من مانیوں سے کام نہیں چلے گا

سندھ کو اب بھی یہ شکایت ہے کہ پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے۔


Muhammad Saeed Arain June 21, 2013

گزشتہ دور میں کی گئی 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد جہاں صوبائی خود مختاری میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے وہاں صوبوں کی من مانیاں بھی بڑھ گئی ہیں اور صوبوں کی ان من مانیوں سے صوبوں میں اقربا پروری، میرٹ کی پامالی، غیر قانونی طور پر افسران کی تعیناتیاں، صوبائی فنڈز کا غلط استعمال، سرکاری زمینوں پر قبضے اور دیگر غیر قانونی اقدامات کی شکایات حد سے بڑھ گئی ہیں اور پہلا موقع ہے کہ چاروں صوبوں میں چار مختلف جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ اختیارات بھی حاصل ہیں اور اسی وجہ سے اب ہر جگہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہو گا اور پھر صوبوں کی طرف سے وفاق پر صوبوں کو ان کے اختیارات مقررہ فنڈز نہ ملنے اور پسندیدہ افسروں کی تعیناتیوں کی شکایات پیدا ہونے لگیں گی۔ صوبوں کی آپس کی شکایات بھی بڑھیں گی اور فاق پر بھی الزامات لگنا شروع ہوں گے۔

سندھ کو اب بھی یہ شکایت ہے کہ پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے۔ ایسا ہی الزام سابق بلوچستان حکومت نے سندھ پر لگایا تھا جب کہ دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت تھی۔ پہلے تمام صوبے وفاق پر الزامات لگاتے تھے کہ وفاق صوبوں کو خود مختاری نہیں دے رہا جس کی وجہ سے صوبوں کے اختیارات محدود تھے اور صوبوں کی زیادہ آمدنی کا انحصار وفاق سے ملنے والی گرانٹس پر ہوتا تھا۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کے جماعت اسلامی کے وزیر خزانہ نے وفاق پر دو مدوں میں پوری رقم وفاق سے نہ ملنے کی شکایت کی ہے اور یہی شکایت سندھ بھی کرنے لگے گا۔ بلوچستان کا معاملہ اس بار مختلف رہے گا۔ جہاں بلوچستان کے حالات اور وفاق سے شکایات کے باعث مسلم لیگ ن نے پہلی بار اپنا حق اپنی خوشی سے چھوڑ کر وہاں کی قوم پرست دو جماعتوں کو حکمرانی کا موقع دیا ہے جہاں مسلم لیگ ن کا اپنا مسلم لیگی گورنر ہے نہ وزیراعلیٰ۔

میاں نواز شریف کے اس قابل تعریف اقدام سے توقع یہی ہے کہ بلوچستان حکومت وفاق سے مل کر چلے گی اور وفاق بھی بلوچستان کو وہ کچھ دے گا جس کے نہ ملنے کی شکایات ماضی کی ہر بلوچستان حکومت نے وفاق سے کی اور حد تو یہ تھی کہ سابق وفاقی اور بلوچستان حکومتیں پیپلز پارٹی کی تھیں اور فوج کا سپریم کمانڈر اور صدر مملکت بلوچ تھا اور ستمبر تک موجود رہے گا۔ اتنی واضح قربت کے باوجود سابق بلوچستان حکومت وفاق سے شکایات کرتی رہتی تھی۔ سندھ کی گزشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو 5 سال میں سندھ میں جو کچھ بے قاعدگیاں اور من مانیاں ہوتی رہیں وہ ابھی تک کھل کر قوم کے سامنے نہیں آئیں اور نہ فی الحال آئیں گی کیونکہ سندھ میں دوبارہ پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور یہ حکومت اپنی بے قاعدگیوں اور من مانیوں کو چھپانے میں کامیاب رہے گی۔

سندھ حکومت کے 5 سال میں غیر قانونی تقرریوں اور تعیناتیوں کی شکایات پر سپریم کورٹ کا حکم آ چکا ہے اور سندھ میں برسوں سے جاری بدامنی اور سرکاری زمینوں پر قبضوں کے معاملات پر سپریم کورٹ از خود کارروائی کر کے احکامات دے چکی ہے۔ سندھ کی سابق حکومت نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا سندھ ہائی کورٹ کا حکم نہیں مانا تھا جس پر سندھ حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی اب تک نہیں ہوئی اور سندھ کے وزیر اعلیٰ اب بھی بلدیاتی انتخابات سال رواں میں بھی کرانے کو تیار نہیں ہیں اور سپریم کورٹ نے سندھ میں 1979ء کے بلدیاتی نظام کی بحالی کو غیر قانونی قرار دیا تھا جو اب تک سندھ میں چل رہا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اعلیٰ پولیس افسران کو خلاف ضابطہ ترقی دینے کو بھی غیر قانونی قرار دیا ہے جسے وزیر اعلیٰ سندھ اب بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں اور اپنی حکومت کے غیر قانونی فیصلوں کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔

صوبائی خود مختاری کے نتیجے میں متعدد وفاقی حکومت کے محکمے صوبائی حکومتوں کو مل گئے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور بلدیات جیسے اہم محکمے بھی شامل ہیں۔ ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم موجود نہیں ہے۔ صوبوں میں بر سر اقتدار ہر پارٹی کی تعلیمی ترجیحات مختلف ہیں۔ ہر صوبے کا اپنا اپنا نظام تعلیم ہے جس کے نتیجے میں بہتری کے بجائے بدتری آئی ہے اور سندھ میں تعلیم اور محکمہ تعلیم کا حال سب سے خراب اور کرپشن زدہ ہو چکا ہے۔

صحت بھی اہم شعبہ ہے جو اب مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہے اور ملک بھر میں اسپتالوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ صوبوں کے اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ اپنے صوبے کے شہروں اور خاص کر دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کر سکیں۔ تعلیم اور صحت کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں اور سرکاری اسپتالوں سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور نجی تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کو بے حد فروغ ملا ہے۔ سندھ میں نجی تعلیمی ادارے سندھ حکومت سے زیادہ من مانیوں کے عادی ہو چکے ہیں اور سندھ حکومت کے احکامات تک نہیں مانتے۔ یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے فیسیں اپنی مرضی کی وصول کرتے ہیں اور بڑھاتے ہیں اور سندھ حکومت کے چھٹیوں کے احکامات تک نہیں مانتے، یہ صرف سندھ میں نہیں چاروں صوبوں میں ہو رہا ہے مگر من مانیوں کی عادی صوبائی حکومتیں سیاسی مفاد اور سفارشوں کے باعث ایسے تعلیمی اداروں کے آگے بے بس ہیں اور کچھ نہیں کرتیں۔

عوام کے مفاد میں صوبائی حکومتیں بے بس اور سیاسی مفاد، اقربا پروری اور مال کمانے کے لیے خلاف ضابطہ تبادلے، تقرری اور ترقی کے معاملہ میں مکمل با اختیار ہیں۔ مہنگائی پر کنٹرول اور قیمتوں پر چیک رکھنا اب صوبائی حکومتوں کے اختیار میں ہے مگر کوئی صوبائی حکومت اپنی اس اہم ذمے داری کی ادائیگی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی اور چونکہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس لیے دکھاوے کے لیے صوبائی حکومتیں متحرک ہو جائیں گی اور گراں فروشوں پر چند روز جرمانے کیے جائیں گے مگر ہول سیلرز اور بڑے تاجروں کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی اور چھو ٹے دکاندار اور ٹھیلے، پتھارے والوں پر جو بھی جرمانہ ہو گا وہ چھاپہ مار ٹیم کے جانے کے بعد نرخ مزید بڑھاکر عوام سے وصول کر لیا جاتا ہے۔

گزشتہ 5 سال میں وفاقی حکومت نے کسی بھی صوبائی حکومت سے اس سلسلے میں کوئی باز پرس نہیں کی کہ صوبائی حکومتیں عوام کے لیے من مانی کیوں نہیں کرتیں، وفاقی حکومت جانتی ہے کہ جو صوبائی حکومتیں عدلیہ کے احکام نہیں مانتیں وہ وفاقی حکومت کی ہدایات کو کیوں اہمیت دیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں