بیمار ذہنیت کا علاج کیسے ہو

مغربی دنیا کا رویہ عکاس ہے کہ مسلمان مخالف ذہنیت رکھنے والے چاہے کسی بھی ملک یا مذہب سے ہوں، وہ واقعی ذہنی مریض ہیں


کیا کسی دہشت گرد کا ذہنی مریض ہونا اس کو مذہب کی پہچان کروا سکتا ہے ؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

FAISALABAD: بدقسمتی سے دنیا میں جہاں بھی کوئی دہشت گرد کارروائی کرتا ہے تو اس کے تانے بانے گھما پھرا کر مسلمانوں سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔ مغربی دنیا کا یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مسلمان مخالف ذہنیت رکھنے والے لوگ چاہے وہ کسی بھی ملک یا مذہب سے ہوں، وہ واقعی ذہنی مریض ہیں۔ اگر کہیں بھی کوئی غیر مسلم دہشت گرد حملہ کرے تو سب سے پہلے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح مذہب اسلام سے جوڑ دیا جائے، یعنی کہ دہشت گرد کا رجحان اسلام کی طرف تھا یا پھر وہ اسلام قبول کرنے والا تھا یا پھر اس کا اٹھنا بیٹھنا کسی مسلمان لڑکے یا پھر لڑکی کے ساتھ تھا، اس لیے اس نے یہ دہشت گردانہ کارروائی کی۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مغربی دنیا یہ ثابت کرنے پر بضد ہے کہ تمام کے تمام مسلمان انتہاپسند اور دہشت گرد ہیں، جب کہ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی دہشت گرد کا تعلق مسلمانوں سے ثابت نہ کیا جاسکے تو مذکورہ دہشت گرد کو ذہنی مریض کا خطاب دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب دہشت گردی کا شکار خود مسلمان ہوں تو کیسے کسی دہشت گرد کا تعلق اسلام سے جوڑا جاسکتا ہے؟

نیوزی لینڈ کی مساجد میں درجنوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا تھا، اس کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ مسلمانوں کو ہی قتل کرنے لگا ہے ۔ کیا کسی دہشت گرد کا ذہنی مریض ہونا اس کو مذہب کی پہچان کروا سکتا ہے؟

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو اب تک سیکڑوں دہشت گردی کے واقعات امریکا، فرانس، انگلینڈ، جرمنی اور دوسرے یورپی ملکوں میں ایسے ہوچکے ہیں جن میں دہشت گرد غیر مسلم تھے، لیکن آج تک کبھی کسی بڑے ملک کے سربراہ نے نام لے کر نہیں کہا کہ دہشت گرد عیسائی تھا، یہودی تھا، بدھ مت تھا، ہندو تھا یا پھر کسی اور غیر مسلم مذہب سے تعلق تھا۔ نہ ہی کبھی کسی نے غیر مسلم مذہب کا نام لے کر یہ کہا ہو کہ فلاں مذہب ہی غلط ہے اور اس مذہب کے ماننے والے سب ہی لوگ دہشت گرد ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اگر کوئی دہشت گرد مسلمان ثابت ہوجائے تو اس کا اتنا واویلا کیا جاتا ہے کہ ساری دنیا میں یہ پروپیگنڈا چل نکلتا ہے کہ خدانخواستہ اسلام کے ماننے والے سب ہی لوگ ایک جیسے ہیں۔ اب تک کی تاریخ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ جب بھی کسی دہشت گردانہ کارروائی میں کوئی مسلمان ملوث نظر آیا تو اس کے ردعمل میں مسلمانوں کے خلاف جوابی کارروائیاں شروع کردی گئیں، کبھی کسی ملک نے مسلمانوں پر اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی تو کبھی کسی نے اپنے ہی ملک کے مسلمان شہریوں کو کئی طرح کی پابندیوں کا شکار کرکے ان کی زندگی مشکل بنادی۔

نیوزی لینڈ کے حالیہ واقعے میں جہاں ایک طرف تو مسلمان خود ہی دہشت گردی کا شکار ہوئے تو دوسری طرف بعض پڑھے لکھے، مہذب انتہاپسند اور ذہنی بیمار لوگ مسلمانوں کو ہی اس کا ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں۔ جیسا کہ آسٹریلیا کے ایک سینیٹر نے یہ بیان دے کر مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی کہ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خائف ہوکر ایک شخص نے یہ کارروائی کی۔ ساتھ ہی ساتھ آسٹریلوی سینیٹر نے اپنے امیگریشن حکام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ضرورت سے زیادہ مسلمانوں کو آسٹریلیا میں امیگریشن دے رہے ہیں۔ یہ کوئی ہلکا سا بیان نہیں تھا بلکہ کئی ایک غیر مسلم ممالک اس کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ واقعی مسلمانوں کو اپنے ملک میں امیگریشن دینی چاہیے یا نہیں؟ کیونکہ اگر مسلمان زیادہ تعداد میں ہوگئے تو مستقبل میں ان کے ملک میں بھی کوئی ''ذہنی مریض'' ایسی دہشت گردانہ کارروائی کرسکتا ہے۔ دوسری جانب کبھی بھی کوئی مسلم ملک، چاہے وہ سعودی عرب ہو، ترکی ہو، پاکستان ہو، انڈونیشیا ہو یا پھر ملائیشیا، کبھی بھی غیر مسلم آبادیوں سے خائف نہیں ہوئے بلکہ غیر مسلموں کو بھی تحفظ اور حقوق فراہم کیے۔

جہاں تک ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک کی بات ہے، وہاں پر ان کے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق تو برابری کی بنیاد پر میسر ہیں مگر مسلمانوں کے خلاف جو ذہنوں میں نفرت ڈال دی گئی ہے، اس کا کوئی سدباب نہیں کیا جارہا۔ آئے روز مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز رویہ اور انتقامی کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی NGOs کو مسلم ممالک میں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آجاتی ہیں مگر بھارت، اسرائیل اور میانمار میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی انتقامی کارروائیاں کبھی نظر نہیں آئیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنے ملک میں مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہ کرنے پر مسلمانوں سے معافی مانگی ہے۔ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی ملک کے سربراہ نے کھل کر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے، وگرنہ تو ہر بار دہشت گردانہ حملوں کے بعد وہاں کے حکمرانوں کو مسلمانوں کے خلاف ہی بولتے ہوئے پایا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج تقریباً دنیا کے ہر غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کو نفرت کا سامنا ہے ۔ سرعام مسلمانوں پر جملے کسے جاتے ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں، مسلمان عورتوں کے نقاب کرنے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، حتیٰ کہ زبردستی نقاب اتروا دیے جاتے ہیں۔ ائیرپورٹس پر سیکیورٹی چیکنگ کے نام پر مسلمانوں کی شرمناک انداز میں تلاشی لی جاتی ہے۔ اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی ختم ہوتی جارہی ہے، قوت برداشت کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، غیر مسلم ممالک میں سیاستدان اپنی سیاست ہی مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر کررہے ہیں۔

ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ، اس لیے اگر مسلمانوں کے خلاف جب نفرت برداشت کی حدود کراس کرے گی تو پھر جواباً ردعمل بھی سامنے آنے کا امکان موجود ہے، جو کہ دنیا کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں