بلدیاتی انتخابات سے فرار کیوں
سپریم کورٹ نے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ طلب کرلی ہے اور پوچھا۔۔۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ طلب کرلی ہے اور پوچھا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے حکومتیں تاریخ خود دے رہی ہیں یا یہ تاریخ بھی سپریم کورٹ کو دینا پڑے گی۔ سپریم کورٹ اس سے قبل ملک بھر کے کنٹونمنٹس میں بھی بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کی ہدایت کرچکی ہے کیونکہ کنٹونمنٹس میں بلدیاتی انتخابات گزشتہ 15برسوں میں نہیں کرائے گئے اور پاکستان کا شہری ہونے کے باوجود کنٹونمنٹس میں رہنے والوں کو نچلی سطح پر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ سابق فوجی صدرجنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں دو بار بلدیاتی انتخابات کرائے مگر انھوں نے بھی ان کنٹونمنٹس میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے تھے۔
ملک میں بلدیاتی انتخابات کسی صوبائی حکومت کا کارنامہ یا عوام پر احسان نہیں بلکہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے جس کی وضاحت سپریم کورٹ متعدد بارکرچکی ہے مگر کسی بھی جمہوری کہلانے والی صوبائی حکومت نے اپنے عوام کو نچلی سطح پر اپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کرنے کا حق نہیں دیا۔جو کام حکومتوں کے خود کرنے کا تھا وہ حکومتوں نے اعلیٰ عدالتوں کے کہنے کے باوجود نہیں کیا اور اب سپریم کورٹ نے حکومتوں سے پوچھا ہے کہ وہ خود بلدیاتی انتخابات کرارہی ہیں یا نہیں اور کیا اب سپریم کورٹ کو ہی خود بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینا پڑے گی۔
سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس موجودہ حکومت کے لیے کم اور سابق حکومتوں کے لیے انتہائی لمحہ فکریہ ہیں جنھوںنے اپنی 5 سالہ مدت پوری کرلی اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلدیات کے انتخابات کرانے میں ناکام رہیں اور نا اہل ثابت ہوئیں جو اپنے صوبوں کو کوئی بھی بلدیاتی نظام نہ دے سکیں اور سندھ بلوچستان اور کے پی کے حکومت نے ماضی میں ایک فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کا ملک کو دیاگیا 1979کا بلدیاتی نظام بحال کرکے بلدیاتی اداروں پر سرکاری افسر 5سال تک مسلط رکھے۔ بلدیاتی اداروں کے فنڈ خود استعمال کیے اور ضلع دور میں بہترین کارکردگی دکھانے والے بلدیاتی اداروں کو اس قدر تباہ وبرباد کردیا کہ وہ اپنے علاقوں میں تعمیری وترقیاتی کام کرانا تو دور کی بات اب وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں اور بلدیاتی ملازمین احتجاج کررہے ہیں۔ ملک میں سب سے بری حالت سندھ کے بلدیاتی اداروں کی ہے جن کے ملازمین کو 3ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔
اپنے وسائل خود پیدا کرکے یہی بلدیاتی ادارے آمروں کے دور میں نہ صرف تعمیری وترقیاتی کام کرایا کرتے تھے اور عوام کے بنیادی مسائل فوری حل کردیا کرتے تھے۔
فوجی آمروں، جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومتوں میں دو سے تین بار بلدیاتی انتخابات کرائے مگر نام نہاد جمہوری حکومتوں نے اپنے دور میں کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے، نواز شریف دور میں پنجاب میں صرف ایک بار بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے جب کہ پندرہ سال تک اقتدار میں رہنے والی پیپلزپارٹی کی 4حکومتوں میں کبھی ایک بار بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔ جمہوری کہلوانے والی حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے ہمیشہ راہ فرار اختیار کرتی رہی ہیں اور انھوںنے کبھی نچلی سطح پر عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق نہیں دیا تو پھر کنٹونمنٹس کیوں پیچھے رہتے انھوںنے بھی 15سال میں بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری نہیں سمجھا حالانکہ ان پر ارکان اسمبلی اثر انداز نہیں ہوسکتے جب کہ ملک بھر کے دیگر بلدیاتی اداروں پر صوبائی حکومتیں، وزراء، سینیٹرز اور ارکان اسمبلی تک اثر انداز ہوتے ہیں اور 1979کے بلدیاتی نظام کے تحت عوام کے بلدیاتی نمائندے سرکاری افسروں کے محکوم رہے ہیں عوام کے منتخب میئرز اور چیئرمینوں کو انتہائی محدود اختیارات دیے جاتے ہیں وہ نہ صرف سرکاری افسروں کے ماتحت ہوتے ہیں بلکہ انھیں ارکان اسمبلی کے احکامات بھی ماننا پڑتے ہیں۔
جنرل ایوب کے بی ڈی سسٹم میں تو بلدیاتی اداروں کا چیئرمین بھی سرکاری افسر ہوتاتھا۔ 1979کے نظام میں میئر اور چیئرمین منتخب ضرور تھے مگر وہ محکمہ بلدیات اور کمشنری نظام کے ماتحت تھے جب کہ جنرل پرویز کے ضلع نظام میں سرکاری افسر ناظمین کے ماتحت تھے اور عوام کے منتخب ناظمین کو مالی اور انتظامی اختیارات حاصل تھے۔ جو ارکان اسمبلی اور سرکاری افسروں کے مزاج کے خلاف تھے اس وقت متعدد ارکان اسمبلی نے مستعفی ہوکر ناظمین کا انتخاب لڑا تھا کیونکہ ضلعی حکومتیں با اختیار تھیں جو صوبائی حکومتوں کی محتاج نہیں تھیں اور یہی اختیارات صوبائی حکومتوں اور ارکان اسمبلی کے لیے ناقابل برداشت تھے اس لیے انھوںنے اسمبلیوں کے ذریعے با اختیار ضلع حکومتیں ختم کردیں اور صرف پنجاب میں ضلع حکومتیں قائم ہیں مگر ان کے پرکاٹ دیے گئے ہیں۔
صوبائی حکومتیں اب بھی بلدیاتی انتخابات میں مخلص نہیں ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی موجودہ حکومتیں ماضی میں5سال اقتدار میں رہیں مگر انھوںنے بلدیاتی حلقہ بندیاں نہیں کرائیں اور اب سپریم کورٹ سے حلقہ بندی کے لیے90روز کی مزید مہلت مانگ رہی ہیں بلوچستان کی حکومت نومبر میں اور کے پی کے کی حکومت نے سپریم کورٹ میں ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کا عندیہ دیا ہے مگر سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ چاروں صوبے ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرادیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہناہے کہ بلدیاتی انتخابات سے صوبائی حکومتوں کے مسائل میں کمی آئے گی اور عوام کو اپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کرنے کا آئینی حق ملے گا جو موجودہ حکومتیں سپریم کورٹ کے حکم پر تو عوام کو دینے پر مجبور ہوجائیگی وگرنہ کوئی صوبائی حکومت دل سے بلدیاتی انتخابات کرانا نہیں چاہتی اور اسی لیے 5سال سے ٹال مٹول کررہی ہیں اور اب انھیں22جولائی تک سپریم کورٹ کو آگاہ کرنا ہے وگرنہ سپریم کورٹ خود تاریخ مقرر کرے گی۔
بلدیاتی انتخابات کے سندھ میں متعدد اعلانات ہوئے جو سب جھوٹے ثابت ہوئے بلدیاتی انتخابات اگر اب بھی نہ ہوئے تو کبھی نہیں ہوںگے کیونکہ ایسا جمہوری حکومتوں کا مزاج اور ضرورت نہیں اور یہ کام آمروں کے دور میں ہی ہوتا رہا ہے۔