سرسوں کی فصل پشتون ثقافت کا اہم جُز

روخان یوسف زئی  جمعـء 25 جنوری 2019
پختونوں کی معاشی زندگی میں سرسوں کوصرف نقد آور فصل کا نہیں بلکہ معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں ایک اہم مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہے۔ فوٹونمائندہ ایکسپریس

پختونوں کی معاشی زندگی میں سرسوں کوصرف نقد آور فصل کا نہیں بلکہ معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں ایک اہم مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہے۔ فوٹونمائندہ ایکسپریس

پشاور: موسم سرما کے رواں بارشوں کے سلسلے سے خیبرپختونخوا کے بیشتر علاقوں میں بارانی زمینوں میں کھڑی سرسوں کی فصل تروتازہ ہوکر جوبن میں آگئی جس کی وجہ سے کاشتکار بہت خوش اور پرامید نظر آرہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں سرسوں کو بھی دیگر نقدآور فصلوں کا درجہ حاصل ہے۔ جو تیاری کے مراحل سے گزر کر چار سے پانچ ہزار روپے فی من تک فروخت ہوتی ہے۔ پختونوں کی معاشی زندگی میں سرسوں کوصرف نقد آور فصل کا نہیں بلکہ معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں ایک اہم مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہے۔

معروف شاعر، ادیب، محقق اور کالم نگار سعداللہ جان برق کا کہنا ہے کہ سرسوں کے پھول کھلنے کو پشتو عوامی شاعری کی قدیم اور مقبول صنف ٹپہ میں موسم بہار کی آمد کی علا مت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ

پہ علامہ د سپرلی پوھ شوم

جینکو راوڑل پہ اوربل کے زیڑ گلونہ

بہار کی علامت سمجھ گیا ہوں کہ دوشیزاؤں نے اپنی زلفوں میں زرد پھول سجا کر رکھ دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پختونوں کے لیے سرسوں صرف نقد آورفصل ہی نہیں بلکہ پھول، تیل اور کھانے کی روایتی ڈش بھی ہے جس کے کچے کچےگندلوں(پشتو میں غندلے اور ڈنڈروں) سے ساگ بھی پکائی اور بنائی جاتی ہے اور گندلاں کی ساگ کے ساتھ مکئی کی روٹی کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہےجس سے کھانے کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔

اگرچہ سرسوں کی ایک اور قسم  کینولا نام کی بھی کاشت کی جاتی ہے جو روایتی سرسوں کی فصل سے زیادہ مہنگی اور قیمتی ہوتی ہے مگر جو کشش خوبصورتی روایتی سرسوں کی فصل اور پھولوں کی ہوتی ہے وہ کینولا میں نہیں پائی جاتی۔ ساتھ کینولا اور روایتی سرسوں کے گندلوں کی ساگ کھانے کے ذائقے میں بھی بہت فرق ہے۔

سعداللہ جان برق کے مطابق کاشتکاروں کے لیے سرسوں کی کاشت دیگر فصلوں کے مقابل آسان اور ارزاں بھی ہوتی ہے کیونکہ اس کے ایک کلو بیج دو ایکڑ زمین کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ فصل صوبے کی زیادہ تر بارانی زمینوں پر اگائی جاتی ہے جو بغیر گوڈی دیکھ بھال اور آبیاری کے منوں کے حساب سے فصل دیتی ہے اور کاشتکاروں کے لیے گنا، گندم، چنا،  تمباکو کی طرح یہ بھی ایک اچھی نقدآور فصل ہے جس کے گندلوں کی ایک چھوٹی سی گڈی بھی دس سے بیس روپے بازاروں میں ہتھ ریڑی بان فروخت کرتے ہیں جوان کے لیے بھی ایک روزگار اور معاش کا ذریعہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔