حکومت کے 100 دن: بلند بانگ دعووں کا پہلا امتحان

محمد فیاض راجہ  جمعـء 30 نومبر 2018
 ہم سب پرانے پاکستان کو 9 دن میں بھلا کر نیا پاکستان 100 دن میں بنانا چاہتے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہم سب پرانے پاکستان کو 9 دن میں بھلا کر نیا پاکستان 100 دن میں بنانا چاہتے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تبدیلی کے پہلے 100 دنوں میں پاکستان کتنا تبدیل ہوا؟ امید اور ناامیدی کے پنڈولم پر جھولتی عوام کی قسمت میں صرف دل فریب وعدے ہی ہیں یا ملک کی سمت درست کرنے کےلیے پہلی اینٹ رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی کی گئی؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی سعی کرنا اور پھر اس سعی لاحاصل کو عوام کے سامنے پیش کرنا، پیشہ ورانہ مجبوری کا تقاضا ٹہرا۔ مگر ہائے افسوس کہ واچ ڈاگ کے دعوے پر پورا اترنے کی کوششوں اور تنقید برائے تنقید کے ’’بلٹ ان‘‘ فارمولے پر عمل کرنے کی ’’جزو لاینفک‘‘ مجبوریوں نے صحافی کو میڈیا مین بنا کر، اس سے تجزیئے کی صلاحیت چھین کر، ہاتھوں میں قلم کے بجائے فیصلے کا ہتھوڑا تھما دیا ہے۔

معاشی حالت انفرادی ہو یا ملکی، ہماری روزمرہ کی بیٹھکوں سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارت کے مضامین تک میں اس کا ذکر لازم قرار پاتا ہے۔ مگر اس حقیقت کو شاید بہت کم لوگ سمجھتے ہیں کہ لمحہ موجود میں ہماری یا ملک کی جو معاشی حالت ہوگی اس کا تعلق صرف گزرے 100 دنوں سے ہی جوڑنا شاید مکمل سچ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کسی بھی دیرپا شخصی کاروبار کے دوران اٹھائے گئے اقدمات کے معاشی نتائج اگر 100 دن میں حاصل کرنے کی خواہش رکھنا بے وقوفی ہے تو کاروبار حکومت کے دوران اٹھائے اقدامات کے معاشی نتائج 100 دنوں میں کیونکر حاصل کیے جاسکتے ہیں؟ معاشی ماہرین تو ایک طرف، معیشت سے مکمل آگہی نہ رکھنے والے بھی یہ بات جانتے ہیں کہ معاشی اشاریوں کا تقابل مہینوں کے بجائے برسوں سے کیا جانا ہی اقدامات کے حقیقی نتائج کو آشکار کرتا ہے۔

دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے جی ڈی پی، افراط زر، زرمبادلہ کے ذخائر، کرنسی کی قدر، ترسیلات زر، برآمدات اور درآمدات جیسے اقتصادی اشاریوں کا ذکر ماہانہ بنیادوں پر تو ضرور کیا جاتا ہے مگر ان کے درمیان تقابل صرف برسوں کے حساب سے ہی کیا جاتا ہے۔ اور حکومتوں کی معاشی کارکردگی کے نتائج بھی روززانہ یا ماہانہ بنیادوں نہیں بلکہ گزرے اور موجودہ مالی سال کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اسے آسانی کےلیے یوں سمجھ لیجیے کہ گزشہ مالی سال میں جی ڈی پی، افراط زر کی شرح کچھ یوں تھی اور رواں برس کچھ یوں رہی۔ یا پھر گزشتہ مالی سال میں زرمبادلہ کے ذخائر، ترسیلات زر، برآمدات اور درآمدات اتنی تھیں اور رواں مالی برس میں اتنی بڑھ گئیں یا کم ہوگئیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر صرف اور صرف وقتی معاشی اشاریوں کو لے کر، ان کی بنیاد پر، ایسے ایسے فیصلے پڑھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کہ ’’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ اور یوں ٹی وی اسکرینوں سے لے کر اخبارات کے صفحات تک، روزانہ اور ماہانہ بنیادوں پر زور زبردستی نکالی اور پھیلائی بظاہر معاشی ناکامیوں کے شور میں سماجی کامیبایوں کی جھلک ڈھونڈنا گویا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔

اگرچہ یہ درست ہے کہ معیشت کی سمت درست کرنے کےلیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج دنوں یا مہینوں نہیں برسوں میں برآمد ہوا کرتے ہیں، اور اس کےلیے موجودہ حکومت کو کم از کم ایک برس نہ دینا صریحاً زیادتی ہوگی۔ مگر کیا کریں، بڑے بڑے بول بولنے والے اپوزیشن لیڈر عمران خان، وزیراعظم بننے کے بعد اپنے ہی بلند بانگ دعووں کے بنائے پہاڑ کے اندر چھپ گئے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی غلط نہیں کہ ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے کئی نامور میڈیا مین، عمران خان کی حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر بظاہر ردعمل کی کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں صرف ملکی معیشت کے جلد باز فیصلے نما تجزیوں کو ہی مکمل تصویر کی صورت پیش کرنے کے عہد میں ہمیں وزیراعظم، کابینہ اور پارلیمنٹ کی کارکردگی سے لے کر گڈ گورننس، داخلہ محاذ، خارجہ پالیسی اور سماجی شعبے کے میدانوں تک میں، تحریک انصاف کی حکومت کے 100 روز میں اٹھائے گئے اقدامات پر بھی ضرور نظر ڈالنا ہوگی۔

18 اگست 2018 کو عمران خان نے پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ وزیراعظم بنتے ہی خارجہ پالیسی کے محاذ پر پہلا بڑا چیلنج گستاخانہ خاکے بنانے کے حوالے سے ڈچ پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والا مقابلہ تھا۔ حکومت نے اس مقابلے کے خلاف چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینٹ سے قرارداد منظور کروائی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے کو اقوام متحدہ اور او آئی سی میں لے جانے کا اعلان کیا۔ حکومت کی محنت رنگ لائی اور ڈچ حکومت نے 30 اگست کو یہ مقابلہ منسوخ کر دیا۔ پوری دنیا کے تمام بڑے اخباروں میں یہ سرخی لگی کہ پاکستانی حکومت کے احتجاج کی وجہ سے ڈچ پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں سے متعلق ہونے والا تصویری مقابلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔

اپنی پہلی تقریر میں عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس میں نہ رہنے اور تمام گورنر ہاؤسز کو عوام کےلیے کھولنے کا وعدہ کیا۔ وزیراعظم نے 1100 کینال اور 100 سے زائد کمروں پر مشتمل وزیراعظم ہاؤس کی بجائے 4 کنال اور 3 بیڈ روم پر مشتمل، اپنے ملٹری سیکٹری کے گھر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ 524 ملازمین میں سے صرف چند کے علاوہ تمام ملازمین کو وزیراعظم ہاؤس سے رخصت کر کے مختلف سرکاری محکموں کے حوالے کر دیا گیا۔ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے کےلیے فالتو گاڑیوں اور شوق سے پالی بھینسوں کی نیلامی کے فیصلے بظاہر نمائشی مگر اصولی ہی گردانے جائیں گے۔

حکومت نے کسانوں، اسکول، مساجد اور اسپتالوں کےلیے بجلی کے ریٹ پچاس فیصد کم کر دیے۔ یہ فیصلہ زرعی ملک کی معیشت اور سماجی شعبے کی خدمات کوسہارا دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس سستے داموں دینے کا فیصلہ کیا گیا، یوں برسوں سے بند پڑی ٹیکسٹائل ملیں دوبارہ چلنے کی امید پیدا ہوگئی ہے جس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

حکومت کی جانب سے تمام وزیروں اور مشیروں کو فرسٹ کلاس میں سفر کرنے پر اور ان کے بیرون ملک علاج کرانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ نئے پاکستان میں صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی غیر ملکی دورے پر جاتے ہوئے اپنے ملکی ائیرپورٹ پر بغیر پروٹوکول امیگریشن کرواتے ہوئے اپنے بیگ کی اسکریننگ خود کرواتے اور عام پرواز پر سفر کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وزیر خارجہ اقوام متحدہ میں خطاب کرنے گئے تو وزیروں، بیوروکریٹس اور صحافیوں کی فوج ظفر موج ان کے ساتھ نہیں گئی۔ وزیر خارجہ، امریکہ میں مقامی ٹرین میں سفر کرتے نظر آئے۔ حکومت نے میرٹ پر کیرئر ڈپلومیٹ مقرر کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

ملک کے داخلہ محاذ پر، آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد دینی جماعتوں کا ملک گیر احتجاج سمجھداری سے صرف چار دنوں میں ختم کیا گیا۔ ایک سال قبل گزشتہ حکومت میں دیا گیا دھرناحکومت سے سنبھالا نہیں گیا تھا۔ وہ دھرنا بیس دن تک جاری رہا۔ جو وفاقی وزیر کی رخصتی، ناکام پولیس آپریشن اور فوج کی ضمانت کے بعد ختم ہوا تھا۔

کہاوت ہے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ کو برابری کی سطح پر جواب دیا گیا اور کرتار پور بارڈر کھولنے کے مشکل مگر بہادرانہ فیصلے سے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا۔ ان دونوں اقدامات کو پاکستان کے اندر اور باہر پسندیدگی اور حیرت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

بڑے شہروں میں حیرت انگیز طور پر ٹریفک کے نظام میں نظم و ضبط نظر آرہا ہے۔ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ لازمی پہن رہے ہیں۔ گاڑیوں کے مکمل کاغذات و لائسنس اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔ ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کا چالان کیا جارہا ہے۔ عام عوام کے ساتھ، اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں کا بھی چالان کاٹا جارہا ہے۔ ٹریفک پولیس کی سختیوں کے خلاف لاہور اور دیگر شہروں کی عوام نے احتجاج تو کیا ہے لیکن اب دباؤ کے باعث قوانین پر عمل کرتے نظر آرہے ہیں۔

ملک بھر میں لینڈ مافیا کے بارے میں یہ خیال مستحکم ہوچکا تھا کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ وجہ یہ بتائی جاتی رہی کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے اور مضبوط ہیں۔ ان لمبے اور مضبوط ہاتھوں کے پیچھے سیاسی عناصر بھی ملوث رہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں لاتعداد ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ جہاں نہ صرف اربوں روپے کی تجاوزات کو مسمار کیا گیا، وہیں لینڈ مافیا سے زمینوں پر قبضے بھی چھڑوائے گئے۔ یہ کاروائیاں بلا امتیاز ہورہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کہیں گندم کے ساتھ گھن بھی پِس گیا ہو، لیکن مجموعی طور پر اس عمل کو سراہنا چاہیے۔

ابھی زیادہ دور کی بات نہیں کہ جب پاکستان میں وزیراعظم کی کابینہ کے اجلاس کےلیے لوگ مہیںوں ترسا کرتے تھے۔ کیا یہ تبدیلی نہیں کہ معاشی، سیاسی، داخلی، خارجہ امور پر غور اور بات چیت کےلیے ایک تواتر کے ساتھ کابینہ کے 14 اجلاس کیے گئے۔ ریکارڈ کی درستگی کےلیے بتانا ضروری ہے کہ گزشتہ تجربہ کار حکومت کے پہلے 100 دنوں میں وفاقی کابینہ بھی تشکیل نہ پاسکی تھی۔

وزیراعظم عمران خان نے کابینہ میں اپنے وزیروں پر چیک رکھنے کا ایک اصول بھی وضع کیا ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں صرف تین بار غیر ملکی دورے کرسکیں گے، اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔ سینیٹ اور اسمبلی سیشنز کے دوران کوئی وزیر غیر ملکی دورہ نہیں کرے گا اور پارلیمانی اجلاسوں کے دوران اسلام آباد میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں گے۔ وفاقی وزیروں اور بیورو کریٹس پر پابندی عائد کی جا چکی ہے کہ وہ اپنا علاج اپنے ملک میں ہی کرائیں گے، بیرون ملک نہیں کراسکیں گے۔

عوامی شکایات کے ازالے کےلیے پاکستان سٹیزن پورٹل قائم کیا گیا ہے جہاں کچھ ہی وقت میں لاکھوں شکایات درج کروائی گئیں۔ ان شکایات پر کارروائی کا عمل بھی جاری ہے۔ یقیناً یہ کوششیں دکھوں کے مارے عوام کےلیے ریلیف ملنے کی امید کی پہلی کرن ثابت ہوسکتی ہے۔

سماجی انصاف اور قانون کے شعبے میں وومن ایکشن پلان پر ایک بھرپور کام ہوا ہے۔ وراثت کے حوالے سے طریقہ کار کو تبدیل کرکے اب نادرا سے تصدیق کروائی جائے گی۔ اس معاملے پر 7 سے 8 برس لگتے ہیں، اب یہ عمل 15 سے 30 دنوں میں مکمل کرنے پر کام ہورہا ہے۔ قانونی معاونت سے متعلق بل 10 برسوں سے زیر التوا تھا جس پر کام کیا گیا ہے۔ لیگل جسٹس اتھارٹی قائم کی جارہی ہے جو پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو قانونی معاونت دیگی۔ ایک اچھے پینل سے وکیل دیا جائے گا اور اگر کسی کا جرمانہ یا ضمانت کی رقم ہے تو اس کو کس طرح ریلیف دیا جائے یہ بھی اتھارٹی کی ذمہ داری ہوگی۔

موجودہ حکومت کے پہلے 100 دنوں میں قومی اسمبلی کے 5 اجلاس ہوئے، یہ اجلاس 24 دن جاری رہے۔ اسمبلی قواعد کی روشنی میں سال کے 365 دنوں میں قومی اسمبلی کےلیے 130 دن کارروائی چلانا ضروری ہے۔ اس شرح کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ایک قابل ذکر کارکردگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان 24 مِں سے صرف 7 دن ایوان میں آئے۔ اسمبلی میں ان کی 29 فیصد حاضری یقیناً کم ہے اور اس کمی کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم یہ حاضری ماضی میں ان کی ایوان میں 5 فیصد حاضری کے مقابلے میں بہتر ہے۔ واضح رہے کہ سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں نواز شریف کی حاضری 10 فیصد جبکہ شاہد خاقان عباسی کی حاضری 19 فیصد رہی تھی۔

قائد ایوان کے انتخاب کے 30 دن بعد تک قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کا قیام اسمبلی کے قواعد کی رو سے ضروری ہے۔ مگر کیا کریں کہ اس پر، اس مرتبہ تو کیا، گزشتہ تین جمہوری حکومتوں میں بھی کم ہی عمل ہوا ہے۔ پچھلی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں بھی بدقسمتی سے کوئی قائمہ کمیٹی قائم نہ ہوسکی تھی۔ قومی اسمبلی میں اگر بڑی مشکل سے سادہ اکثریت پوری کرنے والی تحریک انصاف پہلے 100 دنوں میں کسی قانون سازی کا پہاڑ نہ چڑھ سکی تو دو تہائی اکثریت رکھنے والی نواز لیگ، پیپلز پارٹی جیسی فرینڈلی اپوزیشن کے ساتھ کے باوجود کوئی قانون سازی نہ کرسکی تھی۔

احتساب کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے نام پر انفاق نہ ہوسکنے کے باعث یہ عہدہ تا حال خالی ہے۔ مگر کیا کریں کہ گزشتہ دور حکومت کے پہلے 100 دنوں میں نہ صرف یہی حال تھا، بلکہ پہلے 100 دن اور اس کے بعد بھی نیب کے چیئرمین کی تعیناتی بھی نہ ہوسکی تھی۔

ان تمام تر حقائق کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ گزشتہ حکومتوں میں جو نہ ہوسکا تھا وہ اس بار بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کے بلند و بالا دعووں کے باعث ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں، بلکہ اپنے آپ ہی سے ہے۔ مغربی جمہوریت میں کسی بھی حکومت کے پہلے 100 دنوں کو اس کا ہنی مون پیریڈ گردانا جاتا ہے، مگر عمران خان کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ 100 دن کے ایجنڈے اور اس پر عمل درآمد کا دعویٰ خود عمران خان ہی کا تھا۔

گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں اور تو کچھ بدلا یا نہیں، ہاں ’’نیا نو دن پرانا سودن‘‘ کا محاورہ ’’نیا سودن پرانا نو دن‘‘ میں بدل گیا ہے۔ کیونکہ میں، آپ اور ہم سب پرانے پاکستان کو 9 دن میں بھلا کر نیا پاکستان 100 دن میں بنانا چاہتے ہیں۔ اور اس کی وجہ بھی خود عمران خان ہی ہیں، کیونکہ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرسکدا۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد فیاض راجہ

محمد فیاض راجہ

محمد فیاض راجہ 15 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت، بزنس پلس ٹی وی، جیو ٹی وی اور سماء ٹی وی سے بطور رپورٹر وابستہ رہے ہیں، مختلف روزناموں میں کالم اور فیچر چھپتے رہتے ہیں۔ آج کل 92 نیوز میں بطور نمائندہ خصوصی کام کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔