ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)

ببرک کارمل جمالی  جمعرات 29 نومبر 2018
یہ عجیب بات ہے کہ موئن جودڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں، سب سے زیادہ ترقی کا پتا دیتے ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

یہ عجیب بات ہے کہ موئن جودڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں، سب سے زیادہ ترقی کا پتا دیتے ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ہم سکھر شہر کو الوداع کہنے کے بعد موئن جو دڑو کی طرف چل پڑے۔ یہ میرا الیکشن کے بعد بلوچستان سے سندھ کا پہلا سفر تھا۔ وادی مہران قدرت کے بہت سارے رنگوں سے لبریز ہے جو انسانی آنکھ کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ کارونجھر سے کینجھر، مکلی سے کاچھو سے کوہستان اور سندھو دریا، سب ہی فطرت کے حسین نظاروں کا خوبصورت عکس ہیں۔ ہم جب موئن جودڑو جیسا عالی شان شہر دیکھتے ہیں جس کے مکانات پختہ اور مضبوط تھے جہاں میں سڑکیں بھی ہیں اور بازار بھی؛ جہاں کے باشندوں کی زندگی رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بلاگ ضرور پڑھیے: ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)

یہ عجیب بات ہے کہ موئن جودڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں، سب سے زیادہ ترقی کا پتا دیتے ہیں۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے زوال آتا رہا۔ موئن جودڑو کا قلعہ ایک ٹیلے پر واقع ہے جو جنوب میں سطح زمین سے بیس فٹ اونچا ہے اور شمال میں چالیس فٹ۔ موئن جوداڑو میں پہلی آبادی سے لے کر آخری تک شہر کا نقشہ جوں کا توں، وہی رہا۔ مکانوں کا گلی میں کھلنے کا راستہ اور بغلی گلیاں، سب اپنی جگہ بار بار بنتی رہیں۔ اس سے پگٹ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان تمام برسوں میں یا تو ایک ہی خاندان کی حکومت رہی اور اگر خاندان تبدیل بھی ہوا تو بھی قدیم روایات بغیر کسی گڑبڑ کے من و عن منتقل ہوتی رہی ہیں؛ اور ایسا مذہبی تسلسل کے ذریعے ممکن ہوا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پیداواری آلات، ذرائع اور نظام معیشت میں تبدیلی نہیں ہوئی ہوگی۔

موئن جو دڑو کے آثار اور نظاروں میں قدم قدم پر پانچ ہزار سال پرانی تاریخ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ جب یورپ کے بےلباس لوگ غاروں میں پڑے تھے، اس وقت اس طلسماتی شہر میں زیورات اور اجرک پہنی جاتی تھی، شہنائیاں گونجتی تھیں اور مقامی لوگ جہازوں پر بیٹھ کر سمندر کی موجوں سے کھیلتے تھے۔ موئن جو دڑو وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے؛ جبکہ 160 کلو میٹر جعفرآباد سے فاصلے پر ہے۔

یہ وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ (صوبہ پنجاب) سے 686 میل دور ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح میں موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہ کی بناء پر ختم ہوگیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اس کی اہم وجوہ ہوسکتی ہیں۔

چلتے چلتے ہم نے وہ سڑکیں بھی دیکھیں جو جدید دور میں تعمیر کرائی گئی ہیں، لیکن وہ بھی اب موئن جو دڑو کی طرح برباد ہوچکی ہیں۔ اربوں روپے لاڑکانہ سے موئن جو دڑو تک روڈ بنانے کےلیے دیئے گئے تھے۔ کون کھا گیا؟ شاید موئن جودڑو کی بدروحیں۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ہمارا سفر سکھر سے کچھ اس طرح شروع ہوا: بائیکس کو فیول سے فل کرکے موئن جو دڑو کی سر زمین تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے تین گھنٹے لگ گئے اور آدھا گھنٹہ سندھ پولیس کو کاغذات دکھاتے دکھاتے اور خرچی دیتے گزرا کیونکہ دو بائیکس کے کاغذات جو نہ تھے۔

موئن جو دڑو کے مین گیٹ پر پہنچ کر ہم نے اندر داخل ہونے کی ناکام کوشش کی مگر اوقاف والوں نے ہمیں گھیر لیا۔ ’’بھائی اندر جانے کے ٹکٹ کے 20 روپے دو پھر اندر جاﺅ‘‘ ہم ٹھہرے آٹھ بندے، اس لیے ہم نے دو سو روپے انہیں دیئے تو انہوں کہا ’’بھائی باقی 40 روپے ہماری خرچی۔‘‘ ہم دوستوں نے خاموشی اختیار کی اور بائیک کے ساتھ باغ موئن جو دڑو میں داخل ہوگئے اور بائیک اسٹینڈ والے کو تھما دیئے۔ اندر کوئی گائیڈ تلاش کرنے لگے تو ایک ایسا گائیڈ ملا جس نے ہمیں بتایا کہ وہ وزٹ کروانے کے دو ہزار روپے سے کم نہیں لے گا۔ ہم سب دوستوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو سب کے پاس دو ہزار تھے ہی نہیں؛ تو ہم نے گائیڈ کے بغیر اس عجوبے کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ لہذا آدھے گھنٹے تک موئن جو دڑو کو دیکھ دیکھ کر تھک گئے۔

اسی دوران کچھ گورے آ پہنچے۔ لمبے لمبے بوٹ، اونچے اونچے قد اور سرخ سرخ چہرے کے ساتھ اس سر زمین پر گھوم رہے تھے۔ ہم سے پوچھا ’’کیا یہاں کوئی گائیڈ ملے گا۔ ہم نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں یس کہا اور ان کو گائیڈ کے پاس لے گئے۔ ان لوگوں نے آپس میں رقم طے کی۔ ہم نے اس گائیڈ کو کہا ’’دیکھو ہم نے تمہیں کلائنٹ دیئے ہیں اب ہم بھی ساتھ ہوں گے۔‘‘ اس طرح ہم دوبارہ موئن جو دڑو کی وادی میں ایک لشکر کی طرح داخل ہوگئے جیسے اس شہر کے مالک ہی ہم تھے۔

گائیڈ نے کچھ اس طرح موئن جو دڑو کا تعارف کرایا:

1921 کا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بینرجی کو موئن جو دڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ جبکہ موئن جو دڑو کی کھدائی 1922 میں کی گئی۔ موئن جو دڑو میں قلعے کے اندر موجود اصل شہر ایک منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا تھا، جس کے ارد گرد گلیاں ایک جال کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور گلیوں کے اس جال میں جگہ جگہ عمارتوں کے بلاک میں قلعہ اور شہر، اور قلعے کے درمیان ایک واضح خلا ہے۔ ہوسکتا ہے قلعے کے ارد گرد وسیع اور گہری خندق ہو جس میں پانی چھوڑا گیا ہو، یا پھر دریا کا پانی لایا گیا ہو یا قدرتی طور پر دریا کی ایک شاخ نے اس کو جزیرے کی شکل میں گھیر رکھا ہو۔ ’’یہاں پر موجود غسل خانے تھے جہاں لڑکیاں ہر روز نہانے آتی تھی‘‘ گائیڈ نے ایک تالاب نما نشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

موئن جو دڑو میں موجود اس رقاصہ کا مجسمہ دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ وہ زمانہ ابھی نہیں گیا جس زمانے میں یہ رقاصہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھی۔ جس دیس کے کوچے کوچے میں افلاس آوارہ پھرتی ہو، جہاں دھرتی بھوک اگلتی ہو، جہاں دکھ درد فلک سا گرتا ہو، جہاں بھوکے ننگے بچھے بھی آہوں پر پالے جاتے ہوں، جہاں سچائی کے مجرم بھی زندان میں ڈالے جاتے ہوں، اس دیس کی دھرتی برسوں سے یہ دکھ جگر پر سہتی ہے؛ یہ ننگی پنگی تصویر وادی سندھ کےلیے عبرت کا باعث ہے۔ موئن جو دڑو میوزیم کے سامنے نصب یہ مجسمہ نوجوان بچے اور عورتیں دیکھتے ہیں… یہ بھی عورت ہی تو ہے، وہ بھی مردوں کے دیس میں۔ زندہ لوگوں کےلیے عبرت ہے موئن جودڑو کی رقاصہ، سرزمین پاکستان کے قدیم کاریگروں کی مہارت کا شاہکار ہے۔ یہ مجسمہ آج بھی دنیا بھر میں وادی سندھ کی تہذیب کی علامت بن گیا ہے۔ اس کے پاؤں اور ٹخنے غائب ہیں اور موجودہ حالت میں اس کی اونچائی ساڑھے چار فٹ ہے۔

یہ مجسمہ موئن جودڑو کے ایک گھر میں سطح زمین سے ساڑھے چھ فٹ نیچے مدفون ملا تھا۔ یہ ایک کم سن فنکارہ ہے جو خوشی سے چور، زیوارات میں لدی، جام شراب ہاتھ میں لیے رقص کررہی ہے۔ دایاں ہاتھ اس نے کولہے پر رکھا ہوا ہے اور بائیں ہاتھ میں غالباً پیالہ پکڑا ہوا ہے۔ بایاں ہاتھ کندھوں تک چوڑیوں میں چھپا ہوا ہے اور دائیں بازو میں اس نے چند کنگن پہنے ہوئے ہیں۔ اس کی شکل بلوچستان کی قدیم آبادیوں سے ملنے والی مٹی کی مورتیوں میں دکھائی گئی عورتوں جیسی ہے۔ کانسی کا یہ اصل مجسمہ آج کل نیشنل میوزم آف انڈیا دہلی میں رکھا ہوا ہے۔

گائیڈ نے ایک طرف اشارہ کرتے کہا کہ یہاں گھر ہوتے تھے۔ ان میں سے بعض گھروں میں کمروں میں کے اندر اینٹوں سے کھڈیاں بنی ہوئی ہیں جن میں سوراخ دار برتن ہیں جو خمدار راستے سے زمین دوز نالی سے متصل ہیں۔ یہ ہزاروں سال پرانا فلش سسٹم ٹوائیلٹ ہے۔ خمدار راستے کے باعث برتن میں پانی کھڑا رہتا تھا، مگر بعض گھروں میں سیدھا فلیش ہوجاتا تھا۔ گھر سے گندے پانی کے نکاس کےلیے دیوار میں سوراخ بنایا جاتا تھا اور باہر زمین دوز نالیوں کے ذریعے یہ غلاظت شہر سے باہر چلی جاتی تھی۔

یہاں کی سب سے اہم پیداوار گندم ہوتی تھی۔ گندم کو صاف کرکے اسے ایک چکی میں آٹا بنایا جاتا تھا یا اکثر گندم کو سادہ پانی میں ابال کر کھایا جاتا تھا۔ موئن جو دڑو کے باسی دو پہیوں والی بیل گاڑی کو بطور ذریعہ مواصلات استعمال کیا کرتے تھے۔ موئن جو دڑو کے رہنے والے غالباً اس دنیا کی وہ پہلی قوم تھے جس نے رنگ بنائے اور ان سے سات رنگوں کے کپڑے تیار کیے جو سمندری کشتیوں کے ذريعے ساری دنيا کو برآمد کرنا شروع کيے۔

موئن جو دڑو میوزم میں داخل ہوتے وقت گائیڈ نے بتایا کہ بارہ سو سے زائد مہریں ملی ہیں۔ اوسط درجے کی مہریں اتنی شاندار ہیں کہ دستکاری کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ عموماً مہروں پر جانوروں کی حقیقت سے قریب تر شکلیں ہیں۔ کہیں کہیں دیو مالائی شکلیں ہیں مثلاً گھوڑے جیسا جانور جس کے ماتھے پر صرف ایک سینگ ہے، جسے انگریزی میں ’’یونیکورن‘‘ (Unicorn) بھی کہا جاتا ہے۔ وادی سندھ کی اس تہذیب کا اسکرپٹ (زبان کا رسم الخط) اب تک نہیں پڑھا گیا کیونکہ وہ باضابطہ شکل میں موجود نہیں؛ جبکہ دوسری جانب مہروں پر موجود تصاویر دیکھ کر ہی کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

گائیڈ نے بتایا کہ دنيا ميں سب سے پہلے صنعت کی بنياد سندھ ميں رکھی گئی۔ قدیم اہلِ سندھ ہی نے کپاس سے دهاگہ اور دهاگے سے کپڑا بنانے کی مشينيں (ارت اور آڈانا) ايجاد کيں۔ اس طرح سندھ ميں دنيا کی پہلی صنعت قائم ہونے کے باعث اسے ’’انڈس‘‘ کہا گيا اور بعد ازاں انگریزی لفظ ’’انڈسٹری‘‘ اسی سے وجود میں آیا۔ دنيا ميں ناپ تول کے اوزاروں کا نظام بھی پہلی بار موئن جو دڑو میں ہی متعارف کروايا گیا، پھر يہ اوزار ساری دنيا ميں بيچنا شروع کیے۔ اچانک گائیڈ نے ایک بلی دیکھی تو بتایا ’’گندم کے گودام کو چوہوں سے بچانے کےلیے یہاں بلیاں بہت پالی جاتی تھی۔‘‘

گائیڈ کی بتائی ہوئی بیشتر باتیں بعد میں غلط اور بے بنیاد ثابت ہوئیں، اس لیے ہم نے سوچا کہ اگر حکومت موئن جو دڑو میں سیر و سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے تو اسے کم از کم پڑھے لکھے گائیڈ بھرتی کرنے چاہئیں جو یہاں آنے والوں کی درست رہنمائی کریں نہ کہ من گھڑت قصے سنا کر اُن کا اور اپنا دل خوش کرنے کے چکر میں غلط معلومات فراہم کریں۔

موئن جودڑو کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر بتدریح زوال پذیر ہوا تھا۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار جب نئی تعمیرات ہوئیں تو ان کا معیار پہلے سے بہت پست رہا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریج دارالحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہوگیا۔ ہم زندہ لوگوں نے مردوں کی سرزمین کو الوداع کہا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مزار کی طرف چل پڑے جسے سندھ کے لوگ تاج محل کہتے ہیں۔ ہم اسی تاج محل کی طرف چل پڑے…

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔