موئنجودڑو سے بھی پرانی ثقافت دریافت کرلی گئی

حفیظ تنیو  منگل 19 فروری 2019
سترھویں صدی میں ایک ٹیلے پر تعمیر کردہ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ نامی مقبرے سے کھدائی کے دوران قدیم نوادرات اور دستکاریاں دریافت ہوئیں۔ فوٹو: ایکسپریس

سترھویں صدی میں ایک ٹیلے پر تعمیر کردہ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ نامی مقبرے سے کھدائی کے دوران قدیم نوادرات اور دستکاریاں دریافت ہوئیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: لاڑکانہ سے 30 کلومیٹر کی  دوری پر رتوڈیرو  قصبے کے مضافات میں ایک مقبرہ واقع ہے۔ سترھویں صدی عیسوی میں ایک ٹیلے پر تعمیر کردہ یہ مقبرہ مقامی آبادی میں ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ کے نام سے مقبول ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس مقبرے میں رتو ڈیرو کے بانی رتوخان جلبانی کی باقیات دفن ہیں جنھوں  نے بیرونی حملہ آوروں سے اپنی سرزمین کا دفاع کرتے ہوئے جان قربان کردی تھی۔ عین ممکن تھا کہ یہ مقبرہ اور اس سے وابستہ داستان مقامی آبادی ہی تک محدود رہتی تاہم دو عشرے قبل رونما ہونے والے ایک حادثے کے نتیجے میں یہاں قدیم انسانی ساختہ اشیاء و نوادرات دریافت ہوئے، جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ مقبرہ مقامی آبادی کے لیے صدقابل احترام ہستی کی آخری آرام گاہ ہی نہیں بلکہ کسی قدیم تہذیب کا بھی مدفن ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ’’بھانڈو جو قبو‘‘ میں دریافت ہونے والے آثار وادیٔ سندھ کی تہذیب سے بھی قدیم ہیں۔

شاہ لطیف یونی ورسٹی کے شعبہ آثاریات کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محی الدین ویسار نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقام پر کھدائی کے دوران ہم نے جو دستکاریاں دریافت کی ہیں جو کوٹ ڈیجی کی ثقافت سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں، جن کے بارے میں مقامی اور عالمی ماہرین آثار قدیمہ کو یقین ہے کہ وہ وادی سندھ کی تہذیب سے زیادہ قدیم ہیں اور ممکنہ طور پر اس خطے کی سب سے قدیم ثقافت ہے۔

ڈاکٹر غلام محی الدین نے بتایا کہ کوٹ ڈیجی کی 2800 قبل مسیح قدیم ثقافت پیچیدہ سماجی اقتصادی نظام کے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے 2500 قبل مسیح میں وادی سندھ کی تہذیب کی صورت اختیار کرگئی، جہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قصبے تعمیر کیے جاتے تھے اور جہاں باقاعدہ تحریری زبان موجود تھی۔ موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ میں بھی یہی بات سب سے نمایاں ہے۔

ڈاکٹر غلام محی الدین ویسار کے مطابق جو ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ پر آثار قدیمہ دریافت کرنے والی ٹیم کے رکن تھے، ماہرین آثار قدیمہ کے علم میں یہ جگہ 1998ء میں آچکی تھی تھی جب سندھ کو ملک کے باقی حصوں سے ملانے والی انڈس ہائی وے تعمیر کی جارہی تھی۔ انھوں نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہمیں اس ٹیلے کا ہائی وے کے حکام سے پتا چلا تھا۔ شاہراہ کی تعمیر کے دوران تعمیراتی کارکنان نے 400 میٹر چوڑے ٹیلے کا نصف حصہ کھود ڈالا تھا۔ انھوں نے یہاں قدیم آثار کی موجودگی کی اطلاع دی۔

ڈاکٹر غلام محی الدین کے مطابق جلد ہی انھوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ اس جگہ کا دورہ کیا اور بہت جلد کھدائی کا آغاز کردیا گیا۔ ڈاکٹر ویسار کہتے ہیں کہ ہم نے کھدائی شروع کی تو ہمیں جو اشیاء اور دستکاریاں ملیں وہ کوٹ ڈیجی کی ثقافت سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔ ’’بھانڈو جو قبو‘‘ سے نکالی گئی کچھ دستکاریاں اور برتن وغیرہ پر ویسے ہی نقش و نگار بنے ہوئے تھے جو موئن جو دڑو سے دریافت شدہ دستکاریوں پر موجود تھے۔

’’بھانڈو جو قبو‘‘ دریافت ہونے والی دستکاریوں میں مٹی کے شکستہ ظروف، جانوروں کی ہڈیاں، سنگی باٹ اور کوئلہ وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کو آتش دانوں کی باقیات بھی ملیں۔

’’بھانڈو جو قبو‘‘ کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ویسار نے کہا کہ ایک عالمی جریدے میں مضمون شایع ہونے کے بعد دنیا بھر سے ماہرین آثار قدیمہ نے تحقیق کے لیے خیرپور یونی ورسٹی سے رابطہ کیا۔ چناں چہ 21سال کے بعد اس مقام پر یونی ورسٹی آف بارسلونا اور ٹوکیو کی میجی یونی ورسٹی کے 5 ماہرین آثار قدیمہ کی مدد سے کھدائی کا عمل دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔ اس ٹیم میں غیرملکی ماہرین کے علاوہ خود ڈاکٹر ویسار اور ڈاکٹر قاصد ملاح بھی شامل ہیں۔

تحقیقی ٹیم میں شامل ڈاکٹر ملاح نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم 4 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کر چکے ہیں۔ اب ہم یہاں سے نکالی گئی ہڈیاں اور کوئلے کو ریڈیوکارین ڈیٹنگ کے لیے اسپین بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں تا کہ اس مقام کی صحیح عمر کا بالکل درست تعین ہوسکے۔

تاریخی تحقیق کے حوالے سے وادی سندھ کی اہمیت پر اظہارخیال کرتے ہوئے ڈاکٹر ملاح نے کہا کہ ممکنہ طور پر موئن جو دڑو وادی ٔ سندھ کی تہذیب کا مرکز ہوسکتا ہے تاہم یہ واحد شہر نہیں ہوسکتا تھا، یقیناً اس دور کی مزید آبادیاں ہنوز دریافت کیے جانے کی منتظر ہیں۔

’’ بھانڈو جو قبو‘‘ کی تاریخ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مقبرہ سترھویں صدی عیسوی میں کلہوڑا حکمرانوں نے رتوخان جلبانی کی آخری آرام گاہ کے طور پر تعمیر کرایا تھا۔ اگرچہ اس میں غلطی کا احتمال ہوسکتا ہے تاہم مقامی تاریخ دانوں کو یقین ہے کہ رتوڈیرو کے بانی نے مغرب سے آنے والے پشتون لٹیروں سے جنگ میں اپنے قبیلے کی قیادت کرتے ہوئے شہادت پائی تھی۔

مقامی صحافی اعجاز قمبر نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی آبادی میں رائج داستان کے مطابق رتوخان کی شہادت کے بعد لٹیروں نے ان کا سر دھڑ سے جدا کردیا تھا اور وہ ان کا سربریدہ جسم چھوڑ کر سر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

اعجاز قمبر کے مطابق ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ کا نام رتوخان کی سربریدہ جسم ہی کی وجہ سے پڑا۔ ’’ بھانڈو‘‘ سندھی میں دھڑ کو کہتے ہیں لہٰذا اس کا نام ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ یعنی ’’ دھڑ کا مقبرہ یا مزار‘‘ پڑگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔