اسلام میں مہمان نوازی کی اہمیت

مفتی محمد وقاص رفیع  جمعـء 9 نومبر 2018
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔‘‘ فوٹو : فائل

حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔‘‘ فوٹو : فائل

مہمان کا پُرتپاک استقبال کرنے اور اُسے خوش آمدید کہنے، اُس کی خاطر مدارات کرنے کا رواج روزِ اوّل سے ہی دنیا کی تمام مہذب اقوام کا شعار رہا ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب و ضوابط کا پابند بنایا ہے۔

حضور اقدس ؐ کے ارشاد مبارک کا مفہوم: ’’جو شخص اللہ جل شانہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ۔ مہمان کا جائزہ (خصوصی اعزاز و اکرام) ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے۔ اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘ (بخاری، مسلم)

حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے : ’’ میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے ، جب رسول اللہﷺ یہ ارشاد فرما رہے تھے: ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سائے کی تکریم کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا جائزہ بھر ( یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ کسی نے پوچھا: ’’ یارسول اللہ ﷺ! ’’جائزہ‘‘ کیا ہے؟ ‘‘ آپؐ نے فرمایا: ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے۔‘‘ اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘ ( الادب المفرد)

حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔‘‘

حضرت سمرۃؓ فرماتے ہیں: ’’حضورِ اقدسؐ مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (مجمع الزوائد) حضرت ابوکریمہ السامیؓ بیان کرتے ہیں، نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ مہمان کی رات کو خاطر داری کرنا ہر ایک مسلمان پر واجب ہے۔ جس نے کسی کے گھر میں رات گزاری وہ شخص اس گھر والے پر ایک قسم کا قرض ہے اگر چاہے تو اسی دن اس قرض کو ادا کرے (یعنی وہاں رات گزار ے) اور اگر نہ چاہے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘ (اور وہاں رات نہ گزارے) (الادب المفرد)

ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت علیؓ رو رہے ہیں۔ اس نے سبب پوچھا تو آپؓ نے فرمایا: ’’ سات دن سے کوئی مہمان نہیں آیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں حق تعالیٰ شانہ نے میری اہانت کا ارادہ تو نہیں کرلیا۔‘‘ (احیاء العلوم)

بعض جگہوں اور بعض لوگوں کی یہ بھی عادت دیکھنے کو ملی ہے کہ مہمان بھلا کتنا ہی دور دراز کا سفر طے کرکے کیوں نہ آیا ہو، یا مہمان کتنا ہی عزیز اور قریبی کیوں نہ ہو، بہ ہر حال اس کی مہمان نوازی اور اس کی خاطر مدارات کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کا حل بھی رسولِ اکرم ؐ نے اپنی امت کے سامنے خوب اچھی طرح پیش فرمایا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! (اگر) آپؐ ہمیں کسی قوم کے پاس بھیجیں اور وہ لوگ ہماری ضیافت نہ کریں تو آپؐ کی رائے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ میں بتاتا ہوں کہ مہمان کو کیا کرنا چاہیے؟ جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ تو تم انہیں (اپنی مہمان نوازی کی طرف) متوجہ کرو! اگر وہ مہمان نوازی نہ کریں تو اس قدر لے لو جتنا کہ ایک مہمان کو لے لینا چاہیے۔‘‘ (الادب المفرد )

بہ ہر حال مہمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کہیں جاکر اس قدر طویل قیام نہ کرے کہ جس سے میزبان کو تنگی اور دقت پیش آنے لگے اور وہ کوئی ایسی حرکت کرنے لگ جائے کہ جس سے میزبان کو اذیت کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی طرح مہمان کا میزبان سے ایسی فرمائش کرنا کہ جو وہ پوری نہ کرسکتا ہو اور اس سے اس کو دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہو تو یہ بھی میزبان کو تنگی میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

لہٰذا دوسروں کے گھر میں جاکر چناں و چنیں کرنا، یہ چاہیے وہ چاہیے کہنا، ہرگز مناسب نہیں، جو وہ حاضر کر رہا ہے اس کو صبر و شکر سے بشاشت کے ساتھ لے لینا چاہیے۔ اس لیے کہ فرمائشیں کرنا بسا اوقات میزبان کی دقت اور تنگی کا سبب ہوتا ہے، البتہ اگر میزبان کے حال سے یہ اندازہ ہو کہ وہ فرمائش سے خوش ہوتا ہے، مثلاً فرمائش کرنے والا کوئی بہت قریبی عزیز یا دوست ہو اور جس سے فرمائش کی جائے وہ اس پر دل و جان سے جان نثار ہو تو پھر جو چاہے فرمائش کرسکتا ہے۔

امام شافعیؒ بغداد میں امام زعفرانیؒ کے مہمان بنے۔ امام زعفرانی ؒ روزانہ امام شافعیؒ کی خاطر اپنی ایک باندی کو ایک پرچہ لکھا کرتے تھے، جس میں اس وقت کے کھانے کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ امام شافعیؒ نے ایک وقت باندی سے پرچہ لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا اضافہ فرما دیا۔

دسترخوان پر جب امام زعفرانیؒ نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا۔ وہ پرچہ لے کر آقا کے پاس آئی اور پرچہ دکھا کر کہا: ’’ یہ چیز حضرت امام شافعیؒ نے خود اپنے قلم سے اضافہ فرمائی تھی۔‘‘ امام زعفرانیؒ نے جب اس کو دیکھا اور حضرت امام شافعیؒ کے قلم سے اس میں اضافے پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہوگئے اور اس خوشی میں اس باندی کو ہی آزاد فرما دیا۔ ( احیاء العلوم)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔