عید الفطر کیلیے مردانہ کپڑے کی خریداری زور و شور سے جاری

غیرملکی کپڑے میں کاٹن کے سوٹ کی قیمت 1300 جبکہ پاکستانی کاٹن کے سوٹ کی قیمت 900روپے تک ہے، سروے۔


Kashif Hussain July 15, 2013
عید کے موقع پر ملبوسات کی تیاری کے لیے گاہک کو آپریٹیو مارکیٹ میںکپڑا خرید رہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

عید کیلیے مردانہ کپڑے کی خریداری زور و شور سے جاری ہے، مارکیٹوں میں واش اینڈ ویئر اور کاٹن کی بہترین ورائٹی متعارف کرادی گئی ہے۔

کراچی میں مردانہ کپڑے کی خریداری کے اہم مراکز ناظم آباد چائولہ مارکیٹ، قصبہ علیگڑھ مارکیٹ ، لسبیلہ، صدر کوآپریٹیو سینٹراور ڈیفنس حبیب کلاتھ سینٹر میں قائم ہیں، مردانہ کپڑوں کی خریداری میں عید کے پہلے 2 ہفتوں میں تیزی آجاتی ہے، 5 رمضان سے کپڑے کی فروخت کے مراکز میں رات گئے تک کاروبار جاری رہتا ہے اور بہت سے خریدار سحری تک خریداری میں مصروف رہتے ہیں، ڈیفنس حبیب کلاتھ مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ کاروبار گزشتہ سال کے مقابلے میں کافی کم ہے تاہم چائولہ مارکیٹ ناظم آباد کے تاجروں کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال شہر میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہے۔

شہر میں لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کی وجہ سے کپڑے کی فروخت کے مراکز سنسان پڑے تھے تاہم اب صورتحال بہتر ہے اور ہر زبان بولنے والے شہری باڑہ مارکیٹوں سے خریداری کررہے ہیں، خود دکاندار بھی بلاخوف وخطر دکانیں چلارہے ہیں جس سے کاروبار بھی بڑھ گیا ہے، پاکستانی کمپنیوں کا کپڑا غیرملکی کپڑے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے اسی لیے سمجھدار خریدار غیرملکی کپڑے کے بجائے پاکستانی کپڑے کو ترجیح دیتے ہیں، غیرملکی کپڑا چند دھلائیوں میں سلائی سے نکل جاتا ہے اور رنگ پھیکا پڑنے کی شکایات بھی عام ہیں تاہم پاکستانی کپڑا رنگوں میں پکا اور مضبوط ہے، تاجروں کے مطابق کپڑا مارکیٹ میں پاکستانی کپڑے کے علاوہ کوریا، انڈونیشیا اور چائنا کا کپڑا بھی فروخت ہورہا ہے۔



پاکستانی کپڑا میٹر کے حساب سے جبکہ غیرملکی کپڑا گز کے حساب سے فروخت ہوتا ہے، اس لیے گز کے ناپ سے کپڑا زیادہ دینا پڑتا ہے، غیرملکی کپڑے کا ارض پونے دو میٹر ہوتا ہے اس لیے چار ساڑھے چار میٹر میں سوٹ تیار ہوجاتا ہے، تاجروں کے مطابق گرمی کے باعث زیادہ تر پیپر کاٹن فروخت ہورہی ہے، پاکستانی کمپنیوں شبیر، گل احمد، لاکھانی اور دائودملز کے کپڑے کی سب سے زیادہ مانگ ہے واش اینڈ ویئر میں بھی پاکستانی کپڑا فروخت ہورہا ہے، غیرملکی کپڑے میں کاٹن کے سوٹ کی قیمت 700سے 1300روپے جبکہ پاکستانی کاٹن کے سوٹ کی قیمت 600 سے 900روپے کے درمیان ہے، واش اینڈ ویئر کپڑے کا سوٹ 700سے 800روپے میں فروخت ہورہا ہے غیرملکی کاٹن 500سے 700روپے میں فروخت کی جارہی ہے نوجوانوںکی اکثریت کھڈی کے کپڑے کے کرتے بھی پسند کرتے ہیں اسی طرح چکن کا کپڑا بھی بہت مقبول ہے چکن کے کرتے کا پیس 500سے 600روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔

عید کے بعد شادی بیاہ کے سیزن کی خریداری شروع ہوجاتی ہے

کپڑے کی خریداری شعبان سے شروع ہوکر رمضان کے آخر تک جاری رہتی ہے اور عید کی تعطیلات کے بعدشوال کے پہلے ہفتے سے شادی بیاہ کی تیاریوں کے سلسلے میں شادی کے گھروں کی خواتین کپڑوں کی خریداری شروع کردیتی ہیں، حبیب کلاتھ مارکیٹ کے دکاندار فیض الرحمن کے مطابق عید کے لیے کپڑے کی خریداری 2 مراحل میں ہوتی ہے، پہلے مرحلے میں خریدار خود اپنے اوراپنے اہل خانہ کے لیے کپڑا خریدتے ہیںجبکہ دوسرے مرحلے میں مستحقین کو دینے یا تحفے تحائف کے لیے کپڑے کی خریداری کی جاتی ہے، اسی طرح عید کی تعطیلات کے بعد بازار کھلتے ہیں، شادی بیاہ کے لیے کپڑے کی خریداری شروع ہوجاتی ہے، عام دنوں میں کپڑے کی فروخت کافی حد تک کم رہتی ہے اور شوقین افراد ہی کپڑا خریدتے ہیں، مارکیٹ کے دکاندار کے مطابق ریڈی میڈ ملبوسات کے خریداروں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے جس میں ٹیلرنگ کی اجرت کا بڑا عمل دخل ہے، بیشتر ٹیلرز رمضان کے آغاز پر ہی سلائی کے کپڑے لینا بند کردیتے ہیں اور مرد حضرات اس پریشانی سے بچنے کے لیے آخری روزوں میں ریڈی میڈ شلوار سوٹ خرید لیتے ہیں۔



ادھیڑ عمر افراد ہلکے رنگوں کو ترجیح دیتے ہوئے واش اینڈ ویئر کپڑا خریدرہے ہیں

نوجوانوں کی اکثریت گہرے رنگوں کے کاٹن سوٹ پسند کررہی ہے جبکہ ادھیڑ عمر رسیدہ افراد ہلکے رنگوں کو ترجیح دیتے ہوئے زیادہ تر واش اینڈ ویئر کپڑا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، زیادہ تر افراد کیلیے کپڑے کی خریداری خواتین ہی کرتی ہیں جوکپڑے کی رنگت کے ساتھ پائیداری کو بھی مدنظر رکھتی ہیں، کپڑا فروش دکانداروں کے مطابق خواتین مول تول کرنے میںماہر ہوتی ہیں جبکہ مرد حضرات زیادہ حجت کیے بغیر کپڑا خرید لیتے ہیں، خواتین 2سوٹ خریدنے کیلیے بھی تھان کے تھان کھلوادیتی ہیں جبکہ مرد حضرات ایک دو تھان دیکھ کر ہی کپڑا پسند کرلیتے ہیں جس سے دکانداروںکو بھی دکان سمیٹ کر رکھنے میں آسانی رہتی ہے زیادہ تر مرد خریدار ذہن بناکر خریداری کے لیے آتے ہیں اور مخصوص رنگ ہی طلب کرتے ہیں، خواتین دکان پر آکر ہی کپڑے کی رنگت کا فیصلہ کرتی ہیں جس سے دکانداروں کو گاہک نمٹانے میں زیادہ وقت لگتاہے، خواتین گاہکوں کو ڈیل کرنے والے دکانداروںکے مطابق خواتین گاہکوں کو ریٹ بڑھا کر بتانا پڑتا ہے کیونکہ خواتین مول تول کرکے ریٹ کم کروائے بغیر خریداری نہیں کرتیں جبکہ مرد گاہکوں کو فکس ریٹ بتاکر بھی کپڑا فروخت کیا جاسکتا ہے۔

مقبول خبریں