’’کیا ہم زندہ قوم ہیں؟‘‘ سر غلام حسین ہدایت اللہ کی قبر کا سوال

مختار احمد  ہفتہ 9 فروری 2019
محکمہ اوقاف کے سینئر افسران تک کو یہ علم نہیں کہ اس احاطے میں سر غلام حسین ہدایت اللہ مدفون ہیں۔ (عکاسی: بہزاد خان)

محکمہ اوقاف کے سینئر افسران تک کو یہ علم نہیں کہ اس احاطے میں سر غلام حسین ہدایت اللہ مدفون ہیں۔ (عکاسی: بہزاد خان)

کم و بیش ہر سال جشن یوم آزادی یا پھر یوم دفاع کے موقع پر ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ کا ملی نغمہ سننے کو ملتا ہے مگر ہم کس قدر زندہ قوم ہیں؟ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگی رہنما شیخ غلام حسین ہدایت اللہ اور ان کی زوجہ صغریٰ بیگم (جو لیڈی ہدایت اللہ کے نام سے مشہور تھیں) نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔ جب آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری تاریخی اجلاس منعقد ہوا، جس میں قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے پاکستان کا حتمی خاکہ پیش کیا تو لیڈی ہدایت اللہ سمیت متعدد رہنماؤں نے، بالخصوص پنجاب اور بنگال کے نمائندوں نے اس تقسیم پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کٹے پھٹے صوبوں پر مشتمل پاکستان نہیں چاہیے جس پر سر غلام حسین ہدایت اللہ اپنی نشست سے اٹھے اور فرمایا: بنگال اور پنجاب کے جن علاقوں کو پاکستان سے جدا کیا جارہا ہے ان تمام میں ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت ہے جو بھارت کی شہ پر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو کسی طور پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور ان کی اس دلیل پر پاکستان کی تقسیم کا الجھا ہوا مسئلہ حل ہوگیا۔

سر غلام حسین ہدایت اللہ ہوں یا ان کی اہلیہ، دونوں نے ہی جدوجہد پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا شمار قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے متعمد ساتھیوں میں کیا جاتا تھا۔ غلام حسین ہدایت اللہ 1879 میں سندھ کی سرزمین شکارپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام، ڈی جے کالج اور گورنمنٹ لاء کالج بمبئی سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور حیدرآباد میں قانونی پریکٹس شروع کی۔ 1921 میں بمبئی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور کیونکہ ذہانت، شرا فت، دیانت میں وہ اعلی درجے پر فائز تھے اس لیے اسی سال انہیں وزیر منتخب کرلیا گیا؛ اور کیونکہ انہوں نے برطانوی دور میں وزیر کی حیثیت سے اہم اصلاحات کیں اور سندھ میں تعمیر ہونے والے سکھر بیراج کےلیے نمایاں خدمات سرانجام دیں، جن کے اعتراف میں ’’خان بہادر‘‘ کے اعزاز سے نوازا… اور چونکہ سیاسی اعتبار سے ان کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں کیا جا تا تھا لہذا انہیں آل انڈیا مسلم لیگ میں بھی نمایاں مقام حاصل رہا۔

بعد ازاں انہیں 1937 سے 1938 تک پہلے وزیراعلی سندھ اور 1942 سے 1947 تک پانچویں وزیراعلی سندھ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس دوران انہوں نے نہ صرف تعلیمی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں بلکہ اگر انگریزوں کے دور میں سندھ میں ہونے والی ترقی کے پیچھے بھی ان کا ہاتھ تھا۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو قائداعظمؒ کے قریبی ساتھی اور زیرک سیاستداں ہونے پر انہیں قیام پاکستان کے بعد پہلے گورنر سندھ کا منصب عطا کیا گیا۔ انہوں نے 15 اگست 1947 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور بانی پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے نقشے پر وجود میں آنے والے نئے ملک کی تعمیر کا کام شروع کردیا۔ وہ اور ان کی اہلیہ دن رات بھارت سے آنے والے وہ مہاجرین کو، جو بے سر و سامان تھے، بسانے کا کام شروع کر دیا اور ان کے گھر سے باقاعدہ طور پر پاکستان آنے والے مہاجرین کےلیے کھانا بھی بھیجا جاتا تھا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سر ہدایت اللہ کوئی سرمایہ دار نہیں تھے مگر انہوں نے کبھی سرکاری خزانے سے تنخواہ کی مد میں کچھ بھی وصول نہیں کیا۔ اس کے باوجود ان کے گھر سے مہاجرین کےلیے لنگر کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ پھر جب 11 ستمبر 1948 کو بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور سر غلام حسین ہدایت اللہ نے مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی اقتدا میں ان کی نماز جنازہ پڑھی، تو اس وقت کے بعد سے صدمے کے باعث بیمار ہوگئے۔

قائداعظمؒ کی وفات کے ٹھیک 23 دن بعد 14 اکتوبر 1948 کو انتقال کرگئے۔ اور کیونکہ وہ شہر کراچی کی پہلی اور قدیم عیدگاہ و مسجد میں (جو مشہور صوفی بزرگ حضرت عالم شاہ بخاریؒ کے مزار سے متصل ہے) باقاعدگی سے نماز ادا کیا کرتے تھے، تو ان ہی کی خواہش اور وصیت کے مطابق تدفین کردی گئی اور ان کی قبر پختہ کرکے اس پر ٹائلیں لگانے کے ساتھ ساتھ ان کے نام کی تختی بھی آویزاں کر دی گئی۔ یہاں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ سمیت سرکاری و غیر سرکاری شخصیات حاضری دیا کرتی تھیں۔ عید گاہ کے قرب و جوار میں رہنے والے بزرگوں کا دعوی ہے کہ جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ مزار پر حاضری کےلیے تشریف لاتیں تو علاقے کے جمع ہوجانے والے بچوں کو چار چار آنے دیا کرتی تھیں۔

یہ سلسلہ مادر ملت کی پوری زندگی جاری رہا، جس کے بعد سالانہ بنیادوں پر ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ کا ملی نغمہ گانے والے اپنے اس محسن کو بھول گئے۔ پھر جب اوقاف کا محکمہ 1960 میں وجود میں آیا تو اس نے سندھ کے پہلے گورنر کی قبر کے چاروں طرف بغیر کسی دروازے کے اونچی دیواریں تعمیر کروادیں تاکہ کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ یہ قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے عظیم المرتبت شخص کی قبر ہے۔

بعد ازاں جب 2006 میں نشتر پارک میں ہونے والی میلاد مصطفی کانفرنس میں دہشت گردی ہو ئی تو اس کے نتیجے میں شہید ہونے والے اہم رہنماؤں مولانا عباس قادری، مولانا افتخار بھٹی، انجینئر عبدالعزیز خان اور دعوت اسلامی کے بانی عبدالقادر باپو کو بھی اسی جگہ سپرد خاک کیا گیا۔ اس وقت ان تمام رہنماؤں کی قبریں تو نمایاں نظر آتی ہیں مگر سندھ کے پہلے گورنر کی قبر اوقاف کی دیواروں میں قید ہے جس کی وجہ سے کسی کو یہ علم ہی نہیں کہ اس احاطے میں اتنی عظیم شخصیت مدفون ہے۔

کچھ بھولے بھٹکوں کو اگراس کی خبر ہے بھی تو وہ دیواریں ہونے کے سبب صوفی بزرگ عالم شاہ بخاری کے مزار کی چادر مانگ کر اوپر سے ہی قبر پر ڈال دیتے ہیں اور جشن آزادی کے موقعے پر دیوار کے اوپر سے ہی جھنڈیاں قبر پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ اوقاف کے سینئر افسران بھی بے خبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تو اس بات کا علم ہی نہیں کہ یہاں سندھ کے پہلے گورنر دفن ہیں۔ ہاں! انہیں اتنا ضرور علم ہے کہ قدیم عیدگاہ میدان کی تمام زمین محکمہ اوقاف کی ہے جس کے 665 یونٹس اور دکانوں پر قبضے ہیں اور قابض افراد باوجود مطالبے کے محکمے کو کرایوں کی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں۔ اسی لیے محکمہ اوقاف، قبضہ کی گئی دکانوں اور مکانوں کو خالی کروانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ ان کی اس بات سے یہ تاثر جھلکتا ہے کہ وہ سندھ کے پہلے گورنر کی قبر کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھنے کےلیے کسی سازش میں مصروف عمل ہیں۔

ایسی صورتحال میں صوبہ سندھ کے 33 ویں اور موجودہ گورنر، جناب عمران اسماعیل کے ایکشن لینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سندھ کے پہلے گورنر، جو قائداعظم کے دست راست ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں کردار بھی ادا کرتے رہے، ان کی قبر کو بھی ان کی جدوجہد، قربانیوں اور ان کے منصب کے مطابق بنایا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے ہیروز کو فراموش نہ کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عکاسی: بہزاد خان

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔