تو رب کا شکر ادا کیا جس نے ہم پر بے پناہ احسانات کیے۔

بالا کوٹ میں ہوٹل کے پہلو میں چھوٹے سے کھیت میں بھینس کے آگے چارہ ڈالنے میں مگن کسان اور ساتھ ہی قدرے اونچائی پر واقع اس کا گھر دیکھا۔ موقع سے فائدہ اٹھاکر ہم پہاڑ پر چڑھ گئے اور اس خوب صورت منظر میں شامل ہونے اور حصہ بننے کی کوشش کی۔

پہاڑ کے دامن میں اسی ہوٹل میں ناشتے کے بعد اوپر ہرے بھرے جنگل کا رخ کیا جہاں درختوں کی قطار در قطار چوٹی تک پہنچ رہی تھیں۔ سڑک کے دوسری طرف بہتا دریائے کنہار گنگنانے لگا۔

خدا کی شان دکھلاتا، اپنی دھن میں بہتا دریا، گنگناتے جھرنے، ٹھنڈا میٹھا پانی، جو آپ کی ساری تکان دور کرکے تازہ دم کردے، خوش گوار سی ٹھنڈ۔ یہ سب دیکھ کر طبیعت پر خودبخود شاعرانہ اور رومانوی مزاج غالب آجاتا ہے، تخلیق و تازگی کا پرمسرت احساس  پیدا ہوتا ہے۔

بالاکوٹ میں سید احمد شہیدؒ کے خون کی مہک رچی بسی ہے۔ دریائے کنہار کے کنارے چشم تصور سے اُس قافلہٴ سخت جاں کو دیکھا جس نے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور اسوہٴ حسینؓی پر عمل کیا۔ اس چھوٹے سے لشکر کے تمام سپاہی شہید ہوئے لیکن ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ اپنے خون سے انہوں نے جس کھیتی کو سینچا وہاں ایک نئی مملکت کی فصل اُگی اور ارض مقدس پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

ناران کا سفر دوبارہ شروع ہوا تو دریائے کنہار کبھی نزدیک، اور آتا کبھی روٹھ کر دور چلا جاتا۔ اس میں غسل کی حسرت لیے چلتے چلے گئے کہ ٹھنڈے یخ پانی میں اترنے کا سوچ کر ہی شوق ہوا ہوگیا۔

گاڑی کے شیشے سے درخت تیزی سے پیچھے بھاگتے دکھائی دیئے… دور دھند میں لپٹے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ پہاڑوں سے گزرتی سڑک، درختوں سے بھری وادیوں کے دلکش نظارے، نشیب کی طرف تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ، روح پر سرشاری کی کیفیت طاری کرتے ہیں۔

مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ تو آغاز سفر ہے اور آگے اس سے بھی زیادہ حسین فطری خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ ہم تو ابتداء میں ہی جھومنے پر مجبور ہوگئے۔

چاروں طرف سرسبز و شاداب پہاڑ، ان پر بنے تکونی چھتوں والے مکانات، درمیان میں پیالے کی مانند وادیاں جن کے نشیب میں بنے گاؤں، وہاں بکریاں چراتے چرواہے، جن کے بڑے بڑے ریوڑ تھے۔ اوپر نیلگوں آسمان جہاں بادلوں کے قافلے برسنے کےلیے نہ جانے کس سمت گامزن تھے۔ یہی سب دیکھتے دیکھتے نہ جانے کب ہم کاغان میں داخل ہوگئے۔

کاغان سے پہلے کیوائی آبشار پہنچے تو قدرت کے اس حسین مقام نے دل موہ لیا۔ صاف شفاف پانی کا بہتا آبشار گنگنا رہا تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے یہیں بس جاؤ، لیکن ہرجائی مسافر کہاں رکتے ہیں۔ آتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہزار رعنائیوں کے باوجود آگے چل پڑتے ہیں کہ یہی دستور دنیا ہے؛ سو میں نے بھی یہی کیا اور ناران پہنچ کر ہی دم لیا۔

کراچی سے اسلام آباد 22 گھنٹے تک ٹرین کا سفر اور مزید 12 گھنٹے کی ڈرائیو یعنی 32 گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد میں تھکن سے چور ہوچکا تھا لیکن طویل سفر کے بعد جب دن 12 بجے کے لگ بھگ ہم ناران پہنچے اور ایک پہاڑ سے بہتے چشمے میں پاؤں ڈالے تو یخ برفیلے پانی نے دو روز کی تھکن یک لخت دور کردی۔ ہاتھوں کی اوک بنا کر پانی پیا تو رگ و جاں میں تازگی دوڑ گئی، ٹھنڈے میٹھے پانی سے سیراب اور روح سرشار ہوگئی۔

ناران سے چلے تو وادی بیسل میں دوپہر کے کھانے کےلیے رکے۔ وہاں خاصی ٹھنڈ تھی۔ بادلوں سے ڈھکا آسماں، چہار سُو خشک پہاڑ، درمیان میں ایک ہوٹل۔ اس علاقے میں موسم سرما میں شدید برف باری ہوتی ہے اور راستے بھی بند ہوجاتے ہیں۔ ماحول کا جائزہ لینے کے بعد جب نل کھولا تو لگا جیسے برف سے وضو کررہا ہوں۔

ناران میں مختصر سے قیام کے بعد جھیل لولوسر پہنچے۔ کینواس پر کسی خوبصورت پینٹنگ جیسی لولوسر جھیل کا پانی، چاندی کی مانند جھلمل جھلمل کررہا تھا۔ موسم سرما میں یہ جھیل جم جاتی ہے۔ اس کے پانی سے خود کو تر کرنے کی خواہش کو سختی سے کچل دیا کہ برفیلا اور گہرائی زیادہ تھی۔ پہاڑوں کی اوٹ سے بادلوں میں چھپے سورج کی دبی دبی مسکراہٹ اور جھیل کے پانی میں پہاڑوں کا عکس دکھائی دیا۔

لولوسر سے بلندی کا سفر جاری رہا اور شام کے جھٹپٹے میں ہم پہاڑی درہ بابو سر پہنچے تو 13 ہزار فٹ کی بلندی پر سخت سردی سے ٹھٹھر کر رہ گئے۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا تھا جو گویا برسنے کو بے تاب تھے۔ دل چاہے کہ دیوانہ وار ان پہاڑوں میں جائے اور وہیں بس جائے۔

گاڑی سے باہر نکلتے ہی سخت سرد ہوا کے جھونکے نے آن دبوچا اور کانوں سے جیسے دھواں نکلتے محسوس ہوا۔ لیکن ہلکی ہلکی برف کو دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی کیونکہ یہ میری زندگی کی پہلی برف باری تھی۔ آس پاس روئی جیسی نرم نرم برف پڑی تھی اور بچے بڑے گولے بناکر ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ بابو سر ٹاپ پر ایک وسیع میدان بھی ہے جہاں جگہ جگہ برف پڑی تھی۔

بابوسر ٹاپ پر کوڑا کرکٹ دیکھ کر افسوس ہوا۔ کسی نے سنگ میل پر بھدی چاکنگ کرکے حسین چہرے پر بدنما داغ لگا دیا تھا۔ ایک ڈھابے میں انگاروں پر ہاتھ تاپتے ہوئے بھاپ اڑاتی گرما گرم چائے کا گھونٹ بھرا تو جیسے جان میں جان آگئی اور حواس بحال ہوگئے۔ ڈرائیور نے چلنے کےلیے ہارن بجایا کیونکہ اندھیرے میں اس علاقے میں گہرائی اور خطرناک موڑ کی وجہ سے سفر کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھے تو سخت سردی میں وہ کوئی عافیت کدہ معلوم ہوئی۔

بابو سر سے آگے کا سفر کافی خطرناک ہے کیونکہ ایک تو انتہائی ڈھلانی سڑک ہے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر خطرناک اندھے موڑ آتے ہیں جن کے کنارے پر کوئی حفاظتی باڑ بھی موجود نہیں۔ ڈرائیور کی ذرا سی بے احتیاطی سے گاڑی پھسل کر ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گر سکتی ہے اور بڑا جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ناگ کی طرح بل کھاتی سڑک پر مسلسل بریک پر پیر رکھ کر نیچے اترنا پڑتا ہے۔ ہر خطرناک موڑ پر اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جائے؛ اور ہم قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے نیچے اترتے رہے۔

نشیب میں پہنچے تو پہاڑوں میں گھری خوبصورت وادی دیکھی جہاں پہاڑوں پر سیڑھیوں کی مانند تہہ بہ تہہ منزلیں تھیں جن پر لہلہاتے کھیتوں میں سبزیاں اگی تھیں۔ ساتھ ہی بہتا دریا جس کا ٹھنڈا میٹھا پانی جسم و روح کو سرشار کردے۔ فطرت اپنی  تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر تھی کہ اس میں دیکھنے والوں کےلیے نشانیاں ہیں اور فکر کا سامان بھی۔ بے ساختہ توحید کا نعرہ مستانہ لبوں سے بلند ہوا۔ بابو سر کا درہ شاہراہ قراقرم کو چلاس سے ملاتا ہے۔ ہمارا رات کا پڑاؤ چلاس میں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: راہی نانگا پربت کا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔