میرے پیارے ٹرمپ

خرم علی راؤ  جمعرات 21 فروری 2019
اتنا تو حق ہے ناں آپ کے مجھ اکلوتے عقیدت مند کو کہ بجائے شہشاہ عالم، جہاں پناہ، شاہ جہاں لکھنے کے ’’پیارے ٹرمپ‘‘ لکھ دوں، کیوں ٹھیک ہے ناں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اتنا تو حق ہے ناں آپ کے مجھ اکلوتے عقیدت مند کو کہ بجائے شہشاہ عالم، جہاں پناہ، شاہ جہاں لکھنے کے ’’پیارے ٹرمپ‘‘ لکھ دوں، کیوں ٹھیک ہے ناں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اب اتنی ساری یک طرفہ خط کتابت کے بعد تو میں ذرا بے تکلفی دکھا ہی سکتا ہوں، اتنا تو حق ہے ناں آپ کے مجھ اکلوتے عقیدت مند کو کہ بجائے شہشاہ عالم، جہاں پناہ، شاہ جہاں لکھنے کے ’’پیارے ٹرمپ‘‘ لکھ دوں، کیوں ٹھیک ہے ناں؟ یا نہیں! اچھا وہ شاہ جہاں پر ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آگیا۔ ہمارے ایک مغلیہ بادشاہ گزرے ہیں ان کا نام تو شہاب الدین محمد خرم تھا مگر خود کو شاہ جہاں لکھتے تھے۔ بڑے زبردست سول انجینئر تھے۔ ہندوستان میں بڑی زبردست اور دیرپا عمارتیں بنوا گئے ہیں۔ ایک کا نام تو عالی جاہ۔ آپ نے بھی ضرور سنا ہوگا۔ اسے تاج محل کہتے ہیں، دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتا ہے اور ابھی تک انڈین حکومتوں کو کمائی کرکے دے رہا ہے کہ لاکھوں سیاح دنیا بھر سے اسے دیکھنے آتے ہیں۔ آپ کے ملک سے بھی آتے ہیں۔

ہاں تو وہ واقعہ یہ ہے کہ شاہ ایران نے اعتراضاً ایک خط لکھا شاہ جہاں کو، کہ او بھائی! تو بادشاہ تو صرف ہندوستان کا ہے اور لکھتا خود کو شاہ جہاں ہے۔ یہ کیا ڈرامہ بازی ہے؟ فوراً وضاحت کرو! اب سوچتا ہوں کہ اگر شاہ جہاں کی جگہ آپ ہوتے تو پتا نہیں کیا ہوجاتا مگر وہ آدمی سمجھ دار اور برد بار تھا، وزیر اعظم کو بلا کر شاہ ایران کا خط دیا اور تین دن میں جواب دینے کی ڈیڈ لائن شاہانہ انداز میں دے ڈالی۔ اب وزیر اعظم کی سمجھ میں نہ آئے کہ کیا جواب لکھوں؛ اور ڈیڈ لائن تھی کہ قریب آتی جا رہی تھی۔ وہ ایک مدرسے کا سرپرست بھی تھا، وہاں گیا تو اسی فکر میں علما سے مشورہ کیا کہ کوئی جواب بتائیے۔ وہ بھی گومگو کے عالم میں رہے، کچھ سمجھ نہ آئے۔ ایک طالب علم تھا، اس نے سن لیا۔ وہ آیا اور بصد ادب وزیراعظم سے کہا کہ جناب! میں جواب لکھ دوں گا مگر بادشاہ کے سامنے۔ مرتا کیا نہ کرتا، وزیرِاعظم اگلے روز اسے دربار لے گیا۔

طالب علم نے شاہی آداب بجا لانے کے بعد ایک تہہ شدہ پرچہ نکالا اور بادشاہ کے چوب دار کو تھما دیا۔ چوب دار نے بحکمِ شاہی بہ آوازِ بلند پڑھا تو جواب لکھا تھا کہ جہان اور ہند کے اعداد علم الاعداد کی رُو سے یکساں ہیں، اس لیے میں خود کو شاہ جہاں لکھ سکتا ہوں۔ بڑی واہ وا ہوئی اور اس اسٹوڈنٹ کی لائف بن گئی۔

لیکن جنابِ عالی! آپ تو بلا اختلاف بادشاہِ عالم ہیں، شاہِ جہاں ہیں، سچی۔ آپ کو سچ بتا رہا ہوں بالکل، کہ مجھے اتنا افسوس ہوا تھا جب آپ کے سیکریٹری ڈیفنس جیمز میٹس نے آپ کو پاگل کہا تھا، ہائے ہائے، شرم تو نہیں آئی۔ ’’جم ما‘‘ کہیں کا! بہت اچھا کیا آپ نے جو اسے کابینہ سے نکال دیا۔ میں تو اتنا دلگیر ہو گیا تھا کہ میں نے ایک بلاگ بھی لکھا تھا کہ ’’اوئے پاگل مت کہنا‘‘ خوب لتے لیے تھے اس ’’جم مے‘‘ کے میں نے اس میں، آخر دنیا میں آپ کا سب سے بڑا فین میں ہی تو ہوں!

آپ کے اخباری بیانات پڑھ کر مجھے نہ جانے کیوں اپنے بہت سارے اردو زبان کے عظیم مزاح نگار یاد آجاتے ہیں۔ قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان کی بے مثال تحاریر پڑھ کر جو شگفتگی، فرحت اور مسکراہٹ کا احساس ہوا کرتا ہے، وہی جناب کے بیانات پڑھ کر ہوتا ہے۔ جیسے مثلاً ابھی آپ نے افغانستان سے فوجیں واپس بلوانے کے ضمن میں دیئے گئے ایک حالیہ بیان میں ارشاد فرمایا ہے کہ عظیم قومیں طویل جنگیں نہیں لڑا کرتیں!

جناب والا حق گوئی تو آپ پر ختم ہے، ورنہ کون خود کو حقیر کہہ سکتا ہے۔ مجھے تو آپ کے بیان میں ضبطِ نفس اور غرور و کبر سے اجتناب والی عظیم الشان سی درویشانہ خصوصیات نظر آگئی ہیں کہ ویت نام، اور افغانستان میں طویل ترین جنگیں لڑنے والی قوم کا لیڈر خود کو کیا کہہ گیا… حق گوئی ہو تو ایسی! واہ جناب واہ! کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ ویسے میرا حقیر سا مشورہ ہے کہ جنابِ والا آپ مزاح نگاری کی طرف توجہ ضرور دیجیے گا، ریٹائرمنٹ کے بعد!

اچھا سر جی! وہ ڈرتے ڈرتے بات ذرا یہ کرنی تھی کہ اب جب شومئی قسمت آپ کو ایک مرتبہ پھر سے ہماری یعنی پاکستان کی ضرورت برائے افغان مذاکرات پڑ ہی گئی ہے۔ تو جناب، اگر ناراض نہ ہوں تو عرض کروں کہ ہمارے پیسے تو بھجوا دیجیے ناں، کم ازکم کولیشن سپورٹ فنڈ ہے۔ اور بھی دو چار چھوٹے موٹے بل ہیں سر جی۔ پہلے پہل تو دو ڈھائی ارب ڈالر کی معمولی سی ابتدائی رقم ہے، یہ تو جناب اپ کے بچوں کی پاکٹ منی سے بھی کم ہے مگر ہمارے لیے ذرا یوں اہم ہے کہ آج کل سرکاری ہاتھ تھوڑا تنگ ہے۔ امید ہے کہ ڈھائی ارب ڈالر جو کہ اصل واجب الادا بل کی پہلی قسط ہے، جلد مل جائے گی کہ آپ تو حاتم طائی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخی ہیں… سخیوں دی خیر! بچے جیوندے رہویں!

اور دوسری گزارش یہ ہے کہ آپ ناں اس ایران کے بچے کو زیادہ برا بھلا نہ کہا کیجیے، یہ آپ کی شان سے بعید ہے۔ کہاں آپ بزعمِ خود دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے اکلوتے سربراہ، کہاں وہ بے چارہ چھوٹا سا ایشیائی ملک۔ اگر اس سے الجھیں گے تو لوگ تھو تھو کریں گے کہ دیکھو کتنا بڑا آدمی، بچے سے لڑتا ہے۔ میں تو اپ کا عاشق زار، عقیدت مند اور دلدادہ وغیرہ ہوں ناں، اس لیے سمجھا رہا ہوں ورنہ مجھے پتا ہے کہ کتنے لوگ آپ کو اکسانے میں شب و روز لگے ہی رہتے ہیں۔

اچھا سر جی! باتیں تو بہت سی تھیں کرنے والی مگر کیا کروں یہ دنیا کے دھندے جان ہی نہیں چھوڑتے۔ میں تو کہتا ہوں کہ آپ مجھے امریکا کی شہریت یہاں ہی دے دیجیے، اور یہیں میرا وظیفہ ڈالروں میں مقرر کردیجیے کہ اس نانِ جویں کی تگ و دو سے تو جان چھوٹے اور میں سارا وقت جناب کی تعریف میں نثر لکھنے اور لمبی لمبی نظمیں کہنے میں لگا رہوں۔ کیسا آئیڈیا ہے؟ غور ضرور کیجیے گا۔

اچھا تو اب اپنے اکلوتےعقیدت مند کو اجازت دیجیے، اپنے گھر والوں کو میری طرف سے دیر تک خصوصی والا دلی پیار دیجیے گا۔

فقط آپ کا واحد عقیدت مند،

خرم علی راؤ

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔