بھارت میں لوک سبھا چناؤ 2019

مبین مرزا  اتوار 7 اپريل 2019
ہندوستان کے چناؤ 2019ء میں مسلمان اور سکھ اقلیتیں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں اہمیت کی حامل ہوں گی۔ فوٹو: فائل

ہندوستان کے چناؤ 2019ء میں مسلمان اور سکھ اقلیتیں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں اہمیت کی حامل ہوں گی۔ فوٹو: فائل

بھارت میں عام انتخابات کا آغاز چند روز بعد ہورہا ہے۔ یہ لوک سبھا کا سترھواں انتخاب ہوگا۔

سات حصوں میں ہونے والے اس انتخاب کی ابتدا گیارہ اپریل 2019ء سے ہوگی، جب 91 نشستوں کے لیے ملک کے بیس حصوں میں انتخاب ہوگا جن میں آندھرا پردیش، آسام، بہار، جموں و کشمیر، مہاراشٹر، اُترکھنڈ، مغربی بنگال، اُترپردیش اور انڈمان شامل ہیں۔ انتخابات کا آخری مرحلہ 19 مئی کو ہوگا، جب آٹھ علاقوں جن میں ہماچل پردیش، جھاڑ کھنڈ، مدھیہ پردیش، پنجاب اور چندی گڑھ شامل ہیں، انسٹھ نشستوں پر مقابلہ ہوگا۔

اس کے بعد 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور اْسی شام یا رات تک نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ 543 نشستوں پر ہونے والے اس انتخابات میں سادہ اکثریت یعنی کم سے کم 272 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت اقتدار میں آکر حکومت بنانے کی اہل ہوگی۔ اس انتخاب میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اور آزاد حیثیت میں کل ملاکر 8251 امیدوار میدان میں اتریں گے۔ بھارت میں اس وقت سات سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو بڑے عوامی اثرورسوخ کی حامل نظر آتی ہیں اور قومی سطح پر اپنے سیاسی وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ ان میں انڈین نیشنل کانگریس (INC) سب سے پرانی جماعت ہے۔ یہ 1885ء میں قائم ہوئی تھی۔

اس وقت اندراگاندھی کے پوتے اور راجیو گاندھی کے بیٹے راہول گاندھی اس کے سربراہ ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI) دوسری سب سے پرانی جماعت ہے۔ یہ 1925ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے سربراہ سوراورم سدھاکار ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) 1964ء میں قائم کی گئی۔ اس وقت اس کے سربراہ سیتارام یچوری ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی 1980ء میں وجود میں آئی۔ اس کے سربراہ امیت شا ہیں، لیکن سب سے نمایاں اور مرکزی شخصیت نریندر مودی ہیں۔ ان کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی (BSP)، آل انڈیا ترنمول کانگریس (AITC) اور نیشنل کانگریس پارٹی (NCP) بھی مرکزی قومی سطح کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اکیاون سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو علاقائی یا ریاستی سطح پر فعال ہیں اور اپنا ووٹ بینک رکھتی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان کے علاوہ چھپن سیاسی جماعتیں اور بھی ہیں جنھوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا میں اپنی رجسٹریشن تو بے شک کروائی ہوئی ہے، لیکن عوامی حلقوں میں ان کا اثرورسوخ کچھ زیادہ نہیں ہے۔

ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کی گذشتہ چار پانچ دہائیوں کو سامنے رکھا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہی وہ دو سیاسی جماعتیں ہیں جو ملک کی اقتداری راہ داری میں نمایاں رہی ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس اس وقت قائم ہوئی تھی جب ہندوستان پر برطانوی راج تھا اور تاجِ برطانیہ کا جھنڈا اقتدار کی چھت اور دالانوں میں لہراتا تھا۔ جب کہ بی جے پی اْس کے لگ بھگ سو سال بعد سیاسی میدان میں اْتری تھی۔ دونوں جماعتیں یوں تو جمہوری اقتدار کی علم برداری اور کثیر لسانی، ثقافتی اور مذہبی اقدار و رجحانات کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن دونوں ملک کی ہندو اکثریت کی طرف واضح جھکاؤ رکھتی دیکھی گئی ہیں۔ گذشتہ دو عشروں میں خاص طور سے ہندوستانی سیاست نے جو رخ اختیار کیا ہے۔

اس کے بعد اب ملک کے عوام کانگریس کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس کے یہاں اقلیتوں کے لیے گنجائش تھوڑی زیادہ پھر بھی نظر آتی ہے، جب کہ بی جے پی میں ہندو انتہاپسند رجحان قدرے نمایاں ہے اور پارٹی کا یہ عنصر شروع ہی سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہا ہے۔ تاہم اس میں جب تک واجپائی جیسے سیاسی راہ نما رہے، یہ عنصر کسی نہ کسی طرح بہرحال ایک حد میں رہا اور اسے جمہوری قدروں کا پابند بنانے کی کوشش بھی کسی طور کام یاب رہی، لیکن بی جے پی کے حالیہ مرکزی راہ نما نریندر مودی انتہا پسند ہندو نظریات کی مستقل پہچان رکھتے آئے ہیں۔

خاص طور سے اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت، یعنی مسلمانوں کے خلاف ان کی کھلی منافرت کے جذبات کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ یہ صرف ایک الزام نہیں ہے، بلکہ نریندر مودی کا سارا سیاسی کیریئر اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے زمانے میں گجرات کے مسلمانوں کا جس طرح بہیمانہ قتلِ عام ہوا، مسلمان خاندانوں کو ان کے صوبے خصوصاً گجرات سے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر جس طرح نقل مکانی کرنی پڑی، ان کی جائیدادوں، اشیاء اور مال پر جس طرح غاصبانہ قبضہ جمایا گیا، وہ ہندوستان کی جمہوری تاریخ کے شرم ناک واقعات کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ ایسے واقعات کا ارتکاب کرنے والے افراد کو حکومتی اداروں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کا ثبوت عالمی ذرائع ابلاغ نے حاصل کیا اور ساری دنیا کے سامنے پیش بھی کیا۔

2014ء کے انتخابات میں بی جے پی نے لوک سبھا کی 280 نشستیں حاصل کی تھیں۔ ملکی تاریخ میں گذشتہ تیس برسوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جماعت نے اتنی واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد اپنے اتحادیوں کے ساتھ وہ تین سے زائد نشستوں کا ہدف حاصل کرنے میں بہت آسانی سے کام یاب رہی۔ چناںچہ نریندر مودی وزارتِ اعلیٰ سے اٹھ کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک آپہنچے۔ اس انتخاب میں بی جے پی نے ’’اب راج کرے گا ہندو‘‘ کا نعرہ لگایا تھا جس نے ملک کی اکثریت میں خوب مقبولیت حاصل کی اور انتخابی عمل کو ایک خاص رخ بھی دیا اور ان کے دورِ اقتدار میں ہندوؤں کی انتہا پسندی کے واقعات سامنے آئے۔

ان کی سب سے بڑی مخالف جماعت کانگریس ان کے اس منفی رجحان کا زور توڑنے میں ناکام رہی تھی۔ خود بی جے پی کے کچھ راہنما بھی اس رویے اور نعرے کے حق میں نہیں تھے، لیکن وہ پارٹی کی اکثریت کے سامنے بے بس تھے۔ نریندر مودی 2019ء کے انتخابات میں ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ اور ان کی جماعت اقتدار کی امیدوار ہے۔ کیا بی جے پی اور نریندر مودی 2019ء میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کام یاب رہیں گے؟

اس سوال پر ہندوستان کے سیاسی و سماجی ماہرین، صحافتی حضرات، اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی مختلف زاویوں سے اپنے اپنے انداز میں غور کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ 2019ء کے انتخابات پر جو معاملات اور مسائل اثر انداز ہوں گے ان میں پلوامہ کا واقعہ، پاکستان سے ہندوستان کا تناؤ اور پاکستان کا بھرپور، مؤثر اور معتدل جواب، نیشنل سیکیوریٹی، بے روزگاری، اقلیتوں میں بڑھنے والا عدم تحفظ کا احساس نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں حزبِ اختلاف نے مودی سرکار پر رافیل طیاروں کے حوالے سے بہت بڑے گھپلے کا الزام لگایا ہے۔

اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی سرکار نے ملک میں جمہوری عمل اور اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ، پارلیمان، ذرائع ابلاغ، ریزرو بینک ا?ف انڈیا، مرکزی بیورو تحقیقات اور حقِ آگاہی کے قانون کو بھی مودی سرکار نے زک پہنچائی ہے اور انھیں اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا ہے۔ مودی نے حزبِ اختلاف کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ایسی باتوں کو ’’ایک بڑا لطیفہ‘‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن ان پر جھوٹے الزامات لگا رہی ہے، جب کہ وہ خود اصل میں ان کاموں کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کو اداروں کی تباہی کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔

پلوامہ میں انڈین پولیس فورس پر حملے کے بعد جس میں چالیس سے زائد اہل کار مارے گئے تھے، مودی سرکار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ کہا گیا تھا کہ سیکیوریٹی اداروں کو حکومت نے اپنے کاموں میں اس طرح ملوث کرلیا ہے کہ وہ خود اپنے دفاع اور تحفظ تک سے غافل ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن نے جس غم و غصے کا اظہار کیا، اس نے حکومت پر سخت دباؤپیدا کردیا۔ اْس سے نکلنے کے لیے اس نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بالاکوٹ کے قریبی علاقے میں ان کے جہاز بم گرا کر چلے گئے۔ مودی سرکار نے اسے سرجیکل اسٹرائیک کہا اور اپنی بڑی کام یابی قرار دیتے ہوئے دہشت گردوں کے کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ ہندوستان کے ذرائع ابلاغ نے حکومتی اعلامیے کے مطابق یہ خبریں نشر کیں کہ اس کارروائی میں تین سو سے زائد دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

اپنی کامیابی کو مزید ابھارنے اور عوامی جذبات کو متحرک کرنے کے لیے مودی سرکار نے اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کی اور پاکستان کی طرف تین جنگی جہاز بھیجے گئے۔ پاکستان آرمی نے اس کا بھرپور جواب دیا اور دو جہاز مار گرائے۔ ان میں ایک پاکستان کی حدود میں گرا اور اس کے پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس وقت تک ہندوستان میں حکومت کا ہم نوا الیکٹرونک میڈیا مودی سرکار کی ان دونوں سرجیکل اسٹرائیکس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا تھا۔ تازہ حملے کو بھی حکومت کی بڑی کامیابی بتایا جارہا تھا۔ وہ تو جب پاکستانی میڈیا نے جہاز مار گرائے جانے کی خبر فوٹیج کے ساتھ نشر کی اور ابھینندن کو آرمڈ فورسز کی تحویل میں دکھایا تو انڈین چینلز نے ایک جہاز اور پائلٹ کے ’’مسنگ‘‘ ہونے کا اعلان اور بعد میں اْسے گرفتاری کا اعتراف بھی کرنا پڑا۔

ہندوستان میں مودی حکومت کے پاکستان کے خلاف ان اقدامات کو سرکاری سرپرستی والے چینلز نے ہر ممکن طریقے سے مودی سرکار کی ساکھ کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنے کی وجہ سے بالآخر اسے خاموش ہونا پڑا۔ دوسری طرف اپوزیشن نے ان اقدامات پر بھرپور ردِعمل کا اظہار اور کہا کہ مودی جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔ وہ اگلا الیکشن فوجیوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر جیتنا چاہتے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کو جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ ملک کے عوام کو آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کا یہ ردِعمل بے حد شدید تھا اور چوںکہ حالات و حقائق بھی حکومتی اقدامات اور اعلانات کی قلعی کھول چکے تھے، اس لیے مودی سرکار کے پاس اپوزیشن کو جواب دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ آخر بے بس ہوکر انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اپوزیشن ان کی مخالفت میں ملک کے دشمنوں کی زبان بول رہی ہے اور انھیں مضبوط کررہی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں اور عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ 2014ء میں انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے 2017ء میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست مدھیہ پردیش اور ملک کے شمالی مشرقی حصوں میں ضمنی انتخابات میں کام یابی حاصل کرنے تک مودی سرکار کے پاؤں مضبوطی سے جمے ہوئے تھے اور اس کی ہوا بندھی ہوئی تھی۔ اس وقت مودی ملک کے سب سے مقبول اور بااثر سیاسی راہنما نظر آتے تھے۔ تاہم اب حالات کی تبدیلی کے نشانات واضح ہوچکے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران میں بی جے پی کو کئی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ کے انتخاب میں کانگریس نے بی جے پی کو ہرا دیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں تو کانگریس دو تہائی اکثریت کے قریب پہنچ گئی اور اس نے بی جے پی کے دس سالہ اقتدار کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔

2014ء کے چناؤ کی مہم کے دوران میں نریندر مودی نے جن چیزوں کو بار بار دہرایا اور عوام کو دینے کا وعدہ کیا تھا، ان میں ہندوستانی معیشت کی بہتری اور نوجوانوں کے لیے ملازمت اور روزگار کے مواقع سب سے نمایاں تھے۔ علاوہ ازیں نریندر مودی خود کو ملک کے مفلوک الحال طبقے کا ساتھی اور مکھیا کہتے رہے تھے۔ تاہم ان کے دورِ اقتدار میں کاروباری خوش حالی کہیں نظر نہیں آتی۔ ہندوستان میں ہر سال لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ نوجوان تلاشِ معاش کے میدان میں اترتے ہیں۔ مودی سرکاری نے ان کے لیے اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق کچھ نہیں کیا۔

جنوبی بنگلور کی پریم جی یونی ورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح ملک کے ہندو اکثریتی علاقوں میں گذشتہ برسوں میں جس طرح ہندو انتہا پسندی کا اظہار ہوا ہے، اس نے بھی لبرل مزاج اور آزاد خیال طبقوں کو سخت تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ مسلمانوں، سکھوں اور کمیونسٹ ذہن رکھنے والوں کے خلاف جس رویے کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس نے ہندوستان کی کثیر ثقافتی زندگی کے ماحول کو بری طرح متأثر کیا ہے۔ عدم برداشت کی فضا بڑھتی چلی گئی ہے۔ ملک میں مذہبی، لسانی اور ثقافتی تصادم کے حالات پیدا ہوچکے ہیں جو کسی بھی وقت دنگا فساد پھیلنے کا جواز فراہم کرسکتے ہیں۔

حالات کے یہ سارے مسائل اپنی جگہ اور سیاسی کھیل کا نتیجہ اپنی جگہ۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ان سارے عوامل کے باوجود زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ نریندر مودی ایک بار پھر ایوانِ اقتدار میں فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے داخل ہوں۔ اس کی وجہ ان کی سیاسی حکمتِ عملی، سماجی بصیرت اور عوام کے لیے کرشمہ ساز شخصیت نہیں، بلکہ کچھ اور ہے۔ اس ضمن میں دو پہلوؤں کی نشان دہی خاص طور سے کی جارہی ہے۔ ایک یہ کہ انڈین آرمی میں مودی اپنا ایک رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کے بعض ناکام فیصلوں اور شکست سے دوچار ہونے والے اقدامات کے باوجود فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ اپنے اقتدار کے آخری ایام تک مودی سرکار نے اپنے اسی اثرورسوخ کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائی فوج کی اسی پشت پناہی کا ثبوت ہے۔

ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ ملک کا سارا لبرل اور آزاد خیال طبقہ دوسری بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ ہے۔ وہ اس کے اقدامات کو سراہتا اور اسے مضبوط بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ مسلمان آبادی کا ایک حصہ بھی کانگریس کے ساتھ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی مل کر کانگریس کی وہ عوامی قوت بنانے میں کام یاب نہیں ہوسکے ہیں جو وہ اندرا گاندھی کے دور میں، راجیو گاندھی کی قیادت میں اور راجیو گاندھی کی موت کے بعد کے زمانے میں تھی۔ اس کا سبب سکھ اقلیت میں اس کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو بتایا جاتا ہے۔ پینتیس سال پہلے کیے گئے آپریشن بلیو اسٹار کی ہول ناک یادیں سکھ عوامی حافظے سے ابھی تک محو نہیں ہوئی ہیں، جس میں امرتسر کے ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) پر حملہ کرکے ان کے ہر دل عزیز مذہبی رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے چناؤ 2019ء میں مسلمان اور سکھ اقلیتیں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں اہمیت کی حامل ہوں گی۔ ان کے بعد کمیونسٹ پارٹی بھی ایک سیاسی قوت کے طور پر حکومت سازی میں کردار ادا کرے گی۔ اس چناؤ کے نتائج اس طرح سامنے نہیں آئیں گے جس طرح 2014ء کے انتخابات کے بعد آئے تھے۔ حکومت میں آنے والی جماعت کو اتحاد بنانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اتحاد کے ساتھ قائم ہونے والی حکومت ہی دراصل اب ہندوستان کے حقیقی سیاسی حالات کی نمائندگی کرے گی اور وہی اس کے سیاسی دھارے کا رخ اور سماج کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔